ارے یہ پاکستان تو بڑا دل پھینک نکلا

سعد اللہ جان برق  جمعرات 8 اکتوبر 2015
barq@email.com

[email protected]

ویسے تو مسائل حل کرنے میں ہم بھی یدطولیٰ رکھتے ہیں کیوں کہ پاکستان میں رہتے ہیں اور پاکستان میں آپ تو جانتے ہیں کہ ہر سیاسی پارٹی ہر حکومت اور لیڈر جو ہوتے ہیں وہ مسائل حل کرنے میں ’’زبردست مہارت‘‘ رکھتے ہیں ان کے ہاں مسائل حل کرنے کا ایک نہایت ہی سیدھا سادا اور تیز بہدف نسخہ ہے جو عرصہ ستر سال سے سینہ بسینہ، کرسی بہ کرسی اور حکومت بہ حکومت چلا آرہا ہے جو ایک طرح سے علاج ’’بالمثل‘‘ ہوتا ہے یعنی مسئلے کو حل کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسی مسئلے کی کوکھ سے دو تین اور مسئلے نکال کر اس کے سامنے کھڑے کیے جائیں۔

مسئلہ سادہ زکام کا علاج کرنا ہو تو مریض کو ’’نمونیا‘‘ لاحق کیا جائے تو زکام اسے غنیمت لگنے لگے گا، اگر ہاضمہ خراب ہو تو اسہال اور اس کے بعد پیچش کر دیا جائے ، کھانسی کا بہترین علاج یہ ہے کہ اسے بخار اور درد بھی لاحق ہو جائے اور آخر میں جب کچھ بھی نہ بنے تو ڈاکٹروں کے ڈاکٹر حکیموں کے حکیم اور طبیبوں کے طبیب حضرت عزرائیل کو ریفر کر کے وہ علاج کیا جائے جو ’’ام العلاج‘‘ یعنی تمام امراض کا علاج ہے تاکہ نہ رہے مریض اور نہ رہے مرض اور رہے نام اللہ کا … چنانچہ ہم بھی یہ بے مثل اور بالمثل علاج سیکھے ہوئے ہیں مثلاً ایک واقعہ آپ کو سناتے ہیں ایک روز ایک شخص جو بے چارا مزدور کار تھا اپنے بیٹے کے بارے میں بتاتے ہوئے بولا کہ میں تو اس کم بخت کے ہاتھوں تنگ آگیا ہوں شرارتیں کرتا ہے۔

وہ جو اپنے ہاتھ پیر تڑواتا ہے وہ الگ لیکن لوگوں کے نقصانات بھرتے بھرتے دنیا جہاں کا مقروض ہو گیا ہوں، اس کا کوئی اپائے بتائیں کیوں کہ سنا ہے کہ آپ اس طرح کے مسائل حل کرنے میں مہارت رکھتے ہیں آخر میں اس کم بخت کا کیا کروں؟  ہم نے کہا مار ڈالو اسے… جھٹکا کھا کر بولا … یہ کیا کہہ رہے ہیں، ہم نے عرض کیا کہ یہ بھارت کی ایک مشہور معالجہ ’’سونم کپور‘‘ کا بتایا ہوا نسخہ ہے  کہ مرض کی جڑ کو ختم کیا جائے، وہ پھر بھی کچھ پھس پھساتا رہا۔

ہم نے سمجھایا کہ دیکھو اب تو یہ دس بارہ سال کا ہے جتنا یہ بڑا ہوتا جائے وارداتیں بھی بڑی کرتا جائے گا، ان معمولی شرارتوں سے لڑائی جھگڑوں تک جائے گا، لڑائی جھگڑوں میں غنڈہ بدمعاش بن جائے گا اور ڈاکہ زنی رہزنی شروع کر دے گا، ظاہر ہے کہ اس کے ہاتھ قتل وقتال بھی سرزد ہو گا پھر ایک دن یا تو کسی کے ہاتھوں مر جائے گا یا پھانسی کے تختے پر دی اینڈ ہو جائے گا تو کسی دوسرے کی گولی یا پھانسی کے تختے سے یہ بہترین کہ خود ہی وہ کام کر ڈالو جو ایک دن بعد از خرابی بسیار ہونا ہی ہے … لیکن وہ شخص یہ نسخہ مسترد کر کے چلا گیا بعد میں ہمارا اندازہ تو غلط نکلا وہ کسی کی گولی یا پھانسی کے تختے پر نہیں مرا بلکہ ایڈز کا شکار ہو کر جگہ خالی کر گیا ، ہاں اپنے ماں باپ کو ویسے ہی رلا گیا

میر صاحب رلا گئے سب کو
کل وے تشریف یاں پہ لائے تھے

مطلب یہ کہ مسائل حل کرنے میں ہم بھی کسی سے کم نہیں ہیں لیکن اس وقت جو مسئلہ ہمارے سامنے ہے وہ کچھ ٹیکنیکل بلکہ میڈیکل بلکہ سرجیکل ہے اس لیے ہمارے بس سے باہر ہے۔ ظاہر ہے کہ جیسا ملا کی دوڑ مسجد تک ہوتی ہے ویسے ہی ہماری رسائی بھی اپنے پڑھنے والوں تک ہے سو یہ مسئلہ ان ہی کے آگے رکھتے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ایک بہت ہی محترم بزرگ ہیں پروفیسر  صاحب اور چوں کہ ان کا تعلق ایک مذہبی و سیاسی جماعت  سے ہے اس لیے ڈبل محترم ہوئے کیوں کہ ہم جماعت کے نہ سہی جماعت کے سربراہ  کے فین تو ہیں، ادھر بزرگوں کا فرمودہ ہے کہ … خطائے بزرگان گرفتن خطاست … اس لیے انھوں نے جو بات کہی ہے اس پر خود کوئی رائے زنی نہیں کر سکتے اس لیے پڑھنے والوں کے متھے مار رہے ہیں مسئلہ کچھ ایسا ہے کہ

دل نے اک اینٹ پہ تعمیر کیا تاج محل
تم نے اک بات کی اور لاکھ فسانے نکلے

فرماتے ہیں کہ ترکی اور پاکستان … ایک دل دو جسم ہیں … بخدا سب سے پہلے تو ہمارے لیے یہ بہت بڑا انکشاف ہے کہ ترکی اور پاکستان دونوں کو صرف ایک دل پر کام چلانا پڑ رہا ہے، طبی لحاظ سے تو یہ ایک بڑا اور پیچیدہ مسئلہ ہے کیوں کہ ہم نے اکثر دیکھا اور سنا ہے کہ بے چارا دل بے شک ایک مضبوط عضو ہے لیکن اتنی بڑی بلکہ ڈبل مشقت کب تک برداشت کر پائے گا، دو جسموں کو خون پمپ کرنا صرف ایک دل کے لیے یقیناً بہت بڑی مشقت ہے یہ تقریباً ویسی ہی صورت حال ہے جو ایک ہندوستانی بزرگہ لتا منگیشکر نے بیان کی ہے کہ

زحال مسکن مکن برنجش زحال ہجراں بے چارا دل ہے
ہمارے پہلو میں جو دھڑک رہا ہے تمہارا یا ہمارا دل ہے

ہمیں پاکستان کے دل کے بارے میں انتہائی تشویش اس لیے بھی لاحق ہے کہ اسے پہلے بہت سارے نہایت ثقہ لوگ اس دل کا کوئی اور پتہ بھی بتاتے رہے ہیں مثلاً ایران اور سعودی عرب کے بارے میں بھی ہم نے پڑھا اور سنا ہے کہ ان کا اور ہمارا صرف جسم الگ ہے لیکن دل ایک ہے، بلکہ کچھ لوگوں سے چین کے ساتھ بھی اس ’’شراکت دل‘‘ کی بات سنائی دیتی ہے۔ کافی عرصہ پہلے جب پاکستان کی قیادت قائد عوام کے ہاتھ تھی، لیبیا کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ دونوں ممالک تو کیا جناب قائد عوام اور معمر قذافی کے دل بھی ایک ہی ہیں بلکہ اس سے پہلے اگر کسی کو یاد ہوتو کسی شاعر نے اخباری قطعے (غالباً ریئس امروہوی تھے) نے کہا تھا کہ

دماغ ایشیا جاپان اگر ہے
تو پاکستان دل ہے ایشیا کا

ٹھیک ہے کہ ہم بھی ’’حل المسائل‘‘ میں بذریعہ ’’علاج بالمثل‘‘ اچھا خاصا نام رکھتے ہیں لیکن یہ درپیش مسئلہ ہماری پہنچ سے بہت اونچا ہے کیونکہ اس کے لیے میڈیکل اور سرجیکل مہارت کی ضرورت ہے اور وہ اگر ہم رکھتے تو کیا پاگل تھے جو ’’قلم گھسیٹی‘‘ کرتے، کہیں آرام سے کسی کلینک میں بیٹھ کر ایسی تحریریں بیچتے جن پر لکھے خدا پڑھے موسیٰ کی طرح لکھے ڈاکٹر اور پڑھے کمپاؤنڈر کا اصول لاگو ہوتا ہے جن کا ایک ایک حرف سونے کے بھاؤ بکتا ہے، ویسے بھی دل کا معاملہ بڑا نازک ہوتا ہے صرف وہی ڈاکٹر دل کی سرجری کر سکتا ہے ۔

جس نے اپنا دل دور کسی بینک کی لاکر میں رکھا ہوتا ہے، لیکن تشویش تو ظاہر کر سکتے ہیں خدا نہ کرے اگر کل کلاں کو ایسی ویسی کوئی بات ہو گئی چلیے وہ بے چارا قصہ بھی کافی دیر سے دم ہلا رہا ہے، کہتے ہیں دو بھائی جڑواں پیدا ہوئے تھے جو پشت کی طرف سے جڑے ہوئے تھے، ظاہر ہے کہ تکلیف تو بڑی تھی لیکن ان میں ایک بھائی اکثر دعا کرتا تھا کہ یاخدا اس سے برے دن نہ آئیں ان دن سے چائیو، جب اس سے بھی بری حالت ہو … دوسرا بھائی اس سے لڑ پڑتا یہ کیا کہہ رہے ہو اس سے اور زیادہ بری ہمارے ساتھ ہو سکتی ہے۔

دوسرا کہتا نہیں بھائی مصیبت کا کوئی انت نہیں ہوتا دنیا میں ایک سے بڑھ کر ایک مصیبت موجود ہے لیکن دوسرا ہمیشہ اس سے اختلاف کرتا کہ اس سے زیادہ بری حالت کوئی ہو ہی نہیں سکتی، پھر ایک دن اچانک وہ ایک بھائی مر گیا جو شکر کرتا تھا دوسرے کو اس کی لاش سے چھٹکارا کیسے مل سکتا چنانچہ پیٹھ پر لیے پھرا، لاش سے بدبو اٹھنے لگی پھر سڑ گئی تو وہ بے ساختہ پکار اٹھا یاخدا میرا بھائی سچ کہتا تھا بری سے بھی بری حالت آسکتی ہے، پشتو میں ایک ٹپہ ہے کہ

د رب کارونہ ٹول د خیر وی
بندہ لہ خائی چہ پرے شکر اوبا سینہ

یعنی رب کے کام سارے خیر کے ہوتے ہیں اور بندہ کو چاہیے کہ ہر کام اور ہر حالت میں شکر ادا کیا کرے، ہم کچھ زیادہ میڈیکل اور سرجیکل تجربہ اور معلومات نہیں رکھتے لیکن سنی سنائی باتوں کو لے کر ان اندیشہ ہائے دور و دراز میں مبتلا ہیں کہ یہ ایک دل کا معاملہ کتنا رومانٹک کیوں نہ ہو بہرحال خطرناک ہوتا ہے خدا نخواستہ اگر ہر سہ فریق میں سے کسی کو بھی کچھ ہو گیا تو…؟ ہمارا تو دل ہی یہ سوچ کر ڈوب ڈوب جاتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے دراصل ہمارا دل جو کسی کے ساتھ شراکت میں نہیں ہے کچھ ایسا کہ

سوچتے سوچتے دل ڈوبنے لگتا ہے میرا
ذہن کی تہہ میں مظفر کوئی دریا تو نہیں

ویسے اس صورت حال پر ہمیں اردو کے ایک مشہور لفظ بلکہ ترکیب لفظی کے معنی بھی معلوم ہو گئے ’’دل پھینک‘‘ کی پھبتی اکثر لوگوں پر کسی جاتی ہے لیکن ہماری سمجھ میں بالکل نہیں آرہا تھا کہ دل پھینکتے کس طرح ہیں، دل کوئی پتھر یا ڈھیلا تو ہے نہیں کہ یہ نکال کر پھینک دیا، لیکن اب سمجھ میں آگیا کہ ’’دل‘‘ واقعی پھینکا بھی جا سکتا ہے ہماری زندہ مثال پاکستان کی صورت میں رکھی ہوئی ہے جو موٹے موٹے حساب کے مطابق اب تک اپنا دل کم از کم آدھے درجن مرتبہ پھینک چکا ہے، معاملہ نازک اور پیچیدہ ہے اس لیے تو ہم اسے آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں

ادائے خاص سے غالب ہوا ہے نکتہ سرا
صلائے عام ہے یاران نکتہ دل کے لیے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔