لاہور کا ضمنی الیکشن… فریقین کشیدگی سے بچیں

ایڈیٹوریل  منگل 6 اکتوبر 2015
الیکشن میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے، الیکشن لڑنے والے امیدواروں اور ان کی جماعتوں کے رہنماؤں کو اپنے منشور کو سامنے رکھ کر انتخابی مہم چلانی چاہیے۔ فوٹو : پی پی آئی

الیکشن میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے، الیکشن لڑنے والے امیدواروں اور ان کی جماعتوں کے رہنماؤں کو اپنے منشور کو سامنے رکھ کر انتخابی مہم چلانی چاہیے۔ فوٹو : پی پی آئی

لاہور میں این اے 122 میں ضمنی الیکشن کے لیے پولنگ کا دن جوں جوں قریب آ رہا ہے، امیدواروں کی انتخابی مہم میں تیزی آ رہی ہے، گزشتہ روز تحریک انصاف نے بڑے انتخابی جلسے کا انعقاد کیا، اس جلسے سے تحریک انصاف کے قائد عمران خان ،جہانگیر ترین اور دیگر مرکزی قائدین نے خطاب کیا۔

اس جلسے کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں عمران خان کی اہلیہ ریحام خان نے بھی شرکت کی، جس وقت تحریک انصاف کا جلسہ ہو رہا تھا، اس وقت مسلم لیگ ن بھی اپنے امیدوار سردار ایاز صادق کے حق میں جلسہ کر رہی تھی اور اس جلسے سے وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور ماروی میمن نے خطاب کیا۔ این اے 122کا ضمنی الیکشن محض ایک حلقے کا الیکشن نہیں رہا بلکہ قومی سطح پر شہرت حاصل کر گیا ہے۔پورے ملک کی نظریں اس حلقے کے نتائج پر لگی ہوئی ہیں۔

دونوں سیاسی جماعتوں کے لیے اس حلقے میں ہار جیت انتہائی اہمیت کی حامل ہے، اس لیے دونوں جماعتوں کی یہ کوشش ہے کہ اس کا امیدوار جیت جائے لہٰذا مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف الیکشن جیتنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ دونوں جانب سے کارکنوں کا جوش و خروش بڑھ ہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دونوں جانب سے بیانات میں بھی تلخی کا عنصر داخل ہو رہا ہے، تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے کہا ہے کہ خواتین پولنگ اسٹیشنز پر دھاندلی کا منصوبہ بن گیا ہے،دھاندلی روکنے کی بھرپور تیار کر لی، انھوں نے مطالبہ کیا کہ انتخابی نتائج فوج کی نگرانی میں منتقل کیے جائیں ۔

ادھر مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ عمران جمہوریت کے لیے خطرہ بنتے جا رہے ہیں ۔الیکشن کمیشن نے این اے 122 کے الیکشن کو فوج کی نگرانی میں کرانے کا فیصلہ کیا۔ وفاقی وزراء کو انتخابی مہم چلانے سے بھی روکا ہے۔ انتخابی مہم چلانا ہر امیدوار کا جمہوری اور آئینی حق ہے، یہی جمہوریت کی خوبصورتی ہے لیکن یہ سب کچھ آئین و قوانین کے دائرے میں رہنا چاہیے، بے جا قسم کی الزام تراشیوں اور دعوؤں سے پرہیز کیا جانا چاہیے۔

الیکشن میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے، الیکشن لڑنے والے امیدواروں اور ان کی جماعتوں کے رہنماؤں کو اپنے منشور کو سامنے رکھ کر انتخابی مہم چلانی چاہیے۔تندوتیز بیانات اور الزام تراشیوں سے سیاسی ماحول میں گرما گرمی پیدا ہوتی ہے جس سے تصادم کے امکانات بڑھ جاتے ہیں لہٰذا اس قسم کے رویے سے جتنا گریز کیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ابھی پولنگ میں پانچ چھ روزباقی ہیں لہٰذا فریقین کو تلخیوں اور الزام تراشیوں سے گریز کرتے ہوئے اپنے کارکنوں کو پرامن رہنے کی تلقین کرنی چاہیے تاکہ 11 اکتوبر کو پولنگ خوشگوار اور پرامن ماحول میں ہوسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔