پی سی بی بزرگوں کا ادارہ بن چکا، ینگ تھنک ٹینک بنا رہے ہیں

سلیم خالق  اتوار 4 اکتوبر 2015
چیئرمین پی سی بی شہریارخان کا ’’ایکسپریس‘‘ کے ایڈیٹر اسپورٹس سلیم خالق کو خصوصی انٹرویو۔ فوٹو : فائل

چیئرمین پی سی بی شہریارخان کا ’’ایکسپریس‘‘ کے ایڈیٹر اسپورٹس سلیم خالق کو خصوصی انٹرویو۔ فوٹو : فائل

شہریارخان بطور چیئرمین ان دنوں پی سی بی میں دوسری اننگز کھیل رہے ہیں،ماضی کے مقابلے میں اب ان کے سامنے کئی چیلنجز موجود ہیں،ان دنوں خاص طور پر بھارت سے سیریز کا معاملہ میڈیا میں چھایا ہوا ہے، گذشتہ دنوں لاہور میں ان سے خصوصی گفتگو کا آغاز اسی حوالے سے ہوا۔

ایکسپریس: بھارت ایک بار پھر پاکستان سے سیریز کھیلنے میں ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے،آپ کو کیا لگتا ہے مقابلوں کا انعقاد ہو گا یا نہیں؟
شہریارخان:پاک بھارت کرکٹ کا معاملہ بہت سادہ ہے، ہم نے اور بی سی سی آئی نے8 سال میں 6 سیریز کے ایم او یو پر دستخط کیے ہیں،اس کے تحت ہماری پہلی ہوم سیریز رواں برس دسمبر میں یو اے ای میں ہونی ہے۔

اب جب میں بھارتی حکام سے پوچھتا ہوں تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ ہم تیار ہیں لیکن چونکہ ایم او یو سابقہ حکومت کے دور میں سائن ہوا تھا اس لیے اب ہمیں نئی حکومت سے اجازت لینا ہوگی،میں نے2،3 بار ان سے پوچھا مگر کوئی مثبت جواب نہ آیا،اس حوالے سے آئی سی سی کے بھارتی چیئرمین سری نواسن سے بھی بات ہوئی مگر پیش رفت نہ ہو سکی، ہم ان سے کہتے ہیں کہ امید ہے کہ آپ سیریز کھیلیں گے لیکن اگر حکومت روک دے توکچھ نہیں کیا جا سکتا، اس صورت میں ہمیں صاف بتا دیں تاکہ ہم اپنے پلان بی وغیرہ پر کام کر سکیں۔

میں نے سیکریٹری بی سی سی آئی انوراگ ٹھاکر کو 28 اگست کو خط لکھا،گذشتہ ماہ جگموہن ڈالمیا کو بھی بتایا تھا کہ آپ کے سیکریٹری کو خط لکھا یہ اس کا پس منظر ہے۔ پھر مجھے بھارتی میڈیا نے آگاہ کیاکہ ان کی جو منسٹری یہ معاملات دیکھتی ہے اس سے تاحال اجازت ہی نہیں مانگی گئی، یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ بی سی سی آئی نے اب تک اپنی حکومت سے کچھ پوچھا ہی نہیں، میں نے ان سے کہا ہے کہ اب صرف 2،3 ماہ رہ گئے لہٰذا ہمیں بتائیں کہ اجازت ملی یا نہیں، اگر نہیں ملی تو ہم معاہدے سے پھرنے پر ضروری ایکشن لینے کا حق محفوظ رکھتے ہیں، مجھے سرتاج عزیز کے دورے سے بڑی امید تھی مگر سرحدی کشیدی کے سبب دونوں ممالک میں تلخی بڑھی اور وہ نہ جا سکے۔

سیکریٹری بی سی سی آئی انوراگ ٹھاکر چونکہ سیاستدان ہیں لہٰذا انھوں نے بھی منفی بیانات دیے، مجھے جگموہن ڈالمیا سے امیدیں تھیں جن سے میرے ذاتی تعلقات رہے لیکن ان کا انتقال ہو گیا۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ آئی سی سی کا اجلاس اکتوبر کے وسط میں ہوگا اس وقت تک فیصلے ہو جانے چاہئیں،اگر نہیں ہوتے تو گوکہ بیشتر ٹیمیں اس عرصے میں مصروف ہوں گی مگر ہمارے پلان بی میں بہت سی چیزیں موجود ہیں۔ان تمام باتوں کے باوجود میں اب بھی پُرامید ہوں کہ شاید کوئی راہ نکل آئے اور میچز کا انعقاد ہو۔

ایکسپریس: صرف زمبابوے اور بنگلہ دیش ہی کی اس عرصے میں کوئی سیریز نہیں ہے، مگر بنگلہ بورڈ اپنی لیگ کرا رہا ہے۔
شہریارخان: زمبابوے سے ویسے ہی رواں برس 2 سیریز ہو چکیں، اب تیسری کھیلنا مناسب نہ ہو گا، بنگلہ دیش سے لیگ کی وجہ سے نہیں کھیل سکیں گے مگر کچھ نہ کچھ ضرور ہو گا، وہ میں وقت آنے پر بتاؤں گا۔

ایکسپریس: کیا ورلڈ الیون کو بلانے کا ارادہ ہے؟
شہریارخان: نہیں ورلڈ الیون کا دورہ بہت مہنگا پڑے گا، ہمیں انھیں کروڑوں روپے دینا ہوں گے، میں کچھ اور چاہ رہا ہو، آپ کو بتا دیتا ہوں کہ اگر بھارتی ٹیم نہیں آتی تو شاید ہم دسمبر میں پاکستان سپر لیگ ہی کرا لیں۔

ایکسپریس:ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کے لیے کیا اقدامات کر رہے ہیں؟
شہریارخان: ہماری پوری کوششیں جاری ہیں، زمبابوین ٹیم لاہور میں کھیل کر گئی، بنگلہ دیشی ویمنز ٹیم دورے پر آ چکی، میں ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ دروازے کھلنا شروع ہوتے ہیں تو اس سے فائدہ ہوتا ہے یقینا اب بھی ایسا ہی ہوگا اور ملکی میدان آباد رہیں گے۔

ایکسپریس: بنگلہ دیش کے حوالے سے یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ پی سی بی نے ان کی لیگ میں پاکستانی کھلاڑیوں کی شمولیت ویمنز ٹیم کے دورے سے مشروط کی تھی؟
شہریارخان: ایسا بالکل نہیں تھا، ان کی ویمنز ٹیم اگر نہ بھی آتی تو بھی ہمارے کھلاڑی بنگلہ دیش جا کر کھیلتے، ہم انھیں اجازت ضرور دیںگے۔

ایکسپریس: آپ نے کہا کہ اگر بھارتی ٹیم نہ آئی تو کوئی ایکشن لینے کا سوچیں گے، کیا کرنے کا ارادہ ہے؟
شہریارخان: یہ تو اسی وقت سوچیں گے جب وہ حتمی طور پر انکار کر دیں، اگر وہ معاہدے سے پھرے تو ہمارا ایک اقدام یہ ہو سکتا ہے کہ ٹھیک ہے ہم بھی اب آپ کے خلاف نہیں کھیلیں گے، اگر آئی سی سی یا اے سی سی کا کوئی ایونٹ ہو تو پھر ہو سکتا ہے کہ ہم کہیں کہ آپ ہم سے سیریز نہیں کھیلتے تو ہم بھی نہیں کھیلیں گے، چاہے وہ ریجنل چیمپئن شپ ہی کیوں نہ ہو، مگر دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہم ضرور ایسا کرنے جا رہے ہیں لیکن کوئی نہ کوئی ایکشن ضرور لیا جائے گا۔

ایکسپریس:آپ نے گذشتہ دنوں ایک کرکٹنگ پلان کا ذکر کیا تھا، وہ کیا ہے؟
شہریارخان:ہم3 پسماندہ علاقوں فاٹا، بلوچستان اور آزاد کشمیر میں کرکٹ کو فروغ دینے کے لیے خصوصی اقدامات کر رہے ہیں، اس کا سیاسی فائدہ بھی ہوگا، ہم وہاں بھاری رقم خرچ کریں گے، گراؤنڈز بنانے کے ساتھ کوچز بھی فراہم کیے جائیں گے، دیگر علاقوں میں تو یہ کام ریجنز کا ہوتا ہے لیکن ان مقامات پر بورڈ کرے گا،بلوچستان اور فاٹا میں اس کا زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے،کرکٹ ہر شخص کھیلنا چاہتا ہے۔

، اس کی جانب راغب ہو کر بچے تشدد و منفی سرگرمیوں سے دور رہیں گے، اسے جاری فوجی آپریشن کا سپورٹ پلان قرار دیا جا سکتا ہے، فاٹا میں بہت ٹیلنٹ ہے، انڈر 19ٹیم میں بھی تین کھلاڑی وہیں کے ہیں، قومی ٹیم میں بھی فاٹاکے کھلاڑی شامل ہو چکے، مجھے سلیکٹرز نے بتایا کہ وہاں بہت اچھے کھلاڑی موجود ہیں، اس لحاظ سے پیسہ خرچ کرنے میں پی سی بی کا ہی فائدہ ہے۔ فاسٹ بولر عمران خان جونیئر وہاں کا رول ماڈل بن چکا، وہ بہت اچھا لڑکا اور مجھے امید ہے کہ بہترین کھیل پیش کرے گا۔

ایکسپریس: بورڈ میں ان دنوں ملازمین کی تعداد کم کرنے کی مہم چلی ہوئی ہے، مگرانتخاب عالم سے ڈائریکٹر کا عہدہ واپس لے کر انھیں قومی ٹیم کا منیجر مقرر کر دیا گیا، ایسے میں اس کا فائدہ کیا ہے؟
شہریارخان: نوید اکرم چیمہ نے گذشتہ دنوں مجھ سے کہا تھا کہ حکومت ایک اہم ذمہ داری سونپ رہی ہے لہٰذا مجھے اب اجازت دیں، اسی وقت میں نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ ٹیم تو زمبابوے جانے والی ہے فوراً کسی منیجرکا تقرر کرنا ہوگا،اس لیے ہم نے تجربہ کار انتخاب عالم کو ذمہ داری سونپی، وہ پاکستان کے کپتان رہ چکے، کئی برس کاؤنٹی کرکٹ بھی کھیلی، اس لیے ہم نے متفقہ طور پر انھیں ذمہ داری سونپنے کا قدم اٹھایا، البتہ یہ عبوری فیصلہ ہے، یو اے ای میں انگلینڈ سے سیریز کے بعد کسی مستقل منیجر کا تقرر کریں گے۔ نوید اکرم چیمہ نے عمدگی سے اپنے فرائض نبھائے، ٹیم کی حالیہ فتوحات میں تھوڑا بہت ان کا بھی ہاتھ ہے، انھوں نے ڈسپلن برقرار رکھا، ٹیم میں اتحاد بھی نظر آیا۔

ایکسپریس: ایک اور ڈائریکٹر ذاکر خان کو بھی ہٹا کر جونیئر ٹیموں کی ذمہ داری سونپ دی گئی؟
شہریارخان: ہم 2 ڈائریکٹرز کم کرنا چاہ رہے تھے اسی لیے ذاکرخان اور انتخاب عالم کو عہدوں سے ہٹایا، اس کی سفارش جائزہ لینے والی کمیٹی نے کی تھی، ہمارا اب صرف ایک کرکٹ ڈائریکٹر ہے جو چیف آپریٹنگ آفیسر سبحان احمد کو جوابدہ ہو گا، ڈومیسٹک اور انٹرنیشنل کرکٹ میں جنرل منیجرز ہوں گے مگر ڈائریکٹرز نہیں، ہم اور بھی شعبوں میں ایسا ہی کریںگے،ذاکر اور انتخاب نے بورڈ کے لیے کافی کچھ کیا، اگر ہم انھیں کہیں اور استعمال کر سکیں تو اس کا بورڈ کو ہی فائدہ ہوگا،جانے پہچانے لوگ ہیں اسی لیے انھیں دوسرا کام سونپ دیا۔

ایکسپریس: کیا اور بھی لوگوں کو فارغ کرنے کا ارادہ ہے؟
شہریارخان:رائٹ سائزنگ کا بورڈ آف گورنرز نے ہم سے کہا اور یہ ضروری بھی ہے، ہر نیا چیئرمین 50،60 افراد کو ساتھ لاتا ہے، یہ پہلے سے موجود لوگوں سے بھی آگے آ جاتے ہیں،جب میں پہلی بار بورڈ کا سربراہ بنااور پھر دوسری بار عہدہ سنبھالا تو پتا چلا کہ بے تحاشا بھرتیاں کی گئی ہیں، چپڑاسی، باغبان یہ سب اضافی آ گئے، ایک مرتبہ یہ لوگ آ جائیں تو انھیں نکالنا بہت مشکل ہوتا ہے،رائٹ سائزنگ ہم آہستہ آہستہ کریں گے، کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہو گی، ہر شعبے میں ریٹائرمنٹ کی ایک عمر ہوتی ہے بورڈ میں ایسا نہیں ہے۔

لہٰذا ہم نے کہہ دیا کہ 70 سال سے زائد العمر افراد معاہدے ختم ہونے پر فارغ ہو جائیںگے،60 سے65 سال کے ملازمین کو ہم بتدریج ریٹائر کریں گے،البتہ ان میں سے کچھ لوگوں کا کوئی متبادل موجود نہیں ہے،ایسا کیوں نہ ہو سکا یہ اور بات ہے، مثال کے طور پر گراؤنڈز مین حاجی بشیر بورڈ کے لیے ناگزیر ہیں،ان کے پاس 40،50 سال کا تجربہ موجود ہے، انھیں اگر ہم کہیں کہ آپ چلے جائیں تو ہمارا ہی نقصان ہوگا،وہ ہمارا اثاثہ ہیں، اب ہماری ذمہ داری ہے کہ نئے لوگوں کو تیار کریں جو کام سنبھال سکیں، یہ سست طریقہ کار ہے لیکن ہوگا۔ ہم نے ریڈیو ڈپارٹمنٹ ختم کر کے کہہ دیا کہ جب یہ پروجیکٹ شروع کریں گے تو دوبارہ بلا لیا جائے گا،اسی طرح ہمارا ارادہ دیگر ڈپارٹمنٹس کو بھی رائٹ سائز کرنے کا ہے۔

ایکسپریس: ایک طرف بورڈ لوگوں کو ملازمتوں سے نکال رہا ہے مگر ساتھ نئی تقرریاں بھی جاری ہیں، سنا ہے 40 کے قریب نئے افراد کو ملازمت دی گئی ہے؟
شہریارخان:نئے کاموں کے سلسلے میں بعض لوگوں کو ملازم رکھا ہے، اسی کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ پی سی بی میرے جیسے بزرگ افراد پر مشتمل ادارہ بن چکا، ہمیں نیا ٹیلنٹ اور ایسے لوگ چاہئیں جو ابھی ہی یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کر کے فارغ ہوئے ہوں، میں نے بورڈ میں ایک ’’ینگ تھنک ٹینک‘‘ بنایا اس میں 2،3 لڑکوں کا تقرر ہوا جنھیں میں جانتا بھی نہیں تھا،شروع میں دیگر افراد نے خود کو غیرمحفوظ سمجھنا شروع کیا کہ یہ کہاں سے آ گئے یہ تو چیئرمین کے فیورٹ ہیں، اس طرح کی باتیں ہوئیں مگر میں جانتا تھا کہ وہ لڑکے سخت محنت کریں گے اور پھر ایسا ہی ہوا، اب6ماہ بعد یہ ینگ تھنک ٹینک اتنا مقبول ہو چکا کہ ہر شعبہ انھیں اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے،ہمیں ایسے ہی نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ جب ہم نے پی ایس ایل کا پروجیکٹ شروع کیا تو اس کے لیے مارکیٹنگ، سوشل میڈیا سمیت دیگر شعبوں کے لیے ماہرین کی ضرورت تھی،موجودہ افراد اس انداز میں یہ کام نہیں کر سکتے جس کی ان سے توقع ہوتی،اس لیے ہم نے تقرریاں کیں۔

ایکسپریس: پی ایس ایل پر لوگ کہتے ہیں کہ پیسہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے، کیا آپ کو لگتا ہے کہ وہ واپس بھی آئے گا؟
شہریارخان: کہتے تو یہی ہیں کہ بہت پیسہ خرچ ہو رہا ہے، مگر میری شرط یہی ہے کہ یہ رقم واپس بھی آنی چاہیے، میں لیگ کو نہیں چلا رہا،اس کے لیے نجم سیٹھی کی زیرسربراہی قابل افراد پر مشتمل ایک ٹیم بنی ہے، مارکیٹنگ اور فنانس کے لوگ بھی آئے ہیں، سپر لیگ پی سی بی کے اندر ہی ایک اسپیشلائز شعبہ ہے،ہم پہلے سال بیلنس دیکھیں گے، ابتدا میں کامیابی اہم ہے،فوراً مالی فائدے کی توقع نہیں رکھنی چاہیے، مگر جو بات آپ نے کہی کہ ’’پیسہ پانی کی طرح بہہ رہا ہے‘‘ یقینا اسے واپس بھی آنا چاہیے، اب تک کی رپورٹس حوصلہ افزا ہیں،ٹیمیں خریدنے میں بہت لوگ دلچسپی کا اظہار کر رہے ہیں، اتنے اسپانسرز مل چکے کہ ہمیں کوئی طریقہ کار بنانا پڑے گا کہ کسے ٹیم خریدنے کا موقع دیں۔

ایسا نہیں ہو گا کہ کوئی بھی کہیں سے پیسے لا کر کہے کہ میں ٹیم خریدنا چاہتا ہوں، ساکھ اور کرکٹ سے وابستگی کا اچھی طرح جائزہ لیا جائے گا، ہمیں انگلینڈ، آسٹریلیا اور بھارت سے بھی آفرز موصول ہوئی ہیں۔ ایک تنقید یہ آئی کہ افتتاحی تقریب میں بینڈ باجا ہی تھا کرکٹ پر توجہ نہیں دی گئی،ایک لحاظ سے یہ ٹھیک بھی ہے، مگر دنیا بھر میں اس قسم کی چیمپئن شپ کا آغاز ایسے ہی ہوتا ہے، آپ آئی پی ایل دیکھ لیں، شاہ رخ خان جیسے اداکار اور بڑے بڑے کاروباری افراد وہاں نظر آتے ہیں،اس ہلے گلے سے ہی آنے والا پیسہ پھر پلیئرز کے پاس ہی جاتا ہے، ابھی ایونٹ کا آغاز ہو گا یقینا ہم غلطیاں بھی کریں گے، بس کوشش یہی ہے کہ سپر لیگ کامیاب ہو جائے۔

ایکسپریس: پہلا ایونٹ یو اے ای میں کرا رہے ہیں کیا اسے پاکستان واپس لانے کا بھی ارادہ ہے؟
شہریارخان:کوشش ضرور کریں گے مگر اس کا انحصار سیکیورٹی حالات پر ہوگا،ہم یہی چاہتے ہیں کہ پی ایس ایل کا پاکستان کو مالی اور کرکٹ کے لحاظ سے فائدہ ہونا چاہیے، ساتھ شائقین بھی لطف اندوز ہوں،ملک میں ان دنوں آپریشن کامیابی سے جاری اور امید ہے کہ جلد حالات مزید بہتر ہو جائیں گے۔

ایکسپریس: گذشتہ دنوں یونس خان پھر بورڈ سے ناراض ہوئے اور پی ایس ایل کی تقریب میں مدعو نہ کیے جانے کا شکوہ کر رہے تھے۔
شہریارخان: میں نے چیک کیا، یونس سمیت جاوید میانداد اور عمران خان کو بلایا گیا تھا، ان میں کچھ نے سفری و رہائشی اخراجات بھی طلب کیے،اس کا فیصلہ نہیں ہوا تھا، ایک کو دیں تو سب کو پیسے دینے چاہیے تھے، یونس کو بھی اسی لیے کوئی ادائیگی نہیں ہوئی۔

ایکسپریس: یونس خان ون ڈے کرکٹ میں واپسی کے بھی خواہاں ہیں، آپ اس حوالے سے کیا سمجھتے ہیں؟
شہریارخان:اس کا گذشتہ دنوں چیف سلیکٹر ہارون رشید نے صاف جواب دے دیا، ان کا کہنا تھا کہ ہم اگلے ون ڈے ورلڈکپ کے لیے ٹیم تشکیل دے رہے ہیں، گوکہ یونس فٹ ہیں مگر اب آپ ہی بتائیں کہ کہ کیا 43 سالہ کوئی کھلاڑی میگا ایونٹ میں حصہ لے سکے گا، میری رائے کے مطابق بھی یہی حقیقت ہے، یونس ون ڈے سے ڈراپ ہوئے پھر ٹیسٹ میں اچھی پرفارمنس کے بعد واپس آئے اور ورلڈکپ بھی کھیلا مگر کامیاب نہ رہے۔

معین خان اور ہارون رشید پر مشتمل 2 الگ سلیکشن کمیٹیز نے انھیں ون ڈے کے لیے منتخب نہیں کیا، اسی طرح کیا یہ منصفانہ بات ہوگی کہ اچھا پرفارم کرنے والے بابر اعظم، حارث سہیل اور صہیب مقصود جیسے نوجوان کھلاڑیوں کی راہ روک کر کسی ڈھلتی عمر کے کھلاڑی کو آزمائیں، بہت سے صحافی کہتے ہیں کہ میرے یونس خان سے 2006میں تعلقات خراب ہو گئے تھے مگر میں آپ کو بتاتا ہوں کہ میرے دل میں ان کے لیے بڑی قدر ہے اورکوئی منفی بات نہیں ہے، ہم ماضی میں ہی سب باتیں کلیئر کر چکے، میں ہمیشہ ان کی تعریف کرتا ہوں، وہ عظیم کھلاڑی ہیں، انھیں منفی بیانات سے گریز کرنا چاہیے۔

ایکسپریس: سعید اجمل کے بارے میں ایسی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ وہ الوداعی میچ کھیل کر کرکٹ کو چھوڑنا چاہتے ہیں، کیا بورڈ انھیں ایسا کوئی موقع دے گا؟
شہریارخان: میں ایک بات کا قائل ہوں کہ مصباح الحق، یونس خان اور شاہد آفریدی سمیت کسی پر میں بورڈ کی جانب سے ریٹائرمنٹ کے لیے دباؤ نہیں ڈالوں گا، میں اس کے خلاف ہوں، ایسا کہنا کہ اگر ریٹائر ہونے کا کہہ دو تو ایک میچ کھلا دیں گے یہ ٹھیک نہیں، آپ میرٹ پر کھیلیں اور خود ہی ریٹائر ہوں، ہم کوئی دباؤ نہیں ڈالیںگے۔
ایکسپریس: نجم سیٹھی سے آپ کے ناخوشگوار تعلقات کی خبریں بھی اکثر میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں؟
شہریارخان: ایسی کوئی بات نہیں، ہم دونوں میں اچھی ورکنگ ریلیشن شپ ہے۔
[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔