جنرل راحیل کا دو ٹوک اعلان

زمرد نقوی  پير 31 اگست 2015
www.facebook.com/shah Naqvi

www.facebook.com/shah Naqvi

پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کراچی سے دہشت گردوں، جرائم پیشہ عناصر اور مافیاز کے خاتمے کے لیے بلا امتیاز آپریشن جاری رکھنے، شہر قائد کو پرامن بنانے کے لیے دہشت گردی، جرائم پیشہ مافیاز، کرپشن اور تشدد کے مابین شیطانی گٹھ جوڑ توڑنے کی ہدایت کی ہے۔ جب کہ دہشت گردوں کے زیر التوا مقدمات جلد نمٹانے کے لیے کراچی میں فوجی عدالتوں کی تعداد بڑھانے کی منظوری بھی دی ہے۔ یہ ہدایات انھوں نے کور ہیڈ کوارٹرز کراچی میں امن و امان سے متعلق اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے دیں۔ اس اعلیٰ سطحی اجلاس میں کور کمانڈر کراچی‘ ڈی جی ایس پی آر‘ ڈی جی رینجرز‘ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے نمایندوں اور دیگر اعلیٰ سول حکام نے شرکت کی۔ بریفنگ کے دوران آرمی چیف کو بتایا گیا کہ آپریشنز کے نتیجے میں کراچی میں امن و امان کی صورت حال میں بہتری آئی ہے۔

اس موقعہ پر کراچی پولیس کی استعداد کار کے فروغ کے لیے ان کی مکمل تربیت کے علاوہ ساڑھے 6 کروڑ روپے کے آلات بھی کراچی پولیس کے حوالے کیے گئے۔ جب آرمی چیف کراچی میں خطاب کر رہے تھے۔ اسی دن اسلام آباد میں ایم کیو ایم اور سرکاری وفود کی ملاقاتیں ہو رہی تھیں جس کا مقصد ایم کیو ایم ارکان کو اسمبلیوں میں واپس لانا تھا۔ آرمی چیف کا دورہ کراچی سیاسی قوتوں کو واضح پیغام ہے کہ کراچی آپریشن پر نہ کوئی کمپرو مائز ہو گا اور نہ ہی کوئی سیاسی مداخلت برداشت کی جائے گی۔ آرمی چیف کا یہ پیغام بروقت ہے۔ آرمی چیف نے کراچی آپریشن کے حوالے سے ایسے ہی کراچی کے عوام کی تعریف نہیں کی۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے نصف سے زیادہ تعداد اس آپریشن کی حامی ہے جس کی وجہ سے شہر قائد میں کافی حد تک امن بحال ہو گیا ہے اور کاروباری سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے۔

دہشت گردوں کا سب سے خطرناک گٹھ جوڑ منشیات فروشوں سے ہے۔ یہ ایسا خطرہ ہے کہ اس سے بڑا خطرہ ملکی سلامتی کے لیے کوئی اور نہیں۔ افغانستان میں جب ستر کی دہائی میں امریکی جنگ شروع ہوئی اس کے بعد سے منشیات کے پیسے کا پاکستانی سیاست میں عمل دخل شروع ہو گیا۔ پاکستان منشیات کی فروخت کے حوالے سے دنیا میں بطور راہداری استعمال ہو رہا ہے۔ افغانستان میں پیدا ہونے والی منشیات کا نصف کے قریب پاکستان سے باہر جاتا ہے۔ اتنی بڑی مقدار میں منشیات کے پاکستان سے باہر جانے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں عدم استحکام ہو اور منشیات فروش سیاسی اداروں سمیت ہر ادارے میں سرایت کر جائیں‘ امن و امان کی صورت حال ناگفتہ بہ ہو۔ مذہبی لسانی اور قومی خلیج اتنی شدید ہو کہ قوم مکمل طور پر تقسیم ہو کر رہ جائے۔ اس صورت حال میں ان کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا۔ اگر قانون ہو بھی تو اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔

بدقسمتی یہ ہے کہ منشیات فروش سیاستدانوں اور مذہبی تنظیموں کی مالی مدد کرتے ہیں‘ اس لیے وہ معاشرے میں با اثر ہو گئے ہیں۔ اس وقت یہ مافیا منشیات کی فروخت سے سالانہ 70 ارب ڈالر کما رہا ہے۔ اس کمائی میں 2 ارب ڈالر کا حصہ پاکستانی طالبان کا ہے جو پاکستان میں منشیات کا داخلہ اور پاکستان سے اس کی بیرون دنیا ایکسپورٹ یقینی بناتے ہیں۔ اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دہشت گردوں کو پاکستان میں تخریب کاری کرنے کے لیے مالی وسائل کہاں سے مہیا ہوتے ہیں منشیات کی اس کمائی سے لوگ اور خاندان کے خاندان تباہ ہو جاتے ہیں۔ یہ 200 ارب روپے ہی ہیں جس کے ذریعے دہشت گردوں کے لشکر پالے جاتے ہیں انھیں اسلحہ مہیا کیا جاتا ہے۔ انھیں اسلحہ مہیا کر کے پاک فوج کے مقابل لایا جاتا ہے۔ اس طرح ریاست کے اندر ریاست قائم کی جاتی ہے۔ منشیات سے حاصل ہونے والی ہر آمدنی انسانوں اور خاندانوں کو تباہ کر کے حاصل کی جاتی ہے۔ اس منحوس لعنتی کاروبار کی وجہ سے پاکستان میں 67 لاکھ افراد ہیروئن کے نشے کے عادی بن گئے ہیں۔

67 لاکھ افراد سے مراد ہے 67 لاکھ خاندان ہیں۔ اگر ایک خاندان پانچ سے دس افراد پر مشتمل ہے اور اس میں ان لوگوں کے قریبی رشتہ داروں کو بھی شامل کریں تو ان منشیات کے عادی افراد کی وجہ سے کروڑوں افراد اپنے سکون و چین سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ 700 افراد منشیات کے استعمال سے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ جب کہ اس کے مقابلے میں پاکستان میں دہشت گردی کے ہاتھوں روزانہ چالیس افراد لقمہ اجل بنتے ہیں۔ ان اعداد و شمار سے پاکستانی عوام اس مسئلے کی ہولناکی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

اس پس منظر میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اگست کے شروع میں اینٹی نارکوٹکس فورس کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا تھا۔ ملکی سلامتی کو لاحق اس سنگین خطرے کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انھوں کہا تھا کہ دہشت گردوں اور منشیات فروشوں کے گٹھ جوڑ کو ہر قیمت پر توڑا جائے گا اور منشیات کا پیسہ دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔ انھوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ منشیات کی پیداوار اور فروخت میں ملوث عناصر قومی سلامتی کے لیے دہشت گردوں کی طرح ہی خطرناک ہیں۔

پاکستانی سیاست اور سیاست دان بحیثیت مجموعی آزمائشی دور میں داخل ہونے والے ہیں اس بات کا چند ماہ پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں۔ ہر عروج کا زوال ہے۔ مکافات عمل کا سامنا کرنا ہو گا۔ شاید یہ باتیں سچ ہونے والی ہیں۔ 2008ء کے حوالے سے ملک کی دو نامور سیاسی شخصیات کے لیے نازک اور پریشان کن وقت کا آغاز ہونے والا ہے کیونکہ دونوں 2008ء اور 2013ء۔ اپنے PHASE کے اختتامی مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ ایک شخصیت کے لیے اہم مہینہ ستمبر اور دوسری کے لیے اکتوبر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔