اسٹاڈزیادہ دور نہیں تھا

جاوید چوہدری  جمعرات 8 اکتوبر 2015
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

برگ (Brig) سوئٹزر لینڈ کے تقریباً درمیان میں واقع ہے‘ یہ قصبہ ریلوے کے مشہور سوئس روٹ ’’گلیشیئر ایکسپریس‘‘پر بھی آتا ہے‘ گلیشیئر ایکسپریس دنیا کے پانچ یادگار ریل روٹس میں شمار ہوتی ہے‘ یہ ایک لائف ٹائم تجربہ ہے‘ ٹرین زرمت شہر سے چلتی ہے اور 9 گھنٹے میں ایلپس کے قدموں میں جھکے آخری سوئس شہر سینٹ موریس پہنچتی ہے‘یہ ملک کے تقریباً تمام خوبصورت شہروں‘ قصبوں‘ دیہات اور وادیوں سے گزرتی ہے۔

مجھے گرمی اور سردی دونوں موسموں میں اس ٹرین پر سفر کا موقع ملا‘ یہ حقیقتاً یادگار سفر تھا‘ میں تین سال قبل بچوں کے ساتھ برگ سے بھی گزرا‘ مجھے وادی کے حسن نے جکڑ لیا‘ میں واپس آ گیا‘ میں نے تین برسوں میں درجنوں سفر کیے لیکن برگ اپنی ہلکی آنچ کے ساتھ میرے اندر سلگتا رہا‘ میں اس آنچ کو دباتا رہا لیکن یہ دبنے کے ساتھ ساتھ اسپرنگ بنتی چلی گئی یہاں تک کہ میں بے بس ہو گیا اور ہلکی ہلکی کسک لیے اس شہر کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا‘ فیش (FESCH) برگ کا گاؤں ہے‘ یہ گاؤں ایک رات کے لیے ہمارا ٹھکانہ تھا‘ یہ گاؤں بھی دوسرے سوئس دیہات کی طرح پہاڑ کی اترائیوں پر قائم ہے۔

جنگل کے اندر لکڑی کے مکان اور باڑے ہیں‘ چرا گاہیں دور دور تک پھیلی ہیں‘ گاؤں کے درمیان سے پہاڑی دریا گزرتا ہے اور آپ کو پورے گاؤں میں سوئس گائیوں کی گھنٹیاں بھی سنائی دیتی ہیں‘ سوئس کسان اپنی گائے کے گلے میں چھوٹی بالٹی جتنی گھنٹی باندھ دیتے ہیں‘ یہ گھنٹی بجتی ہے تو اس کی آواز دور دور تک سنائی دیتی ہے‘ آپ سوئٹزر لینڈ میں جہاں بھی چلے جائیں‘ آپ کو سوئس گائے اور اس کے گلے میں گھنٹیاں ضرور سنائی دیں گی۔

برگ میں دیکھنے کی تین جگہیں ہیں‘ گومس برج (Goms) شہر کے مضافات میں ہے‘ یہ لکڑی کا 280 میٹرلمبا اور سو میٹر اونچا پل ہے‘ یہ دو پہاڑوں کو آپس میں ملاتا ہے‘ موٹی تاروں پر ایستادہ ہے‘ ستون کے بغیر ہے اور آپ جب اس کے اوپر سے گزرتے ہیں تو یہ جھولے کی طرح جھولتا ہے‘ پل کے دوسرے سرے پر گومس کا گاؤں ہے اور اس کے کھیت‘ چرا گاہیں اور باڑے ہیں اور اس کے انگور کے باغ ہیں اور انگور کے ان باغوں میں وائین کی چھوٹی چھوٹی فیکٹریاں ہیں اور دودھ سے کریم اور پنیر نکالنے والے یونٹ ہیں‘ برگ کے پہاڑوں میں تین درمیانے سائز کے ڈیم بھی ہیں‘ یہ ڈیم بھی قابل دید ہیں۔

ہم آدھ گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد اوبر والڈ (Oberwald) پہنچے تو ایک خوبصورت جھیل ہمارے سامنے تھی‘ یہ برفانی علاقے کا ڈیم تھا‘ حکومت نے برف پوش پہاڑوں کے درمیان ڈیم بنا دیا‘ برف پگھلتی ہے‘ ڈیم بھرتا اور پانی قرب و جوار کے شہروں کو سپلائی کر دیا جاتا ہے‘ اوبروالڈ میں ٹھنڈی ہوائیں بھی چل رہی تھیں‘ ہلکی بارش بھی ہو رہی تھی اور برف کی بوندیں بھی گر رہی تھیں‘ جھیل پر شربتی سی دھند چھائی تھی‘ آپ سسٹم کا کمال دیکھئے‘ آپ کو اس بلندی پر بھی ریستوران اور ہوٹل ملتے ہیں‘ آپ وہاں قیام کرنا چاہیں تو قیام کریں‘ کھانا پینا چاہیں تو کھائیں پئیں اور اگر جھیل میں واٹر اسپورٹس کرنا چاہیں تو یہ موقع بھی دستیاب ہے۔

وہاں سردی میں شدت تھی چنانچہ ہم وہاں سے جلد روانہ ہو گئے‘ برگ کی تیسری اٹریکشن کیبل کار ہے‘ برگ سے بھی کیبل کار آپ کو گلیشیئر پر لے جاتی ہے‘ ہم نے کیبل کار نہیں لی‘ کیوں؟ کیونکہ یہ تجربہ پورے سوئٹز لینڈ میں عام ہے‘ آپ کسی بھی شہر میں چلے جائیں‘ آپ کو وہاں ٹرین اور کیبل کار ضرور ملے گی چنانچہ ہم نے یہ آئیڈیا ڈراپ کر دیا اور اپنی آخری منزل اسٹاڈ کی طرف چل پڑے‘ اسٹاڈ انگریزی میں GSTAAD لکھا جاتا ہے لیکن بولتے وقت جی سائلنٹ ہو جاتا ہے۔

اسٹاڈ امراء کا گاؤں ہے‘ دنیا جہاں کے بزنس مین ‘کارپوریٹ گرو‘ سیاستدان‘ رئیس اداکار‘ گلوکار اور مصور اسٹاڈ آتے ہیں اور ہفتوں یہاں رہتے ہیں‘ یہ قصبہ دنیا بھر کے امراء اور آرٹسٹوں میں اتنا مقبول کیوں ہے؟ یہ سوال مجھے دوسری بار اسٹاڈ لے کر جا رہا تھا‘ میں پچھلے سال دسمبر میں اسٹاڈ گیا تو شہر برف میں دفن تھا‘ شہر‘ اس کا گرد ونواح اور اس کی فضا تینوں سفید کمبل لپیٹ چکے تھے یوں میرے سوال کا جواب بھی برف میں دفن ہو گیا لیکن میں اس سال برفباری سے پہلے اسٹاڈ کی طرف دوڑ پڑا۔

اسٹاڈ برگ سے ساڑھے چھ گھنٹے کی ڈرائیو پر تھا‘ راستے میں پہاڑ تھے‘ جنگل تھے‘ جھیلیں تھیں‘ آبشاریں‘ ندیاں اور دریا تھے اور چرا گاہیں تھیں اور یہ تمام عناصر مل کر سوئٹزر لینڈ کو سوئٹزرلینڈ بنا رہے تھے‘ سوئٹزر لینڈ ’’ماڈرن لیونگ‘‘ کا ایک شاندار ماڈل ہے‘ رقبہ پاکستان سے 20 گنا کم یعنی صرف 41 ہزار دو سو 88 مربع کلومیٹر‘ آبادی ہمارے شہر لاہور سے بھی کم یعنی 82 لاکھ۔ ملک میں کوئی سمندر نہیں‘ کوئی بڑی انڈسٹریل سائیٹ نہیں‘ ملک سے تیل نکلتا ہے‘ سونا اور نہ ہی یورینیم‘ ملک میں پہاڑوں‘ جنگلوں اور جھیلوں کے سوا کچھ نہیں‘ ملک ایک ہے لیکن زبانیں اور معاشرتیں نصف درجن‘ ملک میں کوئی فوج نہیں‘ پولیس بھی بہت کم ہے مگر ان کم ترین وسائل کے باوجود یہ ملک دنیا کے پرامن‘ صاف ستھرے اور خوبصورت ترین ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔

کیسے اور کیوں؟ ہم اس کیوں اور اس کیسے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں‘ سوئٹزر لینڈ کے تین کمال ہیں‘ اس نے سیاحت کو اپنی انڈسٹری بنا لیا‘ اس نے ملک میں سیاح کو امن‘ اطمینان اور سہولت فراہم کی‘ ملک کو ریل کی پٹڑی سے جوڑ دیا‘ دنیا بھر میں ٹرینوں کے نام ہوتے ہیں لیکن سوئٹزر لینڈ میں ٹرین کا وقت اس کا نام ہوتا ہے‘ ٹرین نے اگر آٹھ بج کر چار منٹ پر پہنچنا اور گیارہ منٹ پر چلنا ہے تو پھر یہ ہرحال میں آٹھ بج کر چار منٹ پر پہنچے گی اور گیارہ منٹ پر روانہ ہو جائے گی‘ حکومت نے ملک کے تمام پہاڑوں کو کیبل کار سے بھی منسلک کر دیا‘ آپ ملک کے کسی شہر میں چلے جائیں۔

آپ کو وہاں کیبل کار بھی ملے گی اور یہ کیبل کار آپ کو تین چار ہزار میٹر کی بلندی پر کسی نہ کسی گلیشیئر پر بھی لے جائے گی اور آپ کو وہاں برف کے عین درمیان میں ریستوران بھی ملے گا‘ ہوٹل بھی اور ویو پوائنٹ بھی۔ حکومت نے ایک ایک گاؤں تک سڑک بھی بچھا دی ہے‘ آپ کسی طرف نکل جائیں‘ آپ کو وہاں زیورچ اور جنیوا کے معیار کی سڑکیں ملیں گی‘ آپ کسی جھیل پر چلے جائیں‘ آپ کو اس میں بحری جہاز اور فیری ملے گی اور لوگ اس فیری کو باقاعدہ استعمال بھی کر رہے ہوں گے‘ سوئٹزر لینڈ کا دوسرا کمال لوگوں کی ٹریننگ اور سماجی تربیت ہے‘ حکومت نے دیہات کے غریب ترین لوگوں کا معیار زندگی ہمارے امراء کے لائف اسٹائل سے بھی اونچا کر دیا‘ آپ کسی سوئس گاؤں میں چلے جائیں۔

آپ لوگوں کے گھر‘ ان کے باڑے اور ان کا طرز رہائش دیکھ کر حیران رہ جائیں گے‘ مجھے غریب سے غریب ترین سوئس کسان بھی میاں منشاء سے زیادہ مطمئن اور خوش نظر آیا‘ کیوں؟ کیونکہ اس کے گھر میں وہ ساری سہولتیں موجود ہیں جو ہمارے ملک میں صرف میاں منشاء‘ حسین داؤد اور ملک ریاض جیسے امراء کو حاصل ہوتی ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو صرف کوالٹی آف لائف سے نہیں نوازا بلکہ یہ لوگ دنیا کے مطمئن اور شاد ترین لوگوں میں بھی شمار ہوتے ہیں‘ یہ ملک کے دور دراز علاقوں میں بھی دروازے کھول کر سوتے ہیں اور جنگلی جانور تک ان کی نیند خراب کرنے کی جرأت نہیں کرتے اور یہ وہ سہولت ہے جو ہمارے ملک کے طاقتور ترین اور امیر ترین لوگوں کو بھی حاصل نہیں‘ سوئس اپنے ملک سے اولاد کی طرح پیار بھی کرتے ہیں۔

آپ کو پورے ملک میں کوئی سوئس گند پھیلاتا نظر نہیں آئے گا‘ آپ کو کسی پہاڑ‘ کسی جھیل کے کنارے زمین پر ٹشو پیپر‘ سگریٹ کا ٹوٹا یا ریپر دکھائی نہیں دے گا‘ آپ کو کوئی نالی‘ کوئی گندہ پرنالہ اور کوئی بدبودار جوہڑ بھی نظر نہیں آئے گا‘ گھاس کاٹنا سب کی ذمے داری ہے اور یہ لوگ وقت مقررہ سے پہلے یہ ذمے داری پوری کرتے ہیں‘ گائے کا گوبر کہاں جاتا ہے میں درجنوں مرتبہ سوئٹزر لینڈ گیا لیکن مجھے آج تک اس سوال کا جواب نہیں ملا‘ آپ کسی کسان کے باڑے میں چلے جائیں‘ آپ باڑے کی صفائی دیکھ کر حیران رہ جائیں گے‘ کسانوں کے لیے جانور چرانے سے پہلے ربڑ کے لانگ شوز اور روشنی منعکس کرنے والی جیکٹ پہننا ضروری ہے‘ آپ کو پورے ملک میں کوئی شخص اونچی آواز میں بولتا یا چلا کر آواز دیتا نظر نہیں آئے گا۔

کھیتوں کی حد بندی رسی سے کی جاتی ہے اور کوئی اس رسی کو پھلانگنے کی جرأت نہیں کرتا‘ سوئس گائیں تک مہذب اور شائستہ ہیں‘ یہ بھی گزرنے والوں کو گھور کر نہیں دیکھتیں اور سوئٹزر لینڈ کا تیسرا کمال اس کی معاشی پالیسیاں ہیں‘ حکومت نے کسانوں کو اناج یا دودھ بیچنے کے بجائے مصنوعات بنانے کی ٹریننگ دی چنانچہ ان لوگوں نے گھروں میں چھوٹے چھوٹے صنعتی یونٹ لگا رکھے ہیں‘ یہ دودھ کے بجائے کریم اور پنیر بیچتے ہیں‘ یہ گندم‘ دالوں اور جو کا دلیہ بنا کر مارکیٹ کرتے ہیں اور یہ پھل کے بجائے جوس اور ٹین پیک فروٹ فروخت کرتے ہیں‘ یہ لوگ شہروں کے بجائے گاؤں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔

حکومت نے سستی مصنوعات کے بجائے برانڈ بنانے پر بھی توجہ دی‘ امریکا‘ یورپ اور جاپان کی کمپنیاں جتنا منافع ایک لاکھ گھڑیاں بیچ کر کماتی ہیں‘ یہ لوگ اتنی رقم سو گھڑیوں کی فروخت سے حاصل کر لیتے ہیں‘ بینکنگ‘ انشورنس اور ادویات کی صنعت پر بھی ان کی اجارہ داری ہے‘ سوئس حکومت نے آج سے ساٹھ سال قبل دنیا جہاں کے کرپٹ سیاستدانوں اور آمروں کو خفیہ اکاؤنٹس کی سہولت دی اور ان کے پیسوں سے پورا ملک تعمیر کر لیا‘ یہ امراض اور ان کے علاج پر تحقیق میں بھی دنیا سے بہت آگے ہیں‘ آپ ایلو پیتھک‘ ہومیو پیتھک یا یونانی کسی بھی مہنگی دواء کا پروفائل نکال کر دیکھ لیں۔

آپ کو اس کی جنم کنڈلی میں سوئٹرز لینڈ کا نام ضرور ملے گا‘ یہ ہوٹلنگ اور میزبانی کی انڈسٹری میں بھی بہت آگے ہیں‘ آپ کو جتنے ہوٹل اور ریستوران اس چھوٹے سے ملک میں ملیں گے‘ آپ کو شاید اتنے پورے براعظم افریقہ میں نہ ملیں‘ یہ ملک صرف ملک نہیں ہے‘ یہ ترقی‘ امن اور خوشحالی کا پورا فارمولہ ہے‘ سوئس فارمولہ اور ہم اس وقت اس فارمولے سے گزر رہے تھے اور اسٹاڈ! جی ہاں اسٹاڈ جس کا جی سائلنٹ ہوتا ہے وہ اب ہم سے زیادہ دور نہیں تھا‘ ہماری آخری منزل اسٹاڈ…جی اسٹاڈ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔