نابینا پن کی خواہش مند امریکی خاتون نے آنکھوں میں تیزاب ڈال کر خواہش پوری کرلی

ویب ڈیسک  پير 5 اکتوبر 2015
جیویل شُوپنگ نے 2006 میں اپنی آنکھوں میں تیزابی کیمیکل ڈال دیا تھا جس میں ان کے بوائے فرینڈ نے ان کی مددکی تھی۔ فوٹو: فائل

جیویل شُوپنگ نے 2006 میں اپنی آنکھوں میں تیزابی کیمیکل ڈال دیا تھا جس میں ان کے بوائے فرینڈ نے ان کی مددکی تھی۔ فوٹو: فائل

ڈرہم ، نارتھ کیرولینا: امریکہ میں ایک خاتون نے اپنی آنکھوں میں سیوریج نالیاں صاف کرنے والا تیزاب ڈال کر اپنی بینائی ختم کردی ہے اور اس کے بعد اب وہ بہت خوشی محسوس کررہی ہیں۔

30 سالہ امریکی خاتون جیویل شُوپنگ ایک نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہیں جسے باڈی انٹیگریٹی آئڈینٹٹی ڈس آرڈر (بی آئی آئی ڈی) کہتے ہیں اور ایسے مریض خود کو معذور دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ خاتون بھی بچپن سے نابینا ہونا چاہتی تھیں۔ ’ چھ سال کی عمر میں ، میں نے اندھا ہونے کے بارے میں سوچنا شروع کردیا تھا اور مجھے یہ سوچ کر بہت خوشی ہوتی تھی کہ اندھا ہونے کے بعد میری زندگی پُرسکون ہوجائے گی۔ اس سے قبل وہ گھنٹوں سورج کو تکتی رہتی تھیں تاکہ وہ نابینا ہوجائے ۔

صرف یہی نہیں جیویل نے نوعمری میں گہرا کالا چشمہ پہننا اور سفید چھڑی استعمال کرنا شروع کردی تھی جبکہ 20 برس میں بریل سسٹم پر عبور حاصل کرلیا تھا جو نابینا افراد پڑھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ 2006 میں انہوں نے ایک کیمیکل اپنی آنکھوں میں ڈالا جس کی جلن سے وہ تڑپ اٹھیں لیکن اندھےہونے کے احساس سے خوش تھیں۔ لیکن انہیں زبردستی ہسپتال لے جایا گیا اور ڈاکٹروں نے ان کی آنکھوں کو بچانے کے لیے ہرممکن کوشش کی اور وہ تھوڑا بہت دیکھنے لگی تھیں لیکن دھیرے دھیرے ان کی آنکھوں کی روشنی کم ہوتی گئی اور اب وہ مکمل طور پر اندھی ہوچکی ہیں۔ اس عمل میں ان کے سابق بوائے فرینڈ مائیک نے بہت مدد کی لیکن ان کے والدین ہمیشہ اس سے ناخوش رہے۔ اب وہ اپنے اندھے بوائے فرینڈ کے ساتھ یونیورسٹی جاتی ہیں جہاں وہ تعلیم حاصل کررہی ہیں۔

اس سے قبل یوٹاہ کی ایک خاتون بھی اپنی کمر کو نقصان پہنچا کر معذور ہوکر وھیل چیئرتک محدود ہوگئی تھیں۔ ماہرین کے مطابق بی آئی آئی ڈی میں مبتلا افراد ٹرین کی زد میں آکراپنی ٹانگیں کٹوالیتے ہیں۔ معذور ہونے کے لیے ہاتھوں کو برف میں ڈالتے ہیں اور کبھی کبھی اونچے پہاڑ یا عمارتوں سے خود کو گرالیتے ہیں تاکہ وہ معذور ہوسکیں لیکن یہ ایک خطرناک عمل ہے جس میں ان کی جان بھی چلی جاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔