پاک چین راہداری منصوبہ… اعتراضات دور ہونے چاہئیں

ایڈیٹوریل  منگل 6 اکتوبر 2015
پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت بارہا اس عزم کا اظہار کر چکی ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ ہر ممکن طور پر پورا کیا جائے گا۔

پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت بارہا اس عزم کا اظہار کر چکی ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ ہر ممکن طور پر پورا کیا جائے گا۔

پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کا اعلان ہونے کے کچھ عرصے بعد صوبہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے اعتراضات سامنے آنا شروع ہو گئے ان کا موقف تھا کہ حکومت ان کے علاقے میں اس منصوبے کے روٹ تبدیل کر رہی ہے جو انھیں قبول نہیں۔ اس سے پہلے کہ یہ منصوبہ اختلافات کی بھینٹ چڑھتا حکومت نے فوری طور پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کا اجتماع بلا لیا اور ان کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی اور انھیں یقین دلایا کہ حکومت منصوبے کے روٹ میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کرے گی اور چھوٹے صوبوں کے مفادات کا ہر ممکن تحفظ کیا جائے گا۔

اب ایسی اطلاعات منظرعام پر آئی ہیں کہ صوبہ بلوچستان نے پاک چین اقتصادی راہداری کے توانائی منصوبوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے اس منصوبے میں مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے وزارت پانی و بجلی نے اس تاثر کو غلط قرار دیتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ حکومت پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں کسی صوبے کے ساتھ زیادتی کر رہی ہے یا کسی دوسرے صوبے کو ترجیح دے رہی لیکن اس کے تمام منصوبوں پر کام شیڈول کے مطابق جاری ہے اور یہ اپنے مقررہ وقت ہی پر مکمل کر لیے جائیں گے۔

وزارت پانی و بجلی نے بلوچستان کی طرف سے تحفظات کے بعد پاک چین اقتصادی راہداری کے توانائی منصوبوں کی نگرانی کے لیے مانیٹرنگ اینڈ امپلیمنٹیشن کمیٹی کے قیام کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرایع کے مطابق کمیٹی کا مقصد ان صوبوں کی طرف سے پیدا ہونیوالے خدشات کو دور کرنا ہے جن کے باعث توانائی منصوبے التواء کا شکار ہو رہے ہیں اور یہ کمیٹی ماہانہ بنیادوں پر ان منصوبوں پر ہونے والی پیشرفت کا جائزہ لے گی۔

پاک چین اقتصادی راہداری پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا ایک بہت بڑا منصوبہ ہے اس کو گیم چینجر کے نام سے بھی پکارا جا رہا ہے جس کی تکمیل سے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کی معاشی صورت حال پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے لہٰذا اس منصوبے کو کسی بھی طرح اختلافات کی نذر نہیں ہونا چاہیے اگر کسی بھی صوبے کو اس منصوبے کے کسی بھی شعبے سے کسی بھی طرح کے تحفظات خواہ وہ معمولی نوعیت کے ہی کیوں نہ ہوں،ہیں تو انھیں فوری طور پر دور کرنے کے لیے اقدامات کیے جانے چاہئیں۔

چھوٹے صوبوں کو اکثر یہ شکایت رہی ہے کہ مرکزی حکومت ان کی ترقی اور خوشحالی کی جانب بھرپور توجہ نہیں دے رہی دوسری جانب اہم قومی منصوبوں میں بھی ان کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔ لہٰذا مرکزی حکومت پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ چھوٹے صوبوں کے تحفظات اور خدشات دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور کسی بھی سطح پر اس سوچ کو پروان نہیں چڑھنا چاہیے کہ چھوٹے صوبوں کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے سے چھوٹے صوبوں میں بھی ترقی اور خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہو گا اس لیے مرکزی حکومت اگر ملک بھر میں صنعتی انقلاب لانے کی خواہاں ہے تو اسے اس اہم قومی منصوبے میں چھوٹے صوبوں کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھنا چاہیے۔

20اپریل 2015ء میں چینی صدر کے دورہ پاکستان کے موقع پر توانائی‘ دفاع‘ مواصلات اور انفرااسٹرکچر کے شعبوں میں51 معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے تھے جن کی مالیت 46 ارب ڈالر بتائی گئی تھی۔ اس منصوبے کے تحت چین کے علاقے کاشغر سے گوادر بندر گاہ تک ریلوے‘ موٹرویز‘ تیل اور گیس کی پائپ لائنیں بچھائی جائیں گی، گوادر سے کاشغر تک کا فاصلہ تین ہزار کلو میٹر ہے، یہ منصوبہ مکمل ہونے میں ایک عرصہ درکار ہے، جس کی تکمیل سے چین کی گوادر کے راستے سے مشرق وسطیٰ کے ممالک تک رسائی آسان ہو جائے گی۔

جب اپریل میں اس منصوبے پر دونوں ممالک نے دستخط کیے تھے تو اس وقت وفاقی وزیر پانی و بجلی نے کہا تھا کہ چینی کمپنیوں کے ساتھ توانائی کے 20 ارب ڈالر مالیت سے زائد معاہدوں پر دستخط کیے گئے ہیں، تین سال میں 8 ہزار 300 میگاواٹ بجلی سسٹم میں آ جائے گی، ان منصوبوں میں تھرکوئلے‘ سولر‘ ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے چار اور ہائیڈل کے دو بڑے منصوبے شامل ہیں، ساہیوال اور پورٹ قاسم میں کوئلے کے دو منصوبوں کے علاوہ قائداعظم سولر پاور پروجیکٹ بھی شامل ہے۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری کے دوسرے مرحلے میں گوادر کی بندر گاہ کو بہتر بنائے گا، تیسرے مرحلے میں ریلوے لائنز، شاہراہیں اور ایکسپریس ویز تعمیر کی جائیں گی اور چوتھے مرحلے میں ملک میں خصوصی اقتصادی زون قائم کیے جائیں گے۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت بارہا اس عزم کا اظہار کر چکی ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ ہر ممکن طور پر پورا کیا جائے گا۔ حکومت چاروں صوبائی حکومتوں پر مشتمل مانیٹرنگ اینڈ امپلی مینٹیشن کمیٹی تشکیل دے تاکہ کسی بھی صوبے کی جانب سے پیدا ہونے والے تحفظات کو فوری طور پر دورکیا جا سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔