- انصاف کے شعبے سے منسلک خواتین کے اعداد و شمار جاری
- 2 سر اور ایک دھڑ والی بہنوں کی امریکی فوجی سے شادی
- وزیراعظم نے سرکاری تقریبات میں پروٹوکول کیلیے سرخ قالین پر پابندی لگادی
- معیشت کی بہتری کیلیے سیاسی و انتظامی دباؤبرداشت نہیں کریں گے، وزیراعظم
- تربت حملے پر بھارت کا بے بنیاد پروپیگنڈا بے نقاب
- جنوبی افریقا میں ایسٹر تقریب میں جانے والی بس پل سے الٹ گئی؛ 45 ہلاکتیں
- پاکستانی ٹیم میں 5 کپتان! مگر کیسے؟
- پختونخوا پولیس کیلیے 7.6 ارب سے گاڑیاں و جدید آلات خریدنے کی منظوری
- اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی رہنما کو عمرے پرجانے کی اجازت دے دی
- مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل نو، پہلی بار وزیر خزانہ کی جگہ وزیر خارجہ شامل
- پنجاب گرمی کی لپیٹ میں، آج اور کل گرج چمک کیساتھ بارش کا امکان
- لاہور میں بچے کو زنجیر سے باندھ کر تشدد کرنے کی ویڈیو وائرل، ملزمان گرفتار
- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- بھارتی فوجی نے کلکتہ ایئرپورٹ پر خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
انجانا خوف ۔۔۔۔۔ زہرِ قاتل
یہ ایک حقیقت ہے کہ نوجوانوں کے اندر کچھ نہ کچھ غیر معمولی کر گذرنے کی بے پناہ صلاحتیں مخفی ہوتی ہیں اور وہ کسی بھی شعبہ میں منفرد مقام حاصل کرنے کی بھرپور سعی کرتے نظر آتے ہیں۔ بعدازاں معاشرے میں اپنا ہدف حاصل کرکے کامیابی کے ساتھ ساتھ سکون و تقویت بھی حاصل کرتے ہیں، اور ایسا تب ہی ممکن ہوتا ہے جب ان میں خود اعتمادی اور اپنی ذات پر مکمل بھروسہ ہو۔
کسی بھی شعبہ کے انتخاب کے بعد پیچھے کی جانب دیکھنے کے بجائے آگے سے آگے بڑھنے کی جستجو میں مگن رہیں تو ہی کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے انسان کے لاشعور میں ایک ایسی خصلت بھی موجود ہوتی ہے جو اسے آگے کی جانب جانے سے روکتی ہے جسے ہم ’’انجانے خوف‘‘ کے نام سے گردانتے ہیں اور یہی ’’انجانا خوف‘‘ پاؤں کی زنجیر بن کر انسان کو آگے کی جانب بڑھنے سے روکے رکھتا ہے۔
مثال کے طور پر اگر جب کوئی نوجوان تعلیمی میدان میں سرگرداں ہوتا ہے اور میڈیکل کالج میں داخلہ لینے کی خواہش رکھتا ہے اور اندر تحت الشعور میں موجود انسان اسے اندر سے وسوسوں میں ڈال دے کہ اس کا نصاب قدرے سخت اور مشکل ہے، تم اس میں کامیاب نہ ہو سکے تو پھر کیا ہوگا؟ اگر کامیابی مقدر نہ بن سکی تو پیسے کے ساتھ وقت کا بھی زیاں ہوگا۔ اسی طرح اور بھی متعدد شعبوں کا انتخاب کرنے سے نوجوان کتراتا نظر آتا ہے جس کی وجہ بس یہی ہوتی کہ اس کے اندر موجود ایک ’’انجانا سا خوف‘‘ اس کو آگے نہیں بڑھنے دیتا۔
دنیا میں کوئی بھی چیز ناممکن نہیں تاہم مشکل ضرور ہے۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان میں خود اعتمادی کا ہونا اولین شرط ہے، اور یہ خود اعتمادی اپنے والدین، بزرگوں اور سر پرستوں کے باہمی مشورے کے ساتھ ساتھ مثبت انداز میں ازخود منصوبہ سازی کو بھی اپنا شعار بنانے سے نوجوان کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ کوئی بھی کام انسان اپنے اندر خود اعتماد ی کے ذریعے سے ہی احسن طریقہ سے سر انجام دے سکتا ہے اور اگر عملی قدم اٹھانے سے قبل ہی نوجوان ’’انجانے خوف‘‘ کے سبب یہ بات ذہن میں بٹھالے کہ میں فلاں کام سر انجام نہیں دے سکوں گا تو اس سے نہ صرف وہ خود کو پیچھے کی جانب دھکیل رہا ہوتا ہے بلکہ اپنے مستقبل کو بھی اپنے ہی ہاتھوں تاریک کرتا نظر آتا ہے۔ ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ نوجوان کا کوئی بھی تخلیقی عمل نا تجربہ کاری کی بناء پر حتمی طور پر تکمیل نہیں پاسکتا اور کوئی نہ کوئی کمی یا بہتری کی گنجائش رہ جانا فطری بات ہے۔
والدین پر بھی یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ بچوں میں مخفی صلاحیتوں کو تلاش کرکے ہمہ وقت ان کی رہنمائی اورحوصلہ افزائی میں کلیدی کردار ادا کریں، اور ان کو یہ باور کرائیں کہ وہ دنیا کا کوئی بھی مثبت کام کرنے کے اہل ہیں اور وہ خود اس بات کو محسوس کریں کہ بچہ اگر کوئی تعمیری یا مثبت کام کرنا چاہ رہا ہے اور اس کے دل میں ’’انجانا خوف‘‘ بھی موجود ہے کہ وہ یہ کام نہیں کرپائے گا، تو اسی لمحہ اس کی اس منفی سوچ کی حوصلہ شکنی کریں اور اس کے سامنے اس کام کو اس طرح بیان کریں کہ یہ کام کرنا کوئی بھی بڑا مسئلہ نہیں بلکہ یہ کام تو وہ بہت سے افراد کی نسبت بہتر سر انجام دے سکتا ہے۔ والدین کی یہ حوصلہ افزائی ان کے لئے نیا جوش نیا ولولہ بن سکتی ہے اور وہ تندہی کے ساتھ اپنے مقصد کے لیے جدوجہد کرسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ آج کا نوجوان گزشتہ کئی دہائیوں قبل کے نوجوانوں سے زیادہ طاقتور، باہنر اور صلاحیتوں کا حامل ہے، کیوںکہ انٹرنیٹ کے اس دور نے منزل کو خود نوجوانوں کے قدموں میں لاکھڑا کیا ہے۔ اِس پُرآسائش دور میں ذہن میں اس بات کا گھر کرلینا کہ میں ’’فلاں‘‘ کام سر انجام نہیں دے سکوں گا اپنے اندر موجود ’’انجانے خوف‘‘ کی حوصلہ افزائی کرنے کے مترادف ہے۔
اس عبث اور غیر ضروری احساس جس کو ہم کچھ نہ کرنے کا ’’خوف‘‘ بھی کہتے اور سمجھتے ہیں، کو اپنے ذہن سے نوچ کر باہر پھینکنے کی ضرورت ہے تاکہ اپنی منزل، اپنی راہوں کو بھی اپنے اندر چھپی ہوئی بے پناہ خوبیوں اور صلاحیتوں کا ادراک کرتے ہوئے ہموار کیا جاسکے اوراگر ایسا نہیں کیا گیا تو ان کے اندر موجود یہ خوف ان کے مستقبل کے ساتھ ان کے تشخص کے لئے بھی مباداً زہرِ قاتل ثابت ہوسکتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔