لیاری کے 100 فٹبالرز اور تعلیم

شبیر احمد ارمان  منگل 6 اکتوبر 2015
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

گزشتہ  برس سابق ایڈیشنل آئی جی کراچی شاہد حیات نے لیاری کے دورے کے موقعے پر سرکاری فنڈ سے بچوں میں تحائف تقسیم کیے تھے ، انھوں نے 400 بچوں کو یونیفارم دینے اور لیاری کے 100 فٹبالرزکو پولیس میں ملازمت دینے کا بھی اعلان کیا تھا۔

ایک عرصے بعد لیاری کی سرکاری اسکولز بحال ہونا  شروع ہورہے ہیں، جو اچھا شگون ہے لیکن محکمہ تعلیم کی غفلت سے تعلیمی مسائل اپنی جگہ موجود ہیں جنھیں جنگی بنیادوں پر حل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ پرائمری سطح پر نصابی کتب نایاب ہیں صرف اول اور پنجم جماعت کی کتابیں تقسیم کی جارہی ہیں  ، باقی کتابیں آنے کے بعد دینے کا کہا گیا ہے اور یہ صورتحال صرف ہمارے اسکول اور لیاری کی اسکولوں کی نہیں ہے بلکہ پورا سندھ اس کی لپیٹ میں ہے جہاں بچے بغیر کتابوں کے اسکولوں میں آجارہے ہیں اور کوئی پرسان حال نہیں۔ کیا فروغ تعلیم اسی کا نام ہے؟

لیاری فٹبال کی دنیا ہے جہاں بچہ اپنے کھیل کا آغاز فٹبال سے کرتا ہے۔ برصغیر میں لیاری کے فٹ بالرز مقبول ہیں، کیوں کہ ایک عرصے تک لیاری کے فٹبالرز برصغیر کی ہر بڑی ٹیم میں شامل رہے ہیں۔

ان میں کیپٹن محمد عمر، یوسف سینئر، کیپٹن غلام عباس، عبداﷲ راہی، علی نواز، روشو، عبدالغفورمجنا، استاد داد محمد، استاد شدو، شفو، قادر بخش، اﷲ بخش، مراد بخش مکوا، محمد اقبال، مولا بخش گوٹائی، غلام سرور،تقی ، امین ،مولا بخش مومن ،ایم یوسف جونیئر، تراب علی، نوشاد، عاشق علی، نصیر بلوچ، شاہد سلیم اور اقبال رضا کے علاوہ ایسے سیکڑوں نام موجود ہیں جو لیاری کے روشن ماضی اور حال کے جگمگاتے ستارے ہیں جنھوں نے پاکستانی ٹیم کی طرف سے بین الاقوامی سطح پر نمایندگی کی ہے اور ملک و قوم کا نام روشن کرتے رہے ہیں اس وقت میرے سامنے کراچی کے حوالے سے 180 نیشنل اور انٹرنیشنل سطح کے فٹبالروں کی تعداد 113 ہے، کیماڑی سے تعلق رکھنے والے فٹبالروں کی تعداد 17، ماڑی پوری کے 6، بلدیہ کے 5، گارڈن ویسٹ کے8، سبزی منڈی کے4، نیو کراچی کا ایک، عزیز آباد کا ایک، ناظم آباد کے3، پی آئی بی کے 2، ملیر کے 15، اور شاہ فیصل کے4 فٹبالروں کے نام شامل ہیں جن کا تعلق KWSB، PIA، KPT، HBL، SGP، KESC، MCB، RAILWAY، PRESS، KMC، SSGC، CUSTOM اورSTEEL MILL سے تھا جنھیں نامعلوم وجوہات کی بنا پر برطرف اور ریٹائر کیا گیا ان میں ہر فٹبالر ایک کہانی ہے جو ان دنوں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور کچھ اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔

لیاری سے تعلق رکھنے والے ممتاز فٹبالر محمد صدیق بلوچ کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں ہمارے فٹبال کے کرتا دھرتاؤں نے  کھیل کی بہتری کے لیے کوئی خاص اقدامات نہیں کیے اور نہ کبھی ٹھوس منصوبہ بندی کی کوئی بنیاد ڈالی ہے جس وجہ سے میں سمجھتاہوں کہ عدم توجہی کی بنا پر ہمارا فٹبال کھیل زوال پذیر ہوا۔ اس صورتحال کے پیش نظر میں لیاری میں فٹبال کے مستقبل سے پر امید نہیں ہوں۔ اگر اچھی منصوبہ بندی کی جائے اور نوجوان کھلاڑیوں کو بہتر سہولیات فراہم کیے جائیں تو ہوسکتا ہے کہ امید کے کچھ آثار نظر آجائیں۔ لیفٹیننٹ کمانڈر مراد بخش بلوچ کہتے ہیں کہ فٹبال غریبوں کا کھیل ہے۔

جس طرح ملک میں غریب لوگوں کی صلاحیتوں و قابلیت کی امیر اور با اثر لوگوں کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں اس طرح غریبوں کے کھیل امیروں کے کھیلوں کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں، اس لیے حکومتی سطح پر کوئی سرپرستی نہیں۔ فٹبال کے عہدے دار بھی اس کھیل کی بہتری اور فٹبالروں کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ فٹبالروں کے لیے کوئی مراعات نہیں کہ وہ ایک ادارے میں آنے کے بعد مزید آگے بڑھنے کے لیے جستجو کریں ماضی میں نوکری کی توقع ہوتی تھی، مشرقی پاکستان میں معاہدے کیے جاتے تھے جن سے کھلاڑیوں کو اچھی خاصی رقم ملتی تھی ایسی صورت میں ان کی کارکردگی میں مزید اضافہ ہوجاتا جس بنا پر کوئی اور کلب زیادہ رقم پر کنٹریکٹ کرتا تھا اس لیے کھلاڑی بہت محنت اور جستجو کرتے تھے۔

فیڈریشن میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جنھیں فٹبال کے بارے میں کم ہی علم ہوتا ہے اور فٹبالروں کے مسائل کو بھی سمجھ نہیں سکتے، ٹیم کی سلیکشن جانبداری سے ہوتی ہے اور اچھے کھلاڑیوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے، کھلاڑیوں کو تنخواہ اتنی کم ملتی ہے کہ بمشکل اپنا گزارہ کرتے ہیں اس لیے وہ پوری توجہ کھیل پر نہیں دے سکتے۔

ماضی کی طرح اسکول اور کالجوں میں فٹبال کے فروغ کے لیے کچھ نہیں کیا جاتا، لوکل کلبوں کی امداد دینے کی بجائے فیڈریشن ان سے سالانہ فیس وصول کرتی ہے جب کہ ماضی میں لوکل ٹیموں کو بلدیہ کی طرف سے سالانہ امداد ملتی تھی گوکہ آج ملک میں فٹبال کھیل بہت سے مسائل سے دو چار ہے اور انھیں حل کرنے کا کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی۔ ان مسائل کے باوجود لیاری میں اچھے فٹبالرز کی کمی نہیں ہے انھیں صرف رہنمائی کی ضرورت ہے، حال ہی میں چائلڈ اسٹریٹ فٹبالروں کی سرپرستی کی گئی تو انھوں نے جیت کر بتایا کہ ’’ہم کسی سے کم نہیں۔‘‘

نفسا نفسی کے اس دور میں ہر کوئی مصروف ہے کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ ماضی کے فٹبالرز ، قومی ہیروزکی حال پرسی کرے کہ وہ کس قدر کسمپرسی کی سی زندگی بسر کررہے ہیں؟ یہ ہماری قومی ذمے داری ہے کہ ہم اپنے قومی ہیروز کی قدر ان کی زندگی میں کریں نہ کہ ان کے کوچ کرجانے کے بعد۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔