بلوچستان میں غاروں کی پُراسرار بستی

عبدالستار کشف  منگل 1 ستمبر 2015
غاروں کی اس وادی سے متعلق کئی حیران کن واقعات بھی منسوب ہیں جسے سن کر اس کی پُراسراریت مزید بڑھ جاتی ہے۔

غاروں کی اس وادی سے متعلق کئی حیران کن واقعات بھی منسوب ہیں جسے سن کر اس کی پُراسراریت مزید بڑھ جاتی ہے۔

پرانے دور کا انسان ویرانوں، بیابانوں سے خوف کھاتا تھا۔ دہشت کی علامت نادیدہ قوتوں کا مسکن جان کر دور بھاگتا تھا۔ لیکن آج کا انسان اس کے برعکس ہے، آبادی سے دور بیابانوں ویرانوں میں جانے کیلئے بیتاب رہتا ہے۔ تلاشنے، کھوجنے اور تجسس کی خاطر ریاضت کرنے، منت ماننے اوربعض خدا کا عرفان حاصل کرنے۔

دنیا کے کئی آثارِ قدیمہ کی طرح پاکستان کے صوبہِ بلوچستان میں بھی غاروں کی ایک پُراسرار بستی دریافت ہوئی ہے۔ تجسس کے مارے ہم لوگوں کو جب بلوچستان کے ان پُراسرار غاروں کے بارے میں پتہ چلا تو ہم بھی اسے دیکھنے چلے آئے۔

کراچی سے کو ئٹہ براستہ RCD روڈ پر 190 کلو میٹر کے فاصلے پر، بیلہ کے قریب ’’مزارمائی گوندرانی‘‘ کے نام کا ایک چھوٹا بورڈ لگا ہوا ہے۔ یہیں سے بائیں جانب سڑک گوندرانی یا شہر روغاں کوجاتی ہے۔

اسی سڑک میں سفر کرتے ہوئے آگے شمال کی جانب سڑک آگے جاکر پکی سڑک کچے اور پتھریلے روڈ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ ان راستوں کے ساتھ ساتھ دریا بھی گزر رہا ہے۔ گوکہ اب اس کا پانی کم ہے لیکن اس کے چوڑے پاٹ کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کے کسی وقت یہ دریا اپنی جوبن میں بہتا رہا ہے۔ ابھی بھی اس دریا کا پانی کئی جگہوں پر 10 فٹ تک گہرا ہے۔ اِس ’’دریائے کرد‘‘ میں مقامی خواتین کپڑے دھوتے اور بچوں کو نہلاتے بھی نظر آئیں۔

ہم دریا کے ساتھ ساتھ 3 میل کے فاصلے پر تھے، جب ڈرائیور نے گاڑی روک دی اوردریا کے اس پار اشارہ کرنے لگا۔ میں نے گاڑی کی کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھا تو حیران رہ گیا۔ ہم غاروں کے شہر پہنچ چکے تھے۔ یہ ایک عظیم پہاڑی سلسلہ تھا جہاں غاروں کی دنیا آباد ہے۔ یہاں سے آگے کا راستہ پیدل کا ہے۔ نیچے اُتر کر ایک جگہ سے دریا پار کیا جہاں پانی نسبتاً کم تھا۔ یہی نوجوانوں کا ایک ٹولہ مچھلیاں شکار کرتا نظر آیا۔ تعارف پر یوسف بلوچ نامی شخص نے بتایا کہ وہ اکثر ہفتے کے اختتام پر دوستوں کے ساتھ یہاں آتا ہے اور قریب ہی بیلہ میں رہائش ہے۔ سیکوریٹی حوالے سے استفسار کیا تو کہنے لگا،

آڑے یاں تو کراچی سے زیادا امن اے۔۔۔۔۔

اور واقعی ہمیں اندازہ ہوا کے بلوچستان کے حوالے سے غلط فہمی دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ جس کے سبب بلوچستان کا خوبصورت چہرہ گہنا گیا ہے۔ حالات ایسے نہیں جیسے بتائے جاتے ہیں۔ مقامی لوگ تو بیلہ کو سب سے پُرامن علاقہ قرار دیتے ہیں۔ مجھے بھی بلوچستان کے بعض مقامات جاکر اندازہ ہوا کہ اس کا حسین چہرہ چھپا دیا گیا ہے اور دنیا کو تصویر کا ایک ہی رُخ دکھایا گیا ہے۔

بلوچستان کے وسائل لوٹنے والوں کو کبھی ان تاریخی ورثوں، حسین مقامات کو محفوظ کرنے کا خیال نہیں آیا۔ یہاں کا ہر پہاڑ ایک داستان اپنے سینے میں دفن کیے بیٹھا ہے۔ 20 منٹ کا پیدل سفر کرتے ہوئے اب ہم عین اس پہاڑی سلسلے کے دھانے پر پہنچ چکے تھے جہاں سے غاروں کی بستی شروع ہوجاتی ہے۔ ان غاروں سے متعلق یوسف بلوچ نے بھی وہی بات بتائی تھی، جو یہاں زبان زدِ عام ہے۔ ان غاروں سے متعلق کئی دلچسپ کہانیاں مشہور ہیں۔ ایک یہ پیغمبر سلیمانؑ کے دور میں کسی نامعلوم بادشاہ کی حکومت تھی اور اس کی بادشاہت کے دوران بادشاہ کی بیٹی بدیع الجمال کو دیو نے قید کرلیا تھا۔ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔ کئی بہادر اور طرم خان بادشاہ کی بیٹی کو اس دیو سے آزاد کرانے آئے لیکن دیو کا مقابلہ نہ کرسکے۔ شہزادہ سیف الملوک کو خبر ہوئی تو اس نے دیو کو قتل کرکے بادشاہ کی بیٹی کو آزاد کروالیا، اس وقت سے آج تک ان غاروں میں دیو اور شیطانی قوتوں کا بسیرا ہے۔

دوسری کہانی کے مطابق اُس دیو اور شیطانی قوتوں کو یہاں رہنے والی’’مائی گوند رانی‘‘ نامی خاتون نے اپنی جان دے کر اس خطے کے لوگوں کو ان نادیدہ قوتوں سے نجات دلائی۔ مائی گوند رانی قریب ہی ’’شیر روغن‘‘ کے مقام کے پاس مدفون ہے۔ گرِدونواح سے عقیدت مند آج بھی بڑی تعداد میں اس کے مزار میں حاضری دینے آتے ہیں۔ اسی خاتون کی نسبت سے اس علاقہ کا نام بھی گوندرانی پڑگیا۔

ایک اور خیال یہ بھی ہے کہ ان پہاڑوں اور غاروں میں شیطانی قوتوں اور راکشسوں کا ڈیرہ ہے، جو سیر کیلئے غاروں سے باہر نکلتے تھے اور اپنی بھوک مٹانے کیلئے مقامی گوندرانی لوگوں کا گوشت کھاتے تھے اور یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا ہی رہا۔ حتیٰ کہ ایک خاتون مائی گودرانی نے اپنی جان دیگر ان راکشسوں اور شیطانی قوتوں کا خاتمہ کردیا اور مقامی لوگوں کو اس سے نجات دلائی۔ غاروں سے متعلق اصل حقائق کیا ہیں؟ کسی کو نہیں معلوم، بعض ماہرینِ  آثارِ قدیمہ کے مطابق یہ غار ساتویں صدی عیسوی میں بدھ مت کے پیروکاروں نے بنائے تھے اور بدھ مت مذہب کے پیروکار ان غاروں میں رہا کرتے تھے۔

پہاڑی دروں کا سفر پیدل اور دشوار گذار راستے کے سبب خطرناک بھی ہے۔ پتھریلا راستہ، لیکن ان دروں میں غاروں کی اس بستی میں ایسا تجسس چھپا ہے کہ آپ بلا سبب کھینچتے ہی چلے جائیں گے۔ غاروں کی اس بستی کے اندر ایک آبشار کے واضح نشانات اب بھی موجود ہیں۔ مقامی روایت کے مطابق ہندؤں کی بڑی تعداد کبھی اس آبشار میں اشنان کرنے آیا کرتی تھی۔ ہندو دھرم کے مطابق یہاں اشنان کرنے سے وہ پَوتر (پاک) ہوجاتے ہیں۔ پہاڑی درے کے اندر پہنچ کر ہمیں اندازہ ہوا کہ چھوٹے بڑے غاروں پر مشتمل ایک آبادی کے بیچوں بیچ ہم موجود ہیں۔ عمیق خاموشی اور صدیوں سے انسانی قدموں کے منتظر یہ غار، ان غاروں کا بغور مشاہدہ کرنے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ کئی غار سرنگ کے ذریعے آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ غار کے باہر باقاعدہ برآمدہ بنایا گیا تھا، اس کے بعد غار کا دروازہ اور کمروں کے اندر بھی کئی پارٹیشن ۔۔۔۔۔ گویا باورچی خانہ یا اٹیچ باتھ ہو۔ گویا یہاں ایک زندہ قوم آباد تھی جس نے اس زمانے کے لحاظ سے گھر بنائے۔

غاروں کی اس وادی سے متعلق کئی حیران کن واقعات بھی منسوب ہیں۔ جسے سن کر اس کی پُراسراریت مزید بڑھ جاتی ہے۔ بد قسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں تحقیق کا رحجان نہ ہونے اور ناکافی سہولیات کے سبب ان غاروں کی قدامت کا ابھی تک کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکا، حتیٰ کہ یہاں تک پہنچنے کیلئے باقاعدہ کوئی راستہ بھی نہیں، ہمارے حکمرانوں کو تو اس بات کا علم بھی نہیں ہوگا کہ کتنا بڑا قومی اثاثہ مٹی ہورہا ہے۔

تو پھر کیا آپ بھی گوندرانی جانے کا ارادہ رکھتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

عبدالستار کشف

عبدالستار کشف

بلاگر فوٹوگرافی اور سیر و سیاحت پر خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ فوٹوگرافی مقابلے میں انٹرنیشنل فوٹوگرافک کونسل کی جانب سے گولڈ میڈل حاصل کرچکے ہیں ۔آپ ان سے فیس بک پر www.facebook.com/KashfsPhotographyپر رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔