گزشتہ سیاست

عبدالقادر حسن  منگل 1 ستمبر 2015
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

بزرگ سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور یہ انھوں نے اپنے سینے میں جھانک کر کہا ہے جو بالکل سچ ہے۔ سیاسی نقاد کے سامنے سیاستدان کسی بات کی پروا نہیں کرتے۔ نہ اخلاق اور وضعداری کی اور نہ ہی کسی کے ساتھ تعلقات کی۔ سیاست کی دنیا میں جنگ و جدل ہر وقت جاری رہتا ہے کیونکہ امن ہو اور سیاستدان صلح صفائی کے ساتھ اپنا سیاسی کام کریں تو ان کے کارکن انھیں چھوڑ جاتے ہیں۔ ایسی بے مزہ اور بدمزہ سیاست شوقیہ سیاسی کارکنوں کی تسکین نہیں کرتی۔ ایک کارکن چونکہ ہمیشہ کارکن ہی رہتا ہے اس لیے وہ پرامن اور پرسکون سیاست کو اپنے لیے غیر مفید سمجھتا ہے۔

سیاست میں چپقلش ہو گی تو کوئی کارکنوں کو بھی پوچھے گا ورنہ کارکن لیڈر کے برآمدوں میں بیٹھ کر اونگھتے رہیں گے۔ میں نے ان اونگھنے والے بے زار کارکنوں سے بڑی بڑی خبریں حاصل کی ہیں۔ خبریں کیا تھیں ان کے غصے اور مایوسی کا اظہار اور دل کی بھڑاس ہوا کرتی تھیں۔ اگر ان کی بات اخبار میں چھپ جاتی تو وہ اپنے لیڈر پر احسان کرتے نہ چھپتی تو جو بھی آتا اسے بتاتے کہ ابھی ابھی فلاں رپورٹر ان کے پاس بیٹھا تھا اور انھوں نے کسی کی پروا کیے بغیر بات کہہ دی ہے۔

اپنے گھر سے کھا کر رئیس لیڈروں کی سیاسی خدمت کرنے والا یہ ادارہ اب قریب قریب ختم ہو رہا ہے۔ مہنگائی نے کارکنوں کے مطالبے بڑھا دیے ہیں اور سیاسی کارکن کا کسی سیاسی سرگرمی کا کرایہ بھی پورا نہیں ہوتا اور لیڈروں نے گھر اور ڈیرے فاصلوں پر دور کر دیے ہیں۔ بہر حال سیاست دان اور سیاسی کارکن دونوں ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔

مستعد کارکنوں کے بغیر لیڈری نہیں چلتی اور لیڈروں کے بغیر سیاسی چسکے پورے نہیں ہوتے۔ بدقسمتی سے سیاسی سرگرمیاں بہت گراں ہو گئی ہیں۔ کہاں وہ زمانہ کہ سو ڈیڑھ سو میں موچی دروازے کے باہر پبلک جلسہ ہو جاتا تھا۔ پچاس ساٹھ روپے اسٹیج کا خرچ جس میں تین چار کرائے کی کرسیاں ایک پرانی سی دری اور ایک لاؤڈ اسپیکر جس کا کرایہ ایک سو روپے سے بھی کم ہوا کرتا تھا۔ جلسہ گاہ کے ایک طرف اخبار رپورٹروں کے لیے چند کرسیاں وہ بھی کئی دفعہ رپورٹر قریب کے تھانے سے اٹھا لاتے تھے بلکہ جلسہ گاہ سے متصل واقع تھانے کے تھانیدار خود ہی مہربانی کر دیتے تھے۔

اس طرح کے انتظامات میں ایک جلسہ ہو جاتا تھا جس میں حاضرین کی ایک بڑی تعداد موچی دروازے کے مکینوں کی بھی ہوتی تھی جو گرمی میں گھروں سے باہر کھلی ہوا میں نکل آتے تھے۔ گپ شپ لگتی اور جلسہ بھی سنا جاتا۔ اگر کوئی معروف سیاسی مقرر ہوا تو پھر جلسے کے مزے آ گئے گویا مفت کا تھیٹر دیکھ لیا ورنہ اس گرمی میں کس کا ہوش سلامت رہتا کہ وہ سیاسی سوچ بھی بیدار کر سکے۔

اگر سیاسی حالات دگرگوں ہوتے اور مقرر بھی سیاسی لحاظ سے اہم تو پھر ایسے جلسے ہم رپورٹروں کے لیے بھی یوں اہم ہو جاتے کہ دفتر میں ہماری خبر کا انتظار ہوا کرتا چپڑاسی بھاگتا ہوا سائیکل پر گرتا مرتا جلسہ گاہ میں پہنچتا خبر جتنی بن چکی ہوتی اسے دے دی جاتی وہ ہوا ہو جاتا اور کچھ دیر بعد پھر آ دھمکتا۔ پرانا زمانہ تھا خبریں دستی بھجوائی جاتی تھیں موبائل فون کا نام و نشان نہیں تھا۔ کھر صاحب نے اپنے اقتدار میں اس جلسہ گاہ کا چبوترہ کرا دیا تھا۔ معلوم نہیں اب وہ کس حال میں ہے۔

موچی دروازے کے باہر سیاست دانوں کے جلسے ہوا کرتے۔ قریب ہی دلی دروازے میں مجلس احرار اور دوسری مذہبی جماعتوں کے جلسے ہوا کرتے۔ حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری دلی دروازے کے جلسے میں اپنی تاریخی تقریریں کیا کرتے جو ہم رپورٹروں کے لیے بے کار ہوتیں کہ ان میں خبر نہیں ہوتی تھی لیکن تقریر کی لذت بے پناہ ہوتی جو سننے سے ہی حاصل ہوتی نہ کہ پڑھنے سے موچی دروازے کے جلسے کی حاضری کا پیمانہ یہ ہوتا تھا کہ جلسہ گاہ کے باہر سر کلر روڈ پر عوام کھڑے جلسہ سن رہے ہیں سڑک بدستور چل رہی ہے اور تانگے گزر رہے ہیں۔

آج جب میں سیاسی ہنگامے دیکھتا ہوں اور ٹی وی پر یہ ہنگامے دیکھتا بھی ہوں تو اداس ہو جاتا ہوں۔ بعض بے تکلف جونیئرقسم کے لیڈر جلسہ میں تقریر کا موقع پا کر تقریر کے دوران ہم میں سے کسی رپورٹر کا نام لے کر کوئی نکتہ بیان کرتے خصوصاً آغا شورش جن کی تقریر کی خبر گھڑنی پڑتی تھی اور آغا صاحب دوسرے دن دفتر آ کر شکریہ ادا کرتے اور ایڈیٹر سے مٹھائی کی فرمائش کرتے جسے وہ رپورٹروں میں تقسیم کیا کرتے تھے۔

کیا بے تکلف اور شاندار زمانہ تھا۔ صاف ستھرا منافقت سے پاک اور سیاسی اختلافات سے مرصع سیاسی سرگرمیاں۔ خوشحال لیڈروں کے گھر ان کے سیاسی ڈیرے بھی تھے جن کی بیٹھکیں کھلی رہتی تھیں اور کوئی ملازم اگر رحمدل ہوتا تو وہ کسی مہمان کو چائے بھی پلا دیتا۔

ورنہ ایسے ملازم بھی ہوا کرتے تھے جن کا کام لیڈر کی پردہ پوشی ہوا کرتا۔ میاں ممتاز دولتانہ کا مشہور و معروف ملازم ولی محمد جس کی آواز بھی میاں صاحب سے ملتی تھی فون پر میاں صاحب کی عدم موجودگی کی اطلاع دے دیتا۔ جب کبھی میاں صاحب سے کسی خبر کی ضرورت پڑتی تو ولی خان سے اپنا تعارف کرا کے میاں صاحب کے ساتھ بات کی جاتی تھی۔ مجھے ان دنوں میاں صاحب بہت یاد آتے ہیں۔ یحییٰ خان کے نمبر دو جناب جنرل غلام عمر کے ڈھاکا سے میاں صاحب کو مسلسل فون آتے رہتے۔ یہ مشرقی پاکستان کے آخری دن تھے آج میں جنرل عمر کے صاحبزادوں کو ہر اہم جماعت میں سرگرم دیکھتا ہوں۔

ان میں سے ایک قومی اسمبلی میں بھی ہے ان کو دیکھ کر مجھے مرحوم ڈھاکا کے آخری دن یاد آ جاتے ہیں مگر ان تلخ باتوں اور یادوں کو چھوڑئیے جو بچ گیا ہے اس کی خیر منائیے کہ ڈار صاحب جیسے اس باقی ملک کے کرتا دھرتا ہیں جو خلق خدا کو قاتلانہ ٹیکسوں کی مار دے رہے ہیں اور حکمران خاندان کے قریب ترین رشتے دار ہیں۔ خدا جانے کیوں ان دنوں ایسی افسردہ کر دینے والی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔ خوش کن یادیں بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ یہ پھر سہی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔