پاکستان کا کسان اور بھارت کا مسلمان !

ذوالفقار احمد چیمہ  بدھ 7 اکتوبر 2015

وطنِ عزیز کاکسان اپنا شَملہ اور مونچھیں ہمیشہ اونچی رکھتاتھا مگراُس پر ایسی افتاد آ پڑی ہے کہ شَملے گرگئے، مونچھیں نیچی ہوگئیں، پیداوار بے وقار ہوگئی اورعزّت مٹی میں رُل گئی ۔

ایک ایکڑ کپاس اُگانے کے لیے کسان نے چوالیس ہزار روپیہ لگا دیا مگر ایکڑ کی پیداوار صرف بیس ہزار میں بک سکی، فی ایکڑ اِسے بیس ہزار روپے کا خسارہ اُٹھانا پڑا ۔ آلو کی پکی ہوئی فصل زمین میں ہی دفن کردی گئی، ایک من مونجی جو پچھلے سال 14 سو  روپے میں بکی تھی اس سال پانچ سو روپے میںبک رہی ہے۔

کسان  ذلیل و خوار ہوکر ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوا تو سڑکوں پر آگیا، اس کی چیخ و پکار حکومت کے ایوانوں تک پہنچی توسر جوڑے گئے، میٹنگیں ہوئیں اور کسانوں کے لیے اربوں روپے کے پیکیج کا اعلان ہوا۔ اس کی کچھ شقوں نے کسانوں کو مطمئن کیا اور کچھ نے خوش کردیا۔ اگرچہ کسانوں کا بہت بڑا مطالبہ یہ تھا کہ مونجی ، گندم ، کپاس اورآلو کی سپورٹ پرائس مقرر کی جائے اور پچھلا اسٹاک حکومت خو د خرید کر ایکسپورٹ کرے۔ بہرحال یہ پیکیج بھی پسے ہوئے کسانوں کے زخموں پر مرھم رکھنے کے لیے دیا گیا تھا مگر ایک پارٹی کی درخواست پر الیکشن کمیشن نے اس پر عملدرآمد روک دیا ہے۔

الیکشن کمیشن کے اس فیصلے پر جس پہلو سے بھی غور کریں، یہ انتہائی نامناسب غیر منصفانہ اور غیردانشمندانہ ہی نظر آتا ہے۔ اوّل تو جس پارٹی کی طرف سے درخواست دی گئی اس کے لیڈر کسانوں کے جلوسوں میںخود شامل ہوتے رہے ہیں یعنی ایک طرف تو کسانوں سے ہمدردی کا اظہار کیا جاتا رہا، دوسری طرف اگر انھیں کچھ ریلیف ملا ہے تو وہی پارٹی اس ریلیف کی مخالفت کر رہی ہے اور اسے روکنے پر تُل گئی ہے۔ سیاست کے یہی تضادات ہیں جو سیاست کے پورے شعبے کا اعتبار اور وقار چھین لیتے ہیں۔ اس مرحلے پر امدادی پیکیج روک لینا ایسا ہی ہے جیسے آئی سی یو میں پڑے ہوئے مریض کے منہ سے آکسیجن ماسک ہٹا لیا جائے۔

منصفانہ انتخابات کے نقطہ نظر سے حکومت کا صرف وہ پیکیج قابلِ اعتراض سمجھا جاتا ہے جو کسی خاص انتخابی حلقے کے لیے مخصوص ہو اورالیکشن کے پیشِ نظر اس  خاص حلقے کے ووٹروں کو متاثر یا خوش کرنے کے لیے دیا گیا ہو۔ مگر کسان پیکچ توConstituency specific  نہیں ہے یہ تو پورے ملک کے لیے ہے اور چاروں صوبوں کے لیے ہے جن میں سے دو صوبوں میں بلدیاتی الیکشن پہلے ہی ہوچکے ہیں۔

یہ کسی خاص حلقے یا علاقے کے ووٹروں کے لیے نہیں بلکہ ملک کے کروڑوں کسانوں کی فلاح کے لیے ہے۔ جن میں بہت سے کسان اپوزیشن پارٹیوں کے ووٹر ہوں گے۔اگرکروڑوں افراد کی فلاح و بہبود کے لیے دیا جانے والا یہ حکومتی پیکیج قابلِ اعتراض قرارپاتا ہے تو پھر عوامی مفاد میں شروع کیے جانے والے ہرحکومتی اقدام پر اعتراض کیا جاسکتا ہے اور کوئی بھی حکومتی منصوبہ شکوک سے مبرّا قرار نہیں دیا جاسکے گا۔ فرض کریں کہ مرکزی حکومت کوئی ڈیم بنانے یا بجلی کے کسی بڑے منصوبے کا اعلان کرتی ہے توعدالتوں کے پیشہ ور عرض گزار درخواست ڈال دیں گے کہ اس منصوبے کے نتیجے میں بجلی کا بحران حل ہونے کا امکا ن ہے جس سے ووٹر حکومتی پارٹی کی طرف راغب ہوں گے لہٰذا اس منصوبے سے آیندہ الیکشن پر اثر پڑے گا اس لیے اس منصوبے کو معطل کیا جائے توکیا الیکشن کمیشن اسے بھی معطل کردے گا؟۔

اگر کوئی صوبائی حکومت تعلیم یا صحت کے شعبے میں اصلاحات کرتی ہے تو اس سے بھی ووٹر متاثر ہوسکتا ہے اور ووٹر کے دل میں حکومتی پارٹی کے لیے ہمدردی پیدا ہوسکتی ہے لہٰذا اس بناء پر الیکشن کمیشن ایسی اصلاحات کو بھی ختم کراد ے گا؟اگر صوبائی حکومتیں (جس طرح پنجاب یا کے پی کے میں ہو ا ہے) ظالمانہ پٹواری نظام کے بجائے ، ریونیو سسٹم کو کمپیوٹرائزڈ کرادیتی ہیں جس سے شہریوں کو زمینوں کی خریدوفروحت سے وابستہ ذہنی جسمانی اور مالی پریشانیوں سے نجات مل جاتی ہے تو کیا الیکشن کمیشن اسے اس بناء پر منسوخ کردیگا کہ اس سے آیندہ انتحابات میں ووٹرمتاثر ہوں گے!۔ اگر کوئی صوبائی حکومت امن و امان کے ماہرین کی سفارشات پر عمل کرتے ہوئے پولیس کا موجودہ دقیانوسی اور فرسودہ نظام جو ایک محکوم دیہاتی علاقے کے لیے بنایا گیا تھا تبدیل کرکے جدید اور موثرمیٹرو پولیٹن سسٹم رائج کردے جس سے یقیناًامن وامان بہتر ہوگا لوگوں کو تحفظ ملے گا اور عوام کے دلوں میں حکومت کے لیے پسندیدگی کے جذبات پیدا ہوں گے جسکا حکومتی پارٹی کو آئیندہ انتحابات میں فائدہ ہوگا تو کیا ایسی اصلاحات بھی الیکشن کمیشن میں بیٹھے ہوئے افلاطون معطل یا منسوخ کرادیں گے کہ یہ تو ووٹروں کو متاثر کرنے والی اسکیم ہے۔

دراصل الیکشن کمیشن دباؤ میں ہے اور دباؤ میں کیا ہوا فیصلہ کبھی صحیح نہیں ہوسکتا۔کچھ پارٹیوں نے کمیشن کے ممبران کے استعفوں کا مطالبہ کیا ہوا ہے۔کمیشن اس دباؤ سے نکلنے کے لیے مطالبہ کرنے والی پارٹی کو خوش یا نرم کرنا چاہتا تھا۔ مگر ایک پارٹی کو نرم کرنے کی کوشش میں کمیشن ایک انتہائی غیردانشمندانہ فیصلے کا مرتکب ہو ا ہے جس سے ایک طرف کسانوں کی افتاد مزید طوالت پکڑے گی دوسری طرف درخواست دینے والی پارٹی کو سیاسی طور پر نقصان ہوگا اور الیکشن کمیشن کی اپنی ساکھ بھی متا ثر ہوگی ۔

پی ٹی آئی کو خود  چاہیے تھاکہ وہ کسان پیکیج کی معطلی کی درخواست واپس لے لیتی، کیونکہ پسے ہوئے کسانوں پر ایک ایک دن بھاری ہے ۔ میں وفاقی حکومت سے درخواست کروں گا کہ وہ فوری طور پر کمیشن کے فیصلے کے خلاف اپیل کرکے اسے معطل کرانے کی کوشش کرے  تاکہ کسانوں کے دکھ درد کا جلد سے جلد مداوا ہوسکے اور اس میںمزید تاخیر نہ ہو۔کسان آئی سی یو میں پڑے ہیں، انھیں فوری امداد کی آکسیجن ہی بچا سکتی ہے۔

٭ ٭ ٭ ٭

بھارت کے صوبے اترپردیش کے ایک گاؤںمیں ایک مسلمان گھرانے کوانتہاپسند ھندوؤں نے جس درندگی کا نشانہ بنایا ہے اس کے خلاف پاکستان میں سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر کوئی آواز بلند نہیں ہوئی جو انتہائی افسوسناک ہے۔گاؤں کے مندر سے اعلان کرایا گیا کہ مُسلے کے گھر میں گائے کا گوشت پکا ہے،اس پر گاؤں کے بدمعاش اور غنڈے مسلّح ہوکر پردہ دار خواتین والے مسلمان گھر میں جاگھسے۔ خواتین دہائی دیتی رہیں کہ یہ بکری کا گوشت ہے۔

مگر مسلّح بدمعاش گھر کے مکین اخلاق احمد کو گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے اور لوہے کے ڈنڈے اورلاٹھیاں  مار مار کر شہید کر ڈالا۔ اسی طرح چند روزپہلے حیدرآباد  میں جیولری بیچنے والے ایک مسلمان نوجوان محمد سہیل کو انتہا پسند ھندوؤں نے لوہے کی سلاخیں مار مار کر ہلاک کر ڈالا تھا۔ ٹی وی فوٹیج میں قاتل صاف نظر آتے ہیں مگران مظلوم مسلمانوں کا خون بھی پہلے ہزاروں کلمہ گو مقتولوں کی طرح رزقِ خاک ہوگیا ۔ نہ پہلے کسی قاتل کو سزا ملی ہے نہ اب ملے گی۔

سرحد پار کے مال پر پلنے والی این جی اوز خاموش ہیں کیونکہ قتل  ہونے والے انسان تو ہیں مگر اﷲ اور محمدؐالرّسول اﷲ کے ماننے والے ہیں۔نشے میں دھت  خمار آلود آنکھوں والے ’’تجزیہ کار‘‘ ٹی وی پر آکر پوچھتے ہیں’’کیا ہے پاکستان کا نظریہ؟‘‘جاؤ جاکر پڑھ لواخلاق احمد اور محمد سہیل کے خون نے بھارت کی سرزمین پر نظریہء پاکستان کی ساری تعریف اور تشریح لکھ دی ہے۔

اس وقت ہندوستان میں بسنے والے بیس کروڑ مسلمانوں کی صورتِ حال یہ ہے کہ دنیا کو غلامی کا مطلب سمجھانا ہو تو بھارت کے مسلمان نمونے کے طور پر دکھائے جاسکتے ہیں۔ مگر کیا ان کے تحفظ کے لیے عملی اقدام اٹھانا یا موثر احتجاج کرنا اسلامی ممالک کی حکومتوں یا وہاں کی انسانی حقوق کی تنظیموں کا فرض نہیں ہے؟۔اس ضمن میں بانیٔ پاکستان نے فرمایا تھا کہ’’ ہندوستانی مسلمانوں کا تحفّظ مضبوط پاکستان سے وابستہ ہے‘‘  وزیرِاعظم نواز شریف نے نیویارک اور لندن میں پائیدار امن کے لیے بہت مناسب  اور قابلِ عمل تجاویز پیش کی ہیں اور پاکستان میں بھارت کی دخل اندازی کا ذکرکرکے پاکستانی قوم کے جذبات کی ترجمانی کی ہے اب انھیں بھارت کے مظلوم مسلمانوں کے تحفظ کے لیے بھی آواز ااُٹھانی چاہیے ۔

ھندو توا کی علمبردار مودی سرکار کی مسلم دشمن پالیسیوں کے باعث آج بھارت میں خونِ مسلم سے ارزاں کوئی شے نہیں اور مسلمانوں کی عزّت وناموس  سے زیادہ کوئی چیز غیر محفوظ نہیں !!گجرات میں مسلمانوں کا قتلِ عام ہو، سمجھوتہ ایکسپریس کے واقعے میں فائرنگ کرنے والے ہوں  یا درگاہ معین الدین چشتی ؒ کے واقعے کے مجرم ، مودی حکومت کسی کو سزا نہیں ہونے دیگی۔ حکومت نے سرکاری پراسیکیوٹر کو ہدایات دے دی ہیں کہ ’روّیہ نرم رکھو تاکہ مجرموں کی ضمانت ہوسکے‘ ۔

صرف مذہبی جماعتوں کو نہیں پوری پاکستانی قوم کو ھندوستانی مسلمانوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنا چاہیے اور حکومت کو یہ مسئلہ عالمی فورمز پر اٹھانا چاہیے خالقِ کائنات  نے اور  ہمارے سچّے نبیﷺ  نے فرمایا ہے کہ ایک مسلمان تکلیف میں ہو تو اس کی تکلیف کے ازالے کی ذمے داری تمام مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے!!! کیا ہم اپنی ذمیّ داری کا احساس کرنے کے لیے تیاّر ہوں گے؟؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔