ایک جاوید اقبال کی وفات

عبدالقادر حسن  بدھ 7 اکتوبر 2015
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

برصغیر کے مسلمانوں کے جذبات پرور لیڈر اور روحانی شاعر علامہ محمد اقبال کے ہاں جب لڑکا پیدا ہوا اور اس کا نام جاوید اقبال رکھا گیا تو پورے برصغیر میں خوشی سے دھوم مچ گئی۔ اگر کسی گھر میں پہلے سے جاوید نام کا بچہ موجود نہیں تھا تو اس گھر میں ایک جاوید اقبال پیدا ہو گیا اور ہر ماں باپ کی اس خواہش کے ساتھ کہ ان کا بچہ بھی علامہ اقبال کی برکت پائے اور ان کی طرح ایک نامور مسلمان بن کر قوم کی خدمت کرے۔

گزشتہ دنوں جب ڈاکٹر جاوید اقبال طویل زندگی کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کے لاکھوں ہم نام اور ہم خیال غم و اندوہ اور ایک نہ ختم ہونے والی افسردگی میں ڈوب گئے جیسے وہ سب ایک شاخسار سے تھے۔ قدرت کی کرم فرماؤں کا کیا معلوم کہ اب جاوید اقبال نام میں سے کوئی اقبال یا ڈاکٹر جاوید اقبال نکل آئے اور علامہ نے اپنے بیٹے سے جو توقعات وابستہ کر رکھی تھیں وہ بھی ان کا امین ثابت ہو۔ ہم برصغیر کے مسلمانوں کو کسی اقبال کی شدید ضرورت ہے اس کے بغیر ہم زندہ نہیں رہ سکتے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کے نام سے ہی سہی ہم اپنی امیدیں وابستہ رکھیں گے۔ ڈاکٹر صاحب نوے برس تک زندہ رہے۔

یہ صرف ان کو معلوم تھا کہ اس طویل العمری نے ان کے ساتھ کیا گیا یا کسی حد تک ان کے ہمارے جیسے نیاز مندوں کو جب پیاس شدید ہوتی تو ان کے علم و فضل کے جاری چشمے سے سیراب ہوتے شدید خوش نصیبی کہ ڈاکٹر صاحب کی اس لمبی عمر میں تعلقات اور نیاز مندی جاری رہی تھی اس لیے کہ یہ بے تکلف انسان اپنی دانش کی سخاوت اور مہربانی سے مایوس نہیں کرتا تھا۔ خوش مزاج ہنستا مسکراتا اور ہر ملاقات کے بعد حکم کہ آتے رہا کرو۔ ہم کوتاہ نظر لوگوں کو کیا معلوم کہ ان سے زیادہ سے زیادہ ملنا کتنی بڑی نعمت تھی جس سے ہم اس رزق سے محروم ہو گئے اور وہ علم و دانش کا سارا سامان باندھ کر چلا گیا۔

اب ان کی اکلوتی بہن محترم منیرہ بانو زندہ ہیں۔ بہنوں کے لیے بھائی کیا ہوتے ہیں یہ کوئی بانو آپا سے پوچھے جو ایسے قریبی خونی رشتے کی جدائی میں جوں توں کر کے زندگی کے دن بسر کر رہی ہیں۔ زندہ سلامت اقبال اب اپنا پیار نچھاور کرنے کے لیے صرف ایک وجود کو آغوش میں لیے ہوئے تھا۔ آپا بانو کا وجود جس میں مرحوم جاوید اقبال کی مہک بھی زندہ ہے۔

غیر ضروری لمبی عمر کا ایک ناقابل تلافی نقصان یہ ہوتا ہے کہ آپ کو اپنی اس طویل عمری میں کتنے ہی دوستوں اور کرمفرماؤں کی جدائی برداشت کرنی پڑتی ہے اور یہ چلے جانے والے دوستوں کی شخصیت پر منحصر ہے کہ ان میں سے کون کتنی ناقابل فراموش چوٹ دے گیا ہے اور آپ کی لمحہ بہ لمحہ کمزور پڑتی ہوئی قوت برداشت کو کتنی آزمائش کا سامنا کرنا پڑ گیا ہے لیکن آپ اس امتحان سے نجات نہیں پا سکتے آپ لاکھ کہیں کہ یاد ماضی عذاب ہے یا رب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا لیکن ایسی دعاؤں اور خواہشوں کی قبولیت آپ کے اختیار میں نہیں ہوتی۔

ڈاکٹر جاوید اقبال چلے گئے طویل عمر تک دوستوں کو خوشگوار رفاقت دینے کے بعد۔ علامہ سر محمد اقبال کے بیٹے اور بذات خود ایک غیر شاعر مگر ایک عالم و فاضل شخصیت جن سے ملاقات کے بعد آپ کچھ لے کر آئے تھے۔ میں ان کے بلند مرتبے سے بہت نیچے تھا لیکن ڈاکٹر صاحب نے کبھی اپنی فضیلت کا رعب نہیں ڈالا۔ یہ میری ایک خوش قسمتی تھی کہ میرا ڈاکٹر صاحب کے قریبی عزیزوں سے مستقل رابطہ تھا اور اٹھنا بیٹھنا تھا۔ ہمشیرہ ان کی ایک ہی تھی آپا منیرہ بانو۔ ان کے بہنوئی میاں صلاح الدین صلی میاں کے ہاں آتے جاتے اگر ملاقات ہو جاتی تو کہتے میں بانو کے پاس جا رہا ہوں مطلب یہ بھی ہوتا تھا تم بھی چاہو تو آ جاؤ لیکن ان اکلوتے بھائی بہن کی ملاقات میں مداخلت کیسے ممکن تھی۔ اتنی جرات کس میں تھی۔

ڈاکٹر صاحب کی علمی فضیلت اور نظریات پر بحث تو ان کے قریبی دوست ہی کریں گے میں تو اتنا کہنے کی جرات کر سکتا ہوں کہ وہ دوستوں میں ایک بے تکلف دوست تھے اور سیاست بھی ان کا حق تھا چنانچہ انھوں نے ایک بار بھٹو صاحب جو ان کے پرانے دوست بھی تھے کے خلاف الیکشن لڑا جس میں وہ ہار گئے یہ بھٹو کے سیاسی عروج کا زمانہ تھا۔

یاد پڑتا ہے کہ الیکشن کی سہ پہر کو نتیجہ معلوم کرنے کے بعد میں مال روڈ پر بوجھل قدموں کے ساتھ چل رہا تھا کہ سڑک کی دوسری طرف ایک کمپنی کا چوکیدار جو پٹھان تھا بڑبڑا رہا تھا بلکہ اونچی آواز میں پنجابیوں کو گالیاں دے رہا تھا کہ انھوں نے اقبال کے بیٹے کو ہرا دیا۔

یہ چوکیدار پٹھان سخت غصے میں تھا اگر کوئی پنجابی اس وقت اس کے پاس سے گزرتا تو گڑ بڑ ہو سکتی تھی۔ میں یہ گالیاں سن کر اور کچھ شرمندہ اور کچھ محظوظ ہو کر شام کو ڈاکٹر صاحب کے ہاں چلا گیا اور ان کو بتایا کہ ان کی شکست عوام کو کس قدر ناگوار گزری ہے اور مخالفوں کو گالیاں دی جا رہی ہیں ڈاکٹر صاحب جو اس وقت تک شکست پر قابو پا چکے تھے کہنے لگے کہ تمہیں تو معلوم ہے کہ میں الیکشن پر تیار نہ تھا لیکن آپ لوگوں کو نہ جانے کیا خوش فہمی تھی کہ مجھے اس آزمائش میں ڈال دیا۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب سیاست سے ریٹائر ہو گئے جب کہ پاکستانی یہ چاہتے تھے کہ ایسا آدمی ان کی اسمبلی میں ضرور ہونا چاہیے۔ تھوڑی دیر بعد وہ کہتے ہیں بانو سے مل کر آتا ہوں میں نے اجازت چاہی ہم پنجابیوں نے بقول ایک دیہاتی پٹھان کے اقبال کے بیٹے کو ہرا دیا تھا۔

اس پٹھان کا یہ غصہ اور رنج صرف ایک پاکستانی کا ہی نہیں پورے ملک کا رنج تھا۔ اس الیکشن کے بعد جو بھی ملا وہ رو دیا لیکن سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا خواہ وہ اقبال کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی طویل عمری میں والد ماجد کے بعض نظریات سے اختلاف کیا لیکن گستاخی کا تصور بھی محال تھا۔

وہ ’علامہ صاحب‘ کا حوالے دیا کرتے اور یہی وہ حوالہ ہے جو ڈاکٹر جاوید اقبال کو بھی زندہ رکھے گا بڑوں کی اولاد ان کے بوجھ تلے دب جاتی ہے مگر جاوید بذات خود ایک بڑا آدمی تھا اور اس کی زندگی اس کی اپنی زندگی تھی۔ ہزارہا جاوید اقبالوں میں سے شاید کوئی آبلہ پا نکل آئے جو اس نام کو آگے لے جائے۔ اس لیے یہی کہیں کہ ایک جاوید اقبال چلا گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔