الیکشن کمیشن اور انتخابی اصلاحات

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 5 ستمبر 2015
tauceeph@gmail.com

[email protected]

عمران خان نے قومی اسمبلی کے 4 حلقوں کو کھولنے کا مطالبہ کیا۔ معاملہ الیکشن ٹریبونل کے سپرد ہوا، یوں دو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا۔ تحریک انصاف نے اسلام آباد میں دھرنے دیے اور گو نواز گو مہم شروع کی۔ مہم ناکام ہوئی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی قیادت میں جوڈیشل کمیشن بنا۔ کمیشن نے منظم دھاندلی کے الزام کو رد کر دیا۔ تحریک انصاف کے دھرنے کے ٹھیک ایک سال بعد پنجاب کے الیکشن ٹریبونلز نے 3 حلقوں کے انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا۔

مسلم لیگ ن کی قیادت نے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کے بجائے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا مگر اب محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف ضمنی انتخابات میں حصہ لینے میں سنجیدہ نہیں۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے چاروں نمایندوں کے مستعفی ہونے تک انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے اور اب الیکشن کمیشن کے اراکین کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنے کے لیے اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے دھرنا ہو گا۔

اس دوران الیکشن کمیشن نے اسلام آباد، پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کو حتمی شکل دے دی۔ اکتوبر نومبر ملک کے آدھے حصے میں انتخابات کے مہینے ہوں گے۔ عمران خان اور پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ انتخابات میں ریٹرننگ افسروں نے دھاندلی کی اور انتخابات میں بڑے پیمانے پر بے قاعدگیاں ہوئیں جس کی ذمے داری  الیکشن کمیشن میں چاروں صوبوں کے نمایندوں پر عائد ہوتی ہے۔ اس بناء پر ان اراکین کو مستعفی ہونا چاہیے تا کہ شفاف انتخابات کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ رہے۔

الیکشن کمیشن کے اراکین جو متعلقہ ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج صاحبان ہیں کا کہنا ہے کہ کسی عدالت نے ان کی کارکردگی کے بارے میں کوئی سوال نہیں اٹھایاتوں وہ کیوں استعفیٰ دیں؟ چیف الیکشن کمشنر اور اراکین الیکشن کمیشن کی برطرفی کا طریقہ کار آئین کی شق 245 میں درج ہے اور سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس کا فیصلہ ان کے خلاف ہونے کی صورت میں وہ اپنے عہدے سے علیحدہ ہوں گے۔

سپریم جوڈیشل کونسل میں وفاقی حکومت ہی ریفرنس بھیج سکتی ہے مگر الیکشن کمیشن کے اراکین کے مستعفی ہونے سے الیکشن کمیشن ضمنی اور بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہیں کرا سکے گا اور نئے اراکین کا تقرر پُرانے طریقہ کار کے مطابق ہو گا۔ اس طریقہ کار کے تحت آنے والے اراکین ماضی کے اراکین کی طرح ہوں گے۔

پاکستان میں الیکشن کمیشن ہمیشہ حکومت کے ماتحت ادارے کے طور پر قائم رہا ہے۔ جب 2010ء میں صوبائی خودمختاری کو حتمی شکل دینے کے لیے قومی اسمبلی سے 18 ویں ترمیم منظور ہوئی تو خود مختار الیکشن کمیشن کا معاملہ طے ہوا۔ اس ترمیم کے تحت چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے لیے وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کی رضامندی لازمی قرار دی گئی۔ الیکشن کمیشن کے چاروں اراکین کی تقرری کی تجویز پارلیمانی کمیٹی کرتی ہے۔

اس ترمیم میں چیف الیکشن کمشنر اور چاروں اراکین کے اختیارات برابر رکھے گئے۔ اس منطق کا مطلب چیف الیکشن کمشنر اور چاروں اراکین کے اشتراک سے مشترکہ فیصلے کرنا تھا مگر یہ تجربہ ناکام ہوا۔ معروف قانون دان جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین ابراہیم بھارت کے الیکشن کمیشن کی طرز پر کچھ بنیادی اقدامات کرنا چاہتے تھے مگر الیکشن کمیشن کے اراکین نے ان کی تجویز سے اتفاق نہیں کیا۔ فخر الدین کے جدید خیالات محض خیالات تک محدود رہے پھر الیکشن کمیشن کے چیف ایگزیکٹو کا تصور کمزور ہونے سے کمیشن کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی، جس کا اظہار مئی 2013ء کے انتخابات میں ہوا۔

2013ء کے انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن نے ووٹر لسٹ، پولنگ اسٹیشن کے قیام، جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے بڑے دعوے کیے تھے مگر جب انتخابات کا دن آیا تو صورتحال بالکل برعکس رہی۔ الیکشن کمیشن نے ریٹرننگ افسروں کے لیے عدلیہ کے ججوں کی خدمات حاصل کی تھیں۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے انتخابات سے پہلے ان ریٹرننگ افسروں کے اجلاس سے خطاب کرنا شروع کیا اور ان افسروں کو جنرل ضیاء الحق کے دور کے آرٹیکل 62 اور 63 پر سختی سے عمل درآمد کی ہدایت کی۔

ریٹرننگ افسروں نے امیدواروں کے اسلامیات کے مضمون سے متعلق معلومات کا امتحان لینا شروع کیا، اس طرح ایاز امیر جیسا سیاستدان نااہل قرار پایا۔ ابتدائی مرحلہ میں انتخابی عمل سے بداعتمادی کا تاثر پیدا ہوا پھر پولنگ اسٹیشن بنانے ووٹر لسٹ مقناطیسی سیاہی پولنگ کے لیے عملے کا تقرر انتخاب والے دن انتخابی سامان کی بروقت فراہمی پولیس اور رینجرز کی ووٹوں کی گنتی کے وقت غیر حاضری جیسے مسائل پیدا ہوئے۔ ڈپٹی کمشنر کے ادارہ کے خاتمے کے نتائج بھی سامنے آئے۔ انتخابی نتائج کے فوری بعد دوبارہ گنتی کے مطالبہ کو قانونی تحفظ نہ ملنے کی بناء پر الیکشن ٹریبونل میں انتخابی درخواستوں کا ڈھیر لگ گیا۔ ملک میں 69 برسوں سے رائج عدالتی نظام کی بناء پر انتخابی درخواستوں کے فیصلوں پر دیر ہوئی۔ انتخابی ٹریبونل کے ججوں کے لیے ریٹائرڈ ججوں کو مقرر وقت کے لیے کنٹریکٹ کی بنیاد پر ملازمت پر رکھنے سے مسائل پیدا ہوئے۔

ایک معتبر صحافی کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے امیدواروں کی درخواست پر تو 2 برسوں میں فیصلہ ہوا۔ سندھ میں وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کا وفاقی وزیر مملکت حکیم بلوچ کے مقدمات کی سماعت کرنے والے ججوں کی معیاد ختم ہو گئی مگر فیصلہ نہیں ہوا۔ یہ صورتحال باقی صوبوں میں ہوئی۔ اس صورتحال میں سیاسی رہنماؤں کے سامنے دو سوال  آئے۔ پہلا سوال یہ تھا کہ چند مثالوں کی بناء پر 2013ء کے انتخابات کو کالعدم قرار دیا جائے اور اس ہی نظام کے تحت انتخابات کرائے جائیں یا انتخابی اصلاحات کی جائیں۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں انتخابی اصلاحات کے لیے مشترکہ کمیٹی قائم ہوئی۔ اسی دوران نادیدہ قوتوں نے عمران خان کو اقتدار کا شارٹ کٹ راستہ دکھایا۔

عمران خان 14 اگست 2014ء کو جلوس کی شکل میں اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے۔ تحریک انصاف نے انتخابی اصلاحات کی کمیٹی میں دلچسپی نہیں لی۔ برسراقتدار مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور دوسری جماعتیں عمران خان کے دھرنے کے تدارک میں لگ گئیں۔ تحریک انصاف کے مطالبے پر الیکشن کمیشن نے ہری پور کے ضمنی انتخابات کے ووٹروں کی تصدیق کے لیے تجرباتی بنیادوں پر بائیومیٹرک نظام کا تجربہ کیا مگر عملے کی تربیت نہ ہونے کی بناء پر ڈیٹابیس میں ووٹروں کے انگوٹھوں کے نشانات دستیاب نہ ہوئے اور دوسری نامعلوم وجوہات کی بناء پر یہ تجربہ کامیاب نہیں ہوا۔ الیکشن کمیشن نے اس انتخاب میں ووٹروں کی تصدیق کا ’’مینول‘‘ طریقہ ہی برقرار رکھا۔

انتخابی عمل میں رکاوٹ پیدا نہیں ہوئی مگر اب مسلم لیگ ن کے ضمنی انتخابات میں بھرپور طریقے سے حصہ لینے کے اعلان کے بعد تحریک انصاف کے دھرنے کے اعلان سے ایک دفعہ پھر آئینی بحران پیدا ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

اگر یہ اراکین فوری طور پر مستعفی ہو جائیں گے تو الیکشن کمیشن نامکمل ہو گا اور نامکمل الیکشن کمیشن ضمنی انتخابات اور بلدیاتی انتخابات منعقد نہیں کرا سکے گا۔ اگر اراکین نے استعفیٰ دیا تو پارلیمانی کمیٹی پرانے طریقہ کار کے مطابق نئے اراکین کا تقرر کرے گی۔ الیکشن کمیشن میں چیف ایگزیکٹو کا اختیار چیف الیکشن کمشنر کے پاس نہ ہونے کی بناء پر الیکشن کمیشن کی کارکردگی بہتر نہیں ہو گی۔ عمران کی چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات میں انھیں آئینی پیچیدگیوں کا علم ہوا ہے۔ اس مسئلے کا حل جامع اصلاحات میں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔