سائنسدانوں نے ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کا اصول غلط قراردے دیا

ویب ڈیسک  جمعرات 1 اکتوبر 2015
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انسان کو ماضی میں جھانکنے کی بجائے مستقبل پر نظر رکھنی چاہتے، فوٹو فائل

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انسان کو ماضی میں جھانکنے کی بجائے مستقبل پر نظر رکھنی چاہتے، فوٹو فائل

لندن: عام طور پر ہر معاشرے میں یہ بات عام ہے کہ انسان اپنی ماضی کی غلطیوں سے سکیھتا ہے اور آئندہ بہتر فیصلے کرتا ہے لیکن اب ایک نئی تحقیق میں سائنس دانوں نےاس سوچ کو غلط قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ماضی سے متعلق سوچنے سے انسان غمگین اور پریشان ہوجاتا ہے جو اسے عمل  سے روک سکتا ہے۔

برطانوی وینڈربلٹ یونیورسٹی کی کنزیومر سائیکالوجی جنرل میں شائع ہونے والی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ماضی کی غلطیوں یا ناکامیوں کے گڑھے مردے اکھاڑنے سے انسان خود سے بیزار ہوجاتا ہے۔ تحقیق کے معاون ریسرچر کیلی ہاس کا کہنا ہے کہ ماضی سے متعلق سوچنے سے انسان غلطیوں سے سیکھنے کی بجائے ان پر نادم ہوکر پریشان ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے وہ مستقبل کے بارے میں درست فیصلے نہیں کرپاتے اس لیے آگے کی جانب دیکھنا اور مستقبل کے بارے میں سوچنا ہی آگے بڑھنے کا زیادہ موثرطریقہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مثال کے طورپرآپ 700 ڈالر کے قیمتی جوتے اس لیے نہیں خریدتے کہ آپ کو یورپ کی سیر کو جانا ہے یا پھر پارٹی پر جانے کی بجائے آپ اپنی اسٹڈی کو اہمیت دیتے ہیں تاکہ ٹیسٹ میں اچھا اسکور کرسکیں۔

تحقیق کے لیے سائنس دانوں نے لوگوں کو دو گروپس میں تقسیم کیا اورایک سے پوچھا کہ وہ اپنی کامیابیوں کو یاد کریں اور دوسرے گروپ سے کہا کہ وہ اپنی ناکامیوں کو سامنے لائیں جبکہ ان سے کہا کہ وہ اس کے لیے اپنی زندگی کی مختلف کہانیاں یاد کریں پھر انہیں ایک بجٹ دیا گیا اور کہا گیا کہ وہ اس میں سے ان چیزوں پر کتنا خرچ کریں گے جسے وہ خریدنے کی قوت نہیں رکھتے مثال کے طور پر جوتے یا ویڈیو گیمز۔ نتائج سے ثابت ہوا کہ جن لوگوں نے اپنی کامیابیوں کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیا انہوں نے اپنے بجٹ کا بہترین استعمال کیا جبکہ جنہوں نے ناکامیوں کو سامنے رکھا وہ زیادہ تر فضول خرچ ثابت ہوئے اور کامیاب فیصلہ نہ کرسکے۔

کیلی ہاس کا کہنا تھا کہ اگر آپ خود پر بہتر کنٹرول رکھنا چاہتے ہیں تو مستقبل پر نظر رکھیں نہ کہ ماضی میں جھانکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔