بدعنوانی اور سیاسی نظام

ڈاکٹر توصیف احمد خان  منگل 1 ستمبر 2015
tauceeph@gmail.com

[email protected]

نیب اور ایف آئی اے نے سندھ پر حملہ کیا ہے۔ رینجرز والے ڈاکٹر عاصم کے بارے میں جو ثبوت لائے تھے وہ ناکافی تھے مگر انھیں حراست میں لیا گیا۔ وزیر اعظم نے اس معاملے سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے، وہ جلد چھوٹ جائیں گے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے کراچی میں نصرت بھٹو انڈرپاس کے افتتاح کے موقعے پر ان خیالات کا اظہارکیا ۔

قائم علی شاہ نے یہ بھی فرمایا کہ ایف آئی اے ایک دو دن میں سندھ سے چلی جائے گی۔ سندھ کے سینئر وزیر نثارکھوڑو کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کو اپنے بھائی کے صوبے میں کرپشن نظر نہیں آتی۔ سندھ میں اتنی کرپشن نہیں جتنا واویلا ہو رہا ہے۔ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کہتے ہیں کہ آصف علی زرداری پر ہاتھ ڈالا گیا تو پھرکھلی جنگ ہو گی۔ آجکل سوشل میڈیا پرخورشید شاہ کی اربوں روپے کی جائیداد اور اثاثوں کا خوب ذکر ہو رہا ہے۔

پاکستان میں جمہوری حکومتوں اور فوج کے تعلقات پر تحقیق کرنے والے ماہرین مایوسی کا شکار ہیں۔ انھیںخدشہ ہے کہ وفاقی تحقیقاتی اداروں کا دائرہ وزیر اعظم ہاؤس تک پہنچ جائے گا  اور اس کمزور سیاسی نظام کا سیاسی مستقبل تاریکی میں ڈوب جائے گا۔ گزشتہ سال پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر خودکش حملے کے بعد پارلیمنٹ نے 21 ویں ترمیم منظور کی تھی۔ اس ترمیم کی حمایت مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سمیت  سب جماعتوں  نے کی تھی جب کہ ایم کیو ایم کے اراکین اسمبلی اور سینیٹ کے چیئرمین رضاربانی نے اس ترمیم کے اثرات پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اس ترمیم کی منظوری کے بعد رینجرز اور پولیس کو کسی فرد کو 90دن تک نظر بند رکھنے کا اختیار حاصل ہوا تھا۔

اسی دوران سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کراچی آپریشن کے کپتان بن گئے۔ ہر صوبے میں ایپکس کمیٹیاں قائم ہو گئیں ۔ وزیراعلیٰ ،کورکمانڈر رینجرز کے انچارج مشترکہ اجلاس میں فیصلے کرنے لگے ، ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر نائن زیرو پر رینجرز نے چھاپہ مارا۔ ایم کیو ایم کے رہنما عامر خان سمیت متعدد افراد گرفتار ہوئے۔

ایم کیو ایم نے اس کارروائی پر اعتراض کیا ۔وزیر اعلیٰ کا موقف تھا کہ قانون اورضوابط کے تحت کارروائی ہو رہی ہے مگر پھر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور فشریزکے دفاتر پر رینجرز کے چھاپوں پر اعتراض ہوا۔ سابق صدرآصف زرداری نے اسلام آباد میں ایک افطار پارٹی میںجرنیلوں کے بارے میں دھواں دار تقریرکی اور وزیراعظم سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی مگر وزیر اعظم مصروفیات کی بناء پر سابق صدر کے لیے وقت نہ نکال پائے۔

آصف زرداری کے مشیروں نے پھر وضاحتیں پیش کرنی شروع کیں کہ زرداری کا مقصد فوج کے خلاف فضاء بنانا نہیں تھا، اچانک آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ دبئی چلے گئے۔ فریال تالپور توکچھ دنوں بعد واپس آگئیں مگر آصف زرداری ابھی تک لندن میں مقیم ہیں۔ جب ایم کیو ایم نے اسمبلیوں سے استعفیٰ دیا تھا تو ان کا کہنا تھا کہ کراچی آپریشن کے آغاز کے وقت فیصلہ ہوا تھا کہ آپریشن کی نگرانی کے لیے غیرجانبدارانہ افراد پر مشتمل نگراں کمیٹی قائم کی جائے گی۔

ہمارے کارکنوں کو ماورائے عدالت قتل کیا جا رہا ہے اور بہت سے افراد لاپتہ ہیں۔ان غیر قانونی اقدامات کے خاتمے کے لیے نگراں کمیٹی کا قیام ضروری ہے مگر سندھ کے وزیر اعلیٰ کو اچانک خیال آیا کہ وہ کراچی آپریشن کے کپتان ہیں، اس بناء پرکسی قسم کی نگرانی کی ضرورت نہیں ہے۔ اب قائم علی شاہ کا موقف تبدیل ہوگیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سب کچھ ان کی مرضی کے خلاف ہو رہا ہے۔

سندھ میں اچھی طرز حکومت کا تصور ختم ہوئے عرصہ ہو چکا ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران مختلف محکموں اور وزراء کے کارناموں کی خبریں اخبارات، ٹی وی چینلز اور ٹاک شوز کا موضوع رہی ہیں۔ یہ خبریں عام ہوئیں تو متعلقہ وزراء اور محکموں نے ان کی تردید کرنے اور قانونی چارہ جوئی کی دھمکیاں دیں مگر اب محکمہ اینٹی کرپشن سندھ خود ان خبروں میں لگائے گئے الزامات پر تحفظات کا اظہار کر رہا ہے۔ صرف محکمہ تعلیم کی مثال لی جائے تو بہت سے حقائق سامنے آجاتے ہیں۔

سابق وزیر تعلیم پیر مظہر الحق کے دور میں اساتذہ کی ہزاروں اسامیاں فروخت ہوئیں۔ ان اساتذہ کو عالمی بینک کے مقررکردہ ٹیسٹ پاس کیے بغیر ملازم رکھا گیا۔ جب پانی سر سے اونچاہونے لگا تو  ہزاروں اساتذہ کے تقررنامے منسوخ کردیے گئے۔اب ان تقرریوں سے متعلق مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ پیر مظہر الحق ضمانت پر ہیں۔

اسی طرح جب سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کراچی میں امن و امان کی صورتحال کے بارے میں ازخود نوٹس کی سماعت کر رہے تھے تو اس وقت کے آئی جی واجد درانی نے حلفیہ بیان جمع کرایا کہ انھیں پولیس میں گریڈ 17اور اس سے اوپر کے افسروں کے تقرریوں اور تبادلوں کا اختیار نہیں ہے۔

اسی طرح کراچی شہر میں پلاٹوں کی چائنا کٹنگ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے سربراہ اور افسروں اور غیر قانونی نقشہ منظورکرانے کے اثرات کراچی سمیت سندھ کے شہروں میں نظر آنے لگے۔

کراچی، حیدرآباد، سکھروغیرہ میں سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، پانی کی نکاسی کا نظام معطل ہوا ہے۔ جب بھی شہری بلدیہ کے دفتر سے رجوع کرتے ہیں تو عملے کا صرف ایک جواب ہوتا ہے کہ صفائی کرنے والی جھاڑیوں اورگٹر کھولنے کے بانس اور دوسرا سامان نہیں ہے اور اس مقصد کے لیے مختص رقم اوپر والوں نے خرچ کر دی ہے۔

سندھ حکومت کی بدترین طرز حکومت کی مثال کراچی میں پانی کی قلت کا مسئلہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس سے ہزاروں گیلن پانی غیر قانونی طور پر فروخت ہوتا ہے۔ کراچی واٹر بورڈ دھابیجی پمپنگ اسٹیشن اور شہر میں پانی کھینچنے والے پمپنگ اسٹیشن کی بجلی کی مسلسل فراہمی کے لیے جنریٹر نہیں خرید پایا ہے یوں ہفتے میں کئی دن شہریوں کو یہ خوش خبری دی جاتی ہے کہ پانی کی فراہمی معطل رہے گی۔

سینئر صحافی مظہرعباس اس صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تمام گرفتاریاں بدعنوانی کے الزامات کی بناء پر ہوئی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے بیشتر کارکن اس موقف کا اظہارکرتے ہیں کہ ڈاکٹر عاصم اور ان کے ساتھی کبھی پیپلز پارٹی میں نہیں رہے۔ یہ زرداری کے دوست ہیں،ان کا پیپلز پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔  بھارت میں وفاقی ادارہ CBI سنٹرل بورڈ آف انوسٹی گیشن کو ریاست میں بدعنوانی کے معاملات کی تحقیقات کا اختیار ہے۔

اسی طرح امریکا میںFBIبھی ریاستوں میں اسی طرح کارروائی کرتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی یہ بات وزن رکھتی ہے کہ تمام صوبوں میں ان بدعنوان عناصرکے خلاف بلاتفریق کارروائی ہونی چاہیے۔سیاسی نظام برقرار رہنا چاہیے مگر زرداری صاحب اس بات کو کب محسوس کریں گے کہ بدعنوانی ، رشوت ستانی ، اقربا پروری اور بری طرز حکومت نے سندھ کو ہر شعبے میں پسماندہ کردیا ہے ،اس کا علاج کیسے ہو گا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔