کوئی اُس جیسا شیریں بیاں اب نہیں ہوئے گا

ویب ڈیسک  پير 31 اگست 2015
احمد فراز کے حسن کوزہ گر۔۔۔ حسن عباس رضا انہیں یاد کرتے ہیں۔ فوٹو: فائل

احمد فراز کے حسن کوزہ گر۔۔۔ حسن عباس رضا انہیں یاد کرتے ہیں۔ فوٹو: فائل

لفظ گری کرتے کرتے عمر کا ایک طویل حصہ گزر گیا مگر بعض ایسے مقامات بھی آئے کہ اپنے دوستوں اور قریبی ساتھیوں پر بات کرتے ہوئے زبان میں لکنت آ جاتی ہے اور لکھتے ہوئے قلم میں لرزش۔ کچھ ایسی ہی صورتِ حال اس وقت بھی مجھ پر طاری ہے کہ آج مجھے اپنے بہت مہربان دوست اور ممدوح احمد فراز پر کچھ لکھنے اور کہنے کے لیے کہا گیا ہے۔

فراز صاحب سے محبت اور رفاقت تقریباً 30 برسوں پر محیط ہے۔ فراز صاحب مجھے اپنا دوست اور بیٹا کہتے تھے اور اکثر کہا کرتے تھے کہ مجھے دنیا میں دو احباب پر اندھا اعتماد ہے، ایک ضیاء الدین ضیاء (مرحوم) اور ایک حسن رضا۔ وہ مجھے پیار سے حسن کوزہ گر کہتے تھے۔

1975 کی ایک سہ پہر صدر کے کسی کالج میں ایک مشاعرہ تھا، جس کی صدارت فراز صاحب نے کی تھی اور میں نے پہلی بار ان کی صدارت میں مشاعرہ پڑھا تھا۔ انہوں نے میری غزل کو بہت پسند کیا اور واپسی پر انہوں نے اور خالد شریف نے اپنی گاڑی میں مجھے صدر بازار ڈراپ کیا۔

1976 میں اکادمی ادبیات پاکستان کے ابتدائی ایام تھے، ایک دن ماجد صدیقی (مرحوم) نے مجھے کہا کہ تم اکادمی میں جاب کرنا چاہتے ہو؟ فراز صاحب کو ایک ایسے شخص کی تلاش ہے، جو قابلِ اعتماد بھی ہو اور ادب سے بھی اس کا تعلق ہو۔ اندھا کیا مانگے، دو آنکھیں۔ سو میں نے فوراً ہامی بھر لی اور یوں میں فراز صاحب کے ساتھ اکادمی ادبیاتِ پاکستان سے منسلک ہو گیا۔ فراز صاحب اکثر اپنی نئی غزل مجھے سناتے اور کبھی کبھار میں بھی جرأت کرکے انہیں اپنا کلام سناتا۔ رفتہ رفتہ ہماری دوستی مستحکم ہو گئی۔

فراز صاحب کے ساتھ میں نے لاتعداد مشاعرے پڑھے، جن میں بیرون ملک کے دو مشاعرے بھی شامل ہیں۔ ایک مشاعرہ برطانیہ کا تھا، جس میں احمد ندیم قاسمی صاحب، سید ضمیر جعفری صاحب، سلیم کوثر، ثروت محی الدین کے ساتھ پاکستان سے میں بھی شامل تھا، نوشی گیلانی امریکا سے آئی تھیں۔ دوسرا یادگار مشاعرہ بھارت میں تھا، جس کی صدارت علی سردار جعفری نے کی اور فراز صاحب مہمانِ خصوصی تھے۔ فراز صاحب نے سب سے پہلے اپنی مشہور غزل ’’سنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھرکے دیکھتے ہیں‘‘ سنائی۔ مشاعرے کے صدر علی سردار جعفری نے صدارتی کلمات میں فرمایا کہ فراز صاحب نے جو غزل سنائی ہے، میری رائے میں یہ اس صدی کی بہترین غزل ہے کہ اس میں روایت اور جدت کا خوب صورت امتزاج ہے۔

اس کے بعد دوبارہ جب ہم مشاعرہ پڑھنے بھارت گئے تو ہمارے ساتھ قتیل شفائی مرحوم اور شہزاد احمد مرحوم بھی تھے۔ یہاں ایک دل چسپ واقعہ مجھے یاد آ رہا ہے۔ میزبانوں نے تمام شعراء کو انڈیا ہاؤس میں ٹھہرایا تھا۔ شام کو محفل جمتی اور کھانے پینے کا دور چلتا تھا۔ فراز صاحب چونکہ خاص مہمان تھے لہٰذا گیسٹ ہاؤس کی بکنگ بھی ان ہی کے نام تھی۔ ناؤنوش سے فراغت کے بعد جب بیرا بل لے کر آتا تو فراز صاحب بل پر دستخط تو کرتے مگر اپنے کمرے کی بجائے قتیل شفائی کے کمرے کا نمبر لکھ دیتے۔ جب گیسٹ ہاؤس سے روانگی کا وقت آیا تو قتیل شفائی غصے میں فراز صاحب کے کمرے میں آئے، جہاں ہم سب بیٹھے تھے، کہنے لگے یہ کیا ہے؟ میں نے تو اتنی نہیں پی۔ یہ سارا بل میرے نام کیسے آ گیا…؟ اس پر زور دار قہقہہ پڑا، جس میں بعد ازاں قتیل صاحب بھی شامل ہو گئے۔

فراز صاحب بنیادی طور پر بہت بذلہ سنج اور جملہ باز تھے، کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے اور اکثر اوقات محفلوں میں صرف ان ہی کا طوطی بولتا تھا۔ میڈم نورجہاں سے ان کی خوب دوستی تھی۔ ایک بار ہم سب اکٹھے (فراز صاحب، ثروت محی الدین، نیلوفراقبال اور میں) میڈم سے ملنے ان کے گھر گئے۔ میڈم نے اپنے ہاتھ سے کھانا بنایا۔ تقریباً رات تین بجے تک یہ محفل چلتی رہی۔ اس دوران اداکارہ میڈم نیلو بھی وہاں آ گئیں۔ شاعری کے علاوہ لطیفوں کادور بھی بہت دیر تک چلا۔ پہلے تو بے ضرر سے لطیفے چلے اور پھر چوتھے رنگ کے لطیفے غالب آ گئے۔ میڈم نے بھی بہت کمال کے لطیفے سنائے، جس پر قہقہوں کا طوفان برپا رہا۔ صرف نیلوفر اقبال ایسی تھیں، جو شرما رہی تھیں، باقی سب کھلکھلا رہے تھے۔

1999 کے دوران میں امریکا چلا گیا، فراز صاحب دو بار امریکا آئے اور وہاں ہم نے مختلف شہروں میں مشاعرے پڑھے اور خوب محفلیں جمیں۔ آخری بار جب وہ نیو یارک آئے تو ان کی طبیعت کچھ اچھی نہیں تھی۔ دراصل واشنگٹن میں وہ سیڑھیوں سے گر گئے تھے، جس کے باعث انہیں زیادہ چوٹ آئی تھی۔ نیو یارک سے وہ شکاگو چلے گئے اور وہاں اسپتال میں زیر علاج رہے۔ میں ان دنوں ورجینیا میں تھا۔ افتی مجھے فراز صاحب کی صحت کے بارے میں بتاتا رہتا تھا اور پھر۔۔۔۔ وہ شکاگو سے ایک ایسے سفر پر روانہ ہو گئے ’’جہاں سے لوٹ کر کوئی کبھی واپس نہیں آتا‘‘۔

جب مجھے ان کی رحلت کی خبر ملی، تو میں نہ جانے کتنی دیر خود کو گلے لگا کر روتا رہا۔ کچھ دن بعد میں نے چند اشعار لکھے۔

شہر میں کوئی اُس جیسا شیریں بیاں اب نہیں ہوئے گا
شامِ یاراں تو ہو گی مگر وہ سماں اب نہیں ہوئے گا

آ ہی جاتے تھے یادوں کی پُرپیچ گلیوں سے ہوتے ہوئے
جس گلی بھی چلے جاؤ ، اُس کا مکاں اب نہیں ہوئے گا

میزبانی پہ مامور شہرِ تمنّا تو ہو گا مگر
وہ جو ہوتا تھا اکثر یہاں میہماں، اب نہیں ہوئے گا

جس ملاقات کی آرزو دل میں لے کر یہاں آئے ہو
اُس ملاقات کا خواب پورا، میاں اب نہیں ہوئے گا

فراز صاحب سے یادوں کا ایک طویل اور کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ اور تعلق ہے، میں ایک کتاب لکھ رہا ہوں، جو صرف فراز صاحب کی زندگی، اہم واقعات، ان کے معاشقے اور نشیب و فراز پر مشتمل ہوگی۔ فراز صاحب نے اپنے بے شمار خطوط اور تصاویر کا خزانہ مجھے سونپا ہے، اسی کی بنیاد پر کتاب کا خاکہ بنایا گیا ہے۔۔۔ زندگی رہی تو یہ کتاب مرتب ہوجائے گی۔

آج فراز صاحب کی برسی کے حوالے سے قلم برداشتہ لکھتے ہوئے، کئی بار قلم اور آنسو روکنے پڑے۔ فراز صاحب آج بھی آنکھوں اور یادوں میں زندہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔