سرکاری اسپتال کرپشن اور زبوں حالی کا شکار

ایڈیٹوریل  منگل 6 اکتوبر 2015
پرائیویٹ اسپتالوں اور ڈاکٹرز کی بھاری فیسیں غریب عوام کی کھال اتارنے کا کام سرانجام دے رہی ہیں۔   فوٹو : ایکسپریس / فائل

پرائیویٹ اسپتالوں اور ڈاکٹرز کی بھاری فیسیں غریب عوام کی کھال اتارنے کا کام سرانجام دے رہی ہیں۔ فوٹو : ایکسپریس / فائل

ریاستیں عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے بجٹ کا ایک بڑا حصہ صحت و تعلیم کے شعبے کے لیے مختص کرتی ہیں لیکن یہ پاکستانی عوامی کی بدنصیبی ہے کہ یہاں نہ صرف ان دو شعبہ جات کو نظر انداز کیا جاتا ہے بلکہ بجٹ میں بھی برائے نام حصہ دیا جاتا ہے اور رہی سہی کسر سرکاری اداروں میں پھیلی کرپشن کی وبا پوری کردیتی ہے، نتیجتاً جو آٹے میں نمک کے برابر بجٹ فراہم بھی کیا جاتا ہے وہ بھی کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے، جس کے باعث سرکاری اسپتال اور تعلیمی ادارے شدید زبوں حالی کا شکار ہیں۔

اخباری اطلاعات کے مطابق بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کے نام سے منسوب جناح اسپتال حکومت سندھ کی عدم توجہی کی وجہ سے مسائل کا شکار ہوگیا ہے، اسپتال کا انتظامی شعبہ 2گروپوں میں تقسیم ہونے سے اسپتال کے امور درہم برہم ہوگئے، دونوں گروپ ایک دوسرے کے انتظامی احکام تسلیم نہیں کرتے، اسپتال میں انتظامی سربراہوں کی چپلقش سے مریضوں کو حصول علاج میں شدید دشواریوں کا سامنا ہے، اسپتال میں پوسٹ گریجویشن کرنے والے ڈاکٹروں کی مشکلات بڑھ گئیں، جب کہ جناح اسپتال میں دواؤں کا بحران بھی جاری ہے، بیشتر یونٹوں میں زیرعلاج مریضوں اور او پی ڈی آنے والے مریضوں کو دوائیں فراہم نہیں کی جارہی جس کے باعث مریضوں اور انتظامی افسران کی تکرار معمول بن گئی ہے۔

انتظامی افسر کے مطابق حکومت سندھ جناح اسپتال کو دواؤں کی مد میں سالانہ 45کروڑ روپے فراہم کرتی ہے لیکن مریضوں کو دواؤں کا بجٹ نہ ملنے کا عذر پیش کیا جاتا ہے جس پر غریب مریض دوائیں باہر سے خریدتے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان اسٹیل مل میں بھی دواؤں کی خریداری کے معاملے پر کرپشن کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

جس پر نیب نے تحقیقات شروع کردی ہیں۔ ملک کے دیگر حصوں میں بھی سرکاری اسپتالوں کی حالت قابل تعریف نہیں، مریض شدید پریشانی کا شکار ہیں اور مجبوراً پرائیوٹ اسپتالوں اور کلینک کا راستہ اختیار کرتے ہیں جہاں مسیحاؤں نے قصائیوں کا روپ دھار لیا ہے، طب جیسے قابل عزت پیشے کو محض کمائی کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔

پرائیویٹ اسپتالوں اور ڈاکٹرز کی بھاری فیسیں غریب عوام کی کھال اتارنے کا کام سرانجام دے رہی ہیں۔ چیک اینڈ بیلنس کا نظام نہ ہونے کے باعث سرکاری اسپتالوں میں ہونے والی کرپشن کا میڈیا کے ذریعے سامنے آنے کے باوجود بھی سدباب نہیں ہو پا رہا ہے یا صوبائی سطح پر متعلقہ ادارے دانستہ کارروائی سے پہلوتہی کررہے ہیں، ’’چور کا بھائی کوتوال‘‘ ہو تو ’’ڈر کاہے کا‘‘۔ ہر صورت عوام ہی کو قربانی کا بکرا بننا پڑتا ہے ۔ آخر یہ معاملات کب تک یونہی چلتے رہیں گے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔