زندہ جاوید

تنویر قیصر شاہد  منگل 6 اکتوبر 2015
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

میرے دوست محبی عبدالحسیب مغل نے فون اور ایس ایم ایس کرکے یہ خبر دی کہ جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال انتقال کرگئے ہیں۔ اس وقت صبح کے گیارہ بجنے میں چند منٹ ابھی باقی تھے۔ فوری طور پر ٹی وی آن کیا۔ گیارہ بجے کی خبریں شروع ہوئیں تو پہلی خبر ہی یہ تھی کہ شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ کے صاحبزادے جناب جسٹس (ر) جاوید اقبال دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں ۔ اللہ کریم مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں ان کے درجات بلند ہوں۔ آمین، ثم آمین۔

ڈاکٹر جاوید اقبال کی رخصتی صرف ایک عہد اور شخصیت کی رخصتی نہیں ہے بلکہ ایک روشن دماغ اور روشن خیال دانشور سے بھی محرومی ہے۔ گلبرگ میںلاہور واقع ان کے دولت کدے پر میری لاتعداد ملاقاتیں ہوئیں اور ہر ملاقات نے ہمیشہ دل و دماغ کو نئی زندگی بخشی۔ انھوں نے بھرپور زندگی گزاری اور بے بدل شاعرِ مشرق کے صاحبزادے ہونے کا حق ادا کردیا ۔

وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور مشرق و مغرب کے جدید و قدیم مروّجہ علوم سے کما حقہ آگاہ بھی۔ اپنے والدِ گرامی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے فلسفہ کی تعلیم بھی حاصل کی اور قانون و سیاست کی بھی۔ والد صاحب کی طرح ہی وکیل بنے اور ایک قدم بڑھ کر عدلیہ میں بلند مقام پایا۔ ان کی طرح ان کی اہلیہ محترمہ جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال صاحبہ بھی ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلتی رہی ہیں۔

اپنی خودنوشت میں ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب نے کئی جگہ بجا طور پر محترمہ ناصرہ، جو لاہور کے ایک معروف اور معزز کاروباری خاندان کی صاحبزادی ہیں، کی تعریف و تحسین کی ہے مَیں اس امر کا عینی شاہد ہوں کہ ڈاکٹر جسٹس (ر) جاوید اقبال کی معرکہ آرا خود نوشت ’’اپنا گریباں چاک‘‘ کی تیاری اور اشاعت کے جملہ مراحل طے کرانے میں جسٹس ناصرہ جاوید اقبال کا بنیادی کردار تھا۔ گزارش یہ ہے کہ ’’اپنا گریباں چاک‘‘ کی تیاری اور اسے ’’دیکھنے سننے‘‘ میں راقم نے بھی چھوٹی سی خدمت انجام دی۔ جناب خالد احمد کے توسط سے محترمہ ناصرہ جاوید اقبال صاحبہ نے مجھ سے رابطہ کیا اور اشاعت سے قبل اس کتاب کے کمپوزڈ مسودّے کو ’’دیکھنے‘‘ کی خواہش کا اظہار فرمایا۔ میرے لیے یہ ایک اعزاز کی بات تھی؛ چنانچہ مَیں نے مسودے کو ’’دیکھا‘‘ اور لُطف اندور بھی ہوتا رہا۔ اسی کتاب کے حوالے سے جسٹس (ر) جاوید اقبال سے کئی بار ملنے، گفتگو کرنے اور کئی علمی معاملات کی گرہ کشائی کے اعزاز و نیاز بھی حاصل کرتا رہا ہوں۔ یوں ایک خوبصورت تعلق استوار ہوگیا۔

وہ ہمیشہ مجھ پر مہربان رہے اور ہمیشہ شفقت و محبت سے پیش آئے۔ ’’اپنا گریباں چاک‘‘ شایع ہوئی اور تو جناب جاوید اقبال نے اپنے دستخطوں کے ساتھ یہ کتاب مجھے ارسال فرمائی۔ جب کتاب کھولی تو یہ اس کے صفحۂ اول پر میرا نام پرنٹ کرکے میری خدمت کا اعتراف بھی کیا گیا ہے۔ محبت و شفقت کے اس مظاہرے کو بھولنا ممکن نہیں۔ اس کتاب کے ساتھ ہی محترمہ جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال کی طرف سے ایک لفافے میں بند ایک بیش بہا تحفہ بھی ملا۔ لفافے کے اوپر محترمہ ناصرہ جاوید اقبال نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا: ’’آپ کے بچوں کے لیے عیدی۔‘‘ افسوس، وہ قیمتی لفافہ اور یادگار تحریر مجھ سے کہیں کھو گئی۔

’’اپنا گریباں چاک‘‘ شایع ہوئی تو بعض ادبی اور صحافتی بزرگ ڈاکٹر جاوید اقبال پر کئی اطراف سے حملہ آور ہوئے۔ کتاب میں شامل بعض تصاویر پر اعتراض بھی کیا گیا۔ مصنف نے مولانا حسین احمد مدنی علیہ رحمہ، دو قومی نظریے اور اپنے عظیم والد کے حوالے سے جو علمی اعتراضات اٹھائے، اس بنیاد پر بھی وہ سخت تنقیدات کی زد میں آئے۔ جاوید اقبال ایک سچے انسان اور مردِ مومن کی طرح مگر قطعی نہ گھبرائے۔ سچی بات یہ ہے کہ ان کی یہ کتاب منافقت اور دوغلے پن سے پاک و مصفّا ہے۔ وہ مملکتِ خداداد پاکستان کو ایک روشن فکر کی حامل ریاست دیکھنے کے متمنی رہے۔

تھیوکریسی اور ملّائیت سے دور ڈاکٹر جسٹس (ر) جاوید اقبال اپنے والدِ گرامی کے معرکہ خیز علمی خطبات (’’تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ‘‘) کے حافظ و عاشق بھی تھے اور کلامِ اقبال کے بے مثل شارح بھی ۔وہ اپنی نجی گفتگو میں ’’کشف المحبوب‘‘ کے حوالے بھی بکثرت دیتے اور مَیں نے انھیں بارہا بابا بلھے شاہ کی قافیاں بھی گنگناتے سنا جن میں قصور میں محوِ خواب اس مردِ درویش نے مُلّا کی تنگ نظری پر طنز کیا ہے۔

ایک بار مَیں نے ان کے دولت کدے میں، دائیں جانب واقع چھوٹی سی لائبریری میں، انٹرویو کے دوران بابا بلھے شاہ علیہ رحمہ کی یہ قافی انھیں کی زبانی سنی: مَیں پاپڑھیاں تُوں نسناں ہاں/ کوئی منصف ہونروارے/ تاں مَیں دسناں ہاں/ عالم فاضل میرے بھائی/پاپڑھیاں میری عقل گوائی/ مَیں پاپڑھیاں تو نسناں ہاں (یعنی مَیں چوتھائی حصے پڑھے ہوئے (یعنی کم علم علماء) سے دُور بھاگتا ہوں۔ کوئی منصف ہو اور صاحبِ فہم ہوتو تب ہی مَیں کچھ بتاؤں گا۔ سب عالم فاضل میرے بھائی ہیں اور چوتھائی حصہ پڑھنے والے کم علموں نے میری عقل گنوائی ہے۔ مَیں چوتھائی حصہ پڑھے ہوؤں سے دُور بھاگتا ہوں)

ہم بدقسمت ہیں کہ ڈاکٹر جاوید اقبال ایسے اسکالر اور وطن و دین دوست دانشور سے محروم ہوگئے ہیں۔ بہت سی باتیں لکھنے والی ہیں لیکن اس کالم میں بھلا کتنا کچھ سما سکتا ہے؟ اندھیرا مزید بڑھتا دکھائی دیتا ہے کہ جاوید اقبال کی جگہ لینے اور ان کی علمی مسند سنبھالنے والا بھی کوئی دور و نزدیک نظر نہیں آرہا۔ ان کی کتابیں، کلامِ اقبال کی شرح پر مشتمل ان کے لیکچرز اور ان کے متنوع ریکارڈڈ انٹرویوز سیاسی، سماجی اور علمی اعتبار سے ہمارے لیے ہمیشہ روشنی اور روح پروری کا باعث بنتے رہیں گے۔ خالقِ کائنات جانے والے کی راہیں آسان اور ان کی روح کو آسودہ کرے۔ (آمین)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔