اردو قومی زبان، اب فیصلہ ہوجانا چاہیے!

محمد نعیم  بدھ 2 ستمبر 2015
 ہمیں لکھنے، پڑھنے کی بات تو دور، اردو بولتے ہوئے بھی شرم و جھجک محسوس ہونے لگی ہے۔ فوٹو :فائل

ہمیں لکھنے، پڑھنے کی بات تو دور، اردو بولتے ہوئے بھی شرم و جھجک محسوس ہونے لگی ہے۔ فوٹو :فائل

بات وہیں سے شروع کریں، جہاں وہ آئینِ پاکستان کا حصہ بنی۔ 1973 کے دستورِ پاکستان کی شق نمبر 251 میں طے پایا کہ سال 1988 نفاذ اردو کا سال ہو گا۔ مگر 1988 گزرے بھی اب اتنے برس گذر گئے کہ اب دل چاہتا ہے کہ اردو کی سرکاری زبان نہ بننے کی سلور جوبلی تقریبات کا انعقاد بھی کر ہی دیا جائے۔ پھر اِن تقریبات میں آئین کی خلاف ورزی اور حکم عدولی کرنے والے ان عناصر اور لوگوں کو جو اب تک اردو کے نفاذ کے راستے میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہیں انہیں خصوصی اعزازت سے نوازا جائے۔

یہ وہ لوگ ہیں جو ہمارے حکمران کہلاتے ہیں۔ بانیِ پاکستان نے ہر لحاظ سے واضح طور پر اردو ہی کو قومی و سرکاری زبان قرار دے کر اسے رائج کرنے کا حکم دیا تھا مگر حکمراں طبقہ بانی پاکستان کے اردو کے حوالے سے فرامین کو فراموش کرچکے ہیں۔

جب چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس جواد ایس خواجہ نے ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایک نئے اور شاندار باب کا اضافہ کیا تو اسے تمام اہل پاکستان نے نفاذ اردو کے لیے ہوا کا ایک تازہ جھونکا قرار دیا۔ اب اردو کو ملک کی قومی زبان کے طور پر ہر سطح پر نافذ کرنے کے لئے جاری مقدمہ تیزی سے اپنی منازل طے کر رہا ہے۔ ساتھ ہی پاکستان کے عوام کی یہ خواہش بھی ہے کہ اب اردو کو اس کا صحیح مقام دیا جائے۔

یہ عین ممکن ہے کہ ایسا ہونے کے بعد ہم اس قید سے نکل آئیں جو ہمارے ذہنوں کو آج بھی جکڑے ہوئے ہے۔ مغرب کی نقالی میں ہم اس کی زبان اور تہذیب کے اس قدر دِلدادہ ہوچکے ہیں کہ اسی کو ہی ترقی و کامیاب کی معراج سمجھ کر اپنی ساری صلاحیتیں اس میں لگا رہے ہیں۔ ایسی سوچ کے بعد پھر ہمیں لکھنے، پڑھنے کی بات تو دور، اردو بولتے ہوئے بھی شرم و جھجک محسوس ہوتی ہے۔

اِس بات سے شاید ہی کوئی انکار کرسکتا ہے کہ انسان کو مختلف زبانیں نہیں سیکھنا چاہیے بلکہ زیادہ زبانیں سیکھنا تو ذہین لوگوں کی نشانی بھی سمجھا جاتا ہے مگر زبان سیکھنا اور کسی زبان سے مرعوب ہونا دو مختلف باتیں ہیں۔ ہمارا اختلاف یہی ہے کہ آپ انفرادی زندگی میں جو جی چاہیں زبان بولیں، سنیں اور لکھیں مگر سرکاری سطح پر قانون کی خلاف ورزی برداشت کرنا ہمارے لیے بہت مشکل ہے۔

آج انگریزی فوبیا کے بھوت کو اپنے سر سے اتار کر ہمیں یہ بات سمجھنا ہوگی کہ جب ساری دنیا کی اقوام قومی زبان اپنا کر آگے بڑھ سکتی ہیں، دنیا میں عزت حاصل کرسکتی ہیں، تو ہم پاکستانی ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟ اس حوالے سے تمام رکاوٹوں کو ختم کرنا ہوگا۔ آئیے فروغِ اردو کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور دنیا کے سامنے اپنے آپ کو منوانے کی ایک اور مثال رقم کر دیں، یہی ہماری قومی وحدت اور اتحاد کا ایک مضبوط پلیٹ فارم ہے۔

کیا آپ بھی یہی چاہتے ہیں کہ اُردو کو عملی طور پر قومی زبان کا درجہ مل جانا چاہیے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

محمد نعیم

محمد نعیم

بلاگر کالم نگار اور رکن کراچی یونین آف جرنلسٹ ہیں۔ کراچی اپ ڈیٹس میں بحیثیت سب ایڈیٹر کام کررہے ہیں اور بلاگز کے ذریعے تبدیلی کے خواہشمند ہیں۔ ٹوئٹر پررابطہ naeemtabssum@

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔