دکھی انسانیت کی خدمت کا حلف

کے ایم خالد  اتوار 4 اکتوبر 2015
نوجوانوں کی آنکھوں میں محسوس کی جانے والی نمی سے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ دکھی انسانیت کے درد کا ادراک رکھتے ہوں۔

نوجوانوں کی آنکھوں میں محسوس کی جانے والی نمی سے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ دکھی انسانیت کے درد کا ادراک رکھتے ہوں۔

سفید گاؤن میں ملبوس نوجوان ڈاکٹر با آواز بلند حلف اٹُھا رہے تھے شائد اس وقت جذبے بھی سچے ہی تھے کیونکہ ان کے چہرے اس حلف کی تمازت سے دہک رہے تھے۔

نوجوانوں کی آنکھوں میں محسوس کی جانے والی نمی سے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ دکھی انسانیت کے درد کا ادراک رکھتے ہوں، جیسے آج کے بعد معاشرے میں کوئی دکھی انسان دکھائی نہیں دے گا، وہ معاشرے کا سارا دکھ سمیٹ کر ایک نئے معاشرے کی بنیاد رکھیں گے وہ ایک شاعر کا کلام بھی گنگنا رہے تھے

’’آؤ مل کر محبت کی نئی فصیل کھینچیں کہ جس پار دکھ درد کا کوئی سایہ نہ ہو، محبتیں بوئیں، محبتیں کاٹیں‘‘۔

کالے کوٹ میں ملبوس وکیلوں کا ایک جتھہ با آواز بلند حلف اٹھا رہا تھا، ان کے منہ سے نکلنے والے الفاظ سے ان کے دل کی دھڑکن صاف سنائی دے رہی تھی کہ معاشرے کے دکھی لوگوں کا وہی آخری سہارا ہیں کسی بھی غریب، مجبور انسان کو تنہا نہیں چھوڑا جائے گا، انصاف دلوانا ہی ہمارا نصب العین ہے وہ معاشرے کے پسے ہوئے مظلوم طبقے کی آواز بنیں گے، ان کے حلف کی بلند ہوتی آواز ان کے دلوں کی ترجمانی کر رہی تھی۔

’’کسی بھی مظلوم کو انصاف کی فراہمی تک وہ چین سے نہیں بیٹھیں گے‘‘۔

خاکی پینٹ اور کالی شرٹ میں ملبوسپولیس کے نوجوان اہلکار اپنی پاسنگ آوٹ پر چلا چلا کر حلف دھرا رہے تھے، ہم دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے میدان عمل میں آئیں گے، نفرت مجرم سے نہیں جرم سے ہے اگر کوئی امیر بھی جرم کرے گا تو وہ بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہو گا۔ دکھی انسانیت کی خدمت ہمارا سب سے بڑا نصب العین ہے ہم تھانہ کلچر بدل کر رکھ دیں گے اب وہ سب نہیں ہو گاجو پہلے ہوتا تھا، ساتھ میں وہ ایک شاعر کا کلام بھی گنگنا رہے تھے ۔

’’چلو مل کر محبت کی نئی فصیل کھینچیں، جس کی ہواؤں میں قرار سا ہو، خمار سا ہو، محبتیں بوئیں، محبتیں کاٹیں‘‘۔

نئی نویلی کابینہ کی حلف برداری کی تقریب میں وزراء حلف اٹھا رہے تھے کہ، وہ لوگوں کی خدمت کے لئے میدان عمل میں آئے ہیں۔ پچھلی جمہوریت نما آمریت یا آمریت نما جمہوریت نے معاشرے کے پسے ہوئے طبقہ کو مزید پیس کر رکھ دیا تھا۔ وہ خزانہ لوٹ کر فرار ہو چکے ہیں لیکن اس کے باوجود موجودہ حکومت اور اس کے رفقا کار عوام کی خدمت کے لئے اپنے ذاتی وسائل بھی بروئے کا لائیں گے تاکہ حکومت دکھی انسانیت کے دکھوں کا کچھ تو مداوا کر سکے۔
دکھی انسانیت جن طبقات کے ہاتھوں دکھی ہے، وہی اس کا دکھ بانٹنے کا حلف اٹھاتے ہیں، ان سب اور دیگر طبقات کی دکھی انسانیت کی ’’خدمت‘‘ پہلوانوں کی فری اسٹائل کے اس دنگل کی مانند ہے جس میں ایک سے ذیادہ پہلوان حصہ لیتے ہیں، جب ایک پہلوان دوسرے مغلوب پہلوان کی ٹھکائی کرکے تھک جاتا ہے اورمغلوب پہلوان ’’دکھی انسانیت‘‘ کی طرح اس قابل بھی نہیں رہتا کہ وہ بھاگ کر اکھاڑے کے کونے کی طرف جائے اور اپنے کسی ساتھی پہلوان سے ہاتھ ملا کر اسے مدد کے لئے اکھاڑے میں بلائے جبکہ ٹھکائی کرنے والا پہلوان اپنے تازہ دم پہلوان ساتھی کو ہاتھ ملا کر اکھاڑے میں مغلوب پہلوان کی ٹھکائی کی باضابطہ دعوت دے رہا ہوتا ہے۔

کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔