جب پہاڑ روئی کے گالوں کی مانند اُڑنے لگے!

سید امجد حسین بخاری  جمعرات 8 اکتوبر 2015
مختلف عمارتوں کے نیچے دبی لاشوں کو نکالنے میں چھ ماہ سے زائد کا عرصہ لگا لیکن جو زندہ رہ گئے وہ بھی قیامت صغریٰ کا منظر دیکھ کر چلتی پھرتی لاشوں میں بدل چکے تھے۔

مختلف عمارتوں کے نیچے دبی لاشوں کو نکالنے میں چھ ماہ سے زائد کا عرصہ لگا لیکن جو زندہ رہ گئے وہ بھی قیامت صغریٰ کا منظر دیکھ کر چلتی پھرتی لاشوں میں بدل چکے تھے۔

8 اکتوبر 2005ء بروز ہفتہ، رمضان المبارک کا بابرکت ماہ، اسکول میں اسمبلی کے بعد تمام بچوں کو کلاس رومز میں بھیجنے کے بعد، دفتر سے حاضری رجسٹر اُٹھایا اور کمرہ جماعت میں داخلہ ہوگیا، ہشتم کے بچوں کی حاضری لگانے کے بعد جوں ہی سبق پڑھانے کے لئے کتاب پکڑی اسکول کی عمارت لرزنا شروع ہوگئی، سامنے کی دیوار سے اینٹیں گرنے لگیں میں نے فوری طور پر بچوں کو کمرہ جماعت سے باہر نکالنا شروع کردیا، چیخ و پکار اور پہاڑی تودوں کے گرنے سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، نفسا نفسی کا عجیب عالم تھا۔ بیس کے قریب طلبہ وطالبات کو نکالنے میں کامیاب ہوا مگر اسکول کی عمارت ایک دھماکے سے گر گئی، جستی چادروں اور لکڑی سے بنی ہوئی عمارت کے گرتے ہی کئی طلبہ وطالبات اس کے نیچے دب گئے تاہم ابھی بھی بچوں کی زندگیاں محفوظ بنائی جاسکتی تھیں، باقی اساتذہ کی مدد سے میں نے بچوں کو نکالنے کا کام شروع کردیا، دو گھنٹے کی مسلسل محنت کے بعد ہم نے اپنے تعلیمی ادارے کے طلبہ کو باہر نکال لیا جن میں سے آٹھ طلبہ شہید ہوگئے تھے جبکہ 15 کے قریب زخمی تھے، زخمی طلبہ و طالبات کو فرسٹ ایڈ دینے کے لئے طالبات اور خواتین اساتذہ کے دوپٹوں کو پٹی کے طور پر استعمال کیا، اسی دوران والدین کی ایک بڑی تعداد اسکول میں چیخ و پکار کرتے ہوئے جمع ہوگئی تھی، لیکن اللہ تعالیٰ صبر دینے والا ہے، زخمی بچوں کو ہسپتال پہنچانے کے لئے ایک پک اپ گاڑی کا بندوبست کیا اور مرد اساتذہ کو زخمی بچوں کے ہمراہ بھیجنے کے بعد شہید طلبہ کی میتوں کے ساتھ ان کے گھروں کو روانہ ہوگیا۔

 

ایک پل میں سب کچھ ملیا میٹ ہوگیا، محلات کے مکین کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہوگئے۔ زلزلے کے دوران پہاڑ ایسے گر رہے تھے جیسے روئی کے گالے اڑ رہے ہوں، ہر شے ملیا میٹ ہوگئی تھی، بازار، اسکول، گھر، ہسپتال ہر شے زمین بوس تھی، جہاں کل رونق اورخوشی تھی آج وہاں صفِ ماتم تھی۔ کتنی دلدوز تصویریں ہیں جو جا بجا بکھری ہوئی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ’آنکھ جوکچھ دیکھتی ہے لب پر آسکتا نہیں‘ والی کیفیت تھی۔ پورا شہر سنسان ہے، چہار سو ویرانے کا منظر، تعفن کی کیفیت مگر حاکمانِ شہر کہیں غائب۔ اُس وقت کے وزیراعظم آزاد کشمیر نے درست ہی کہا تھا کہ میں اب قبرستان کا وزیراعظم ہوں۔

 

زلزلے کے دوران انسانوں کی بے بسی اور لاچاری کی ان گنت مثالیں ملیں۔ اپنے پیاروں کی چیخیں کانوں میں پڑ رہی تھیں مگر کوئی مدد نہیں کرسکتا تھا، ہزاروں لوگ مدد کے لئے چیختے رہے مگر کوئی مدد نہ کرسکا، آٹھ اکتوبر دو ہزار پانچ کو آنے والے زلزلے نے صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاقوں ایبٹ آباد، مانسہرہ، بالاکوٹ اور آزاد کشمیر کے چار اضلاع نیلم، مظفر آباد، باغ اور پونچھ میں بسنے والے لاکھوں لوگوں کو بے سرو سامان کردیا تھا۔ انفراسٹرکچر تباہ ہوگیا تھا۔ ریکٹر اسکیل پر زلزے کی شدت 7.6 تھی اور اس کا مرکز اسلام آباد سے 95 کلومیٹر دور اٹک اور ہزارہ ڈویژن کے درمیان تھا۔

ایک ہی جھٹکے میں لاکھوں مکانات زمین بوس ہوگئے۔ ایک لاکھ سے زیادہ افراد ملبے تلے دب کر جاں بحق ہوگئے۔ سوا لاکھ سے زیادہ زخمی ہوئے جبکہ 30 لاکھ افراد بے گھر ہوگئے۔ 7 ہزار سے زائد تعلیمی ادارے اور 3,837 کلو میٹر طویل سڑکیں تباہ ہوگئیں۔ سب سے زیادہ تباہی مظفرآباد میں ہوئی جہاں عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔ آزاد کشمیر میں 2005 کے زلزلے میں تباہ ہونے والے 2800 تعلیمی اداروں میں سے 1500 سے زائد اسکول کی تعمیر 9 سال گزر جانے کے باجود آج تک مکمل نہیں ہوسکی۔ ماہرین کے مطابق حکومت، ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی اور متعلقہ ادارے آج بھی ایسے سانحات سے نمٹنے کے قابل نہیں ہوسکے ہیں اور نا ہی اُنہوں نے ایسے سانحات سے سبق سیکھا ہے۔

 

اگرچہ مختلف عمارتوں کے نیچے دبی لاشوں کو نکالنے میں چھ ماہ سے زائد کا عرصہ لگا لیکن جو لوگ زندہ رہ گئے وہ بھی اپنی آنکھوں سے قیامت صغریٰ کا منظر دیکھ کر چلتی پھرتی لاشوں میں بدل چکے تھے۔ پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑتے ہوئے لوگوں نے دیکھے۔ دو منٹوں میں لوگوں کو خاک و خون میں لت پت ہوتے دیکھا۔ بعض مقامات پر تو پوری آبادیاں لقمہ اجل بن گئیں۔ ہزاروں لاشیں غسل اور جنازے کے بغیر ہی دفنائی گئیں۔ ہزاروں لوگوں کو کفن اور قبریں بھی نصیب نہ ہوئیں۔

2005 کا زلزلہ اِس قدر اچانک اور اتنی خوفناک قدرتی آفت تھی کہ لوگ آج بھی سکتے کے عالم میں ہیں اور یہ محسوس ہی نہیں کر پارہے کہ ان کو اپنے بچوں، والدین، عزیز و اقارب اور محلہ داروں سے بچھڑے ہوئے دس سال بیت گئے ہیں۔ لوگ رونا چاہتے ہیں لیکن سانس ان کے حلق میں پھنس جاتی ہے اور آنسو بہانے کیلئے ان کی آنکھوں میں پانی نہیں ہے۔ سینکڑوں ایسے لوگ اب بھی موجود ہیں جن کا پورا خاندان شہید ہوگیا اور وہ اس دنیا میں اکیلے رہ گئے ہیں۔

ستم کی یہ داستاں یہاں پر ہی اختتام پذیر نہیں ہوئی بلکہ یہ داستان طویل سے طویل تر ہوتی گئی، آج اس قیامت صغریٰ کو بپا ہوئے دس سال کا عرصہ گزر گیا، زلزلہ سے متاثرہ لوگوں کے لئے بین الاقوامی برادری نے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو اور بحالی کیلئے 5 ارب 80 کروڑ ڈالر کے عطیات دیئے۔ مگر اتنی امداد کے باوجود آج بھی مظفرآباد کی مدینہ مارکیٹ سے لے کر نڑول اسٹیڈیم تک ملبے کے ڈھیر بکھرے پڑے ہیں۔ بالاکوٹ اور گڑھی حبیب اللہ میں اب بھی گمنام قبریں موجود ہیں، باغ اور راولاکوٹ کے باسی اب بھی کسی مسیحا کی تلاش میں ہیں۔

 

اگرچہ اُس وقت تو حکومتِ پاکستان نے فوری طور پر آگے بڑھ کر ڈونرز کی مدد سے بحالی اور تعمیر نو کا آغاز کیا تھا، لوگوں کو معاوضے بھی دئیے گئے تھے اور ساتھ ہی بلند وبانگ دعوے بھی کئے گئے تھے، سابق فوجی حکمران پرویز مشرف نے دعویٰ کیا تھا کہ امدادی رقم سے تباہی کو مراعتوں میں بدل دیا جائے گا، انہوں نے متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو اور بحالی کے کاموں کیلئے متعدد ادارے بھی قائم کئے‘ ایرا اور سیرا (SERRA) دو مرکزی ادارے تھے جنہیں تعمیر نو اور بحالی کی ذمہ داریاں سونپی گئیں تھیں۔ ان اداروں میں ملک بھر سے ہزاروں افراد کو بھاری تنخواہوں کے عوض ملازمتیں فراہم کی گئی تھیں جبکہ انہیں قیمتی گاڑیاں اور پُرتعیش رہائش گاہیں بھی دی گئیں، تعمیر نو کے لیے 7928 ترقیاتی منصوبے ترتیب دیئے گئے، ان میں سے 3847 تعلیم کے شعبے میں جبکہ بقیہ 4081 میں ماحولیات، گورننس، ہیلتھ، رہائش، بنیادی صحت یونٹس، پاور سیکٹر، سماجی تحفظ، ٹیلی مواصلات، ٹرانسپورٹ، واٹر اینڈ سینی ٹیشن سے متعلق تھے۔ ڈونرز اور عالمی ممالک سے اس وقت کی حکومت نے متاثرین کی بحالی اور علاقے کی تعمیر نو کے حسین خواب دکھائے مگر سب دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے، عملی طور پر تعمیر نو اور بحالی کے کام غیر ملکی حکومتوں بشمول ترکی، جاپان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، نے انجام دیئے۔ اقوام متحدہ‘ امریکہ اور برطانیہ کی تنظیموں کو عملی اقدامات نہ کرنے اور اپنی توجہ ٹریننگ اور سیمینار پر مرکوز کرنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں بنیادی انفرا اسٹرکچر بشمول ارضیاتی دیکھ بھال، صحت، تعلیم، روڈ نیٹ ورک، واٹر سپلائی، صفائی کے انتظامات، فراہمی آب اور دیگر بنیادی سہولتیں تاحال زلزلے سے قبل والی پوزیشن پر نہیں آئی ہیں۔ زلزلے کے باعث 95 فیصد تعلیمی ادارے تباہ ہوگئے تھے، 4 لاکھ سے زائد طلبہ و طالبات بد ترین موسم میں کسی شیلٹر کے بغیر اپنی تعلیم جاری رکھنے پر مجبور ہیں۔ مظفرآباد جامعہ کشمیر کی عمارت تاحال تعمیر کی منتظر ہے، کالجز اور اسکولوں کی تعمیر تو درکنار ان کے لئے موزوں جگہ کا تعین تک نہیں ہوسکا۔ ہسپتال اور سرکاری دفاتر بھی تاحال لوہے کے صندوق نما کمروں میں لگ رہے ہیں۔ سی ایم ایچ مظفر آباد کی پرشکوہ عمارت کی جگہ محض چند کمروں پر مشتمل ایک ہسپتال تعمیر ہوا، اسی طرح دیگر علاقوں کا حال بھی ہرگز مختلف نہیں ہے۔ میرے اپنے ضلع فاروڈ کہوٹہ میں موجود تعلیمی اداروں، مراکز صحت اور سرکاری دفاتر میں سے محض ایک عمارتیں ہی تعمیر ہوسکیں ہیں اور اُس کی وجہ بھی یہ ہے کہ غیر ملکی این جی اوز نے حکومت کو بجٹ دینے کے بجائے خود تعمیر کی ہیں۔

 

میری معلومات کے مطابق اگر جمع کئے گئے فنڈز متاثرہ علاقوں پر شفاف طریقے سے خرچ کئے جاتے تو محض تین سال کی مدت میں تمام منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکتا تھا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ منصوبوں پر لاگت میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ محض چند لاکھ میں تعمیر ہوجانے والے منصوبے کی لاگت اب کروڑوں تک پہنچ چکی ہے، وفاقی، صوبائی اور ریاستی حکومتیں متاثرین کی آبادکاری میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہیں۔ مقامی آبادی آج بھی تعلیمی ادارے، گھر، سڑکیں، پانی کے منصوبے، ہسپتال، سڑکیں اور پل تاحال تعمیر کے منتظر ہیں۔ خیبر میں نئے پاکستان والے بھی تاحال زلزلہ متاثرین سے بے خبر چین کی بانسری بجا رہے ہیں جبکہ مظفر آباد میں گڑھی خدا بخش کے مجاور بس اپنا وقت پورا کرنے کے بعد مزید مال بنانے کے خواب دیکھنے میں مگن ہیں۔ یہاں پر غیر ملکی این جی اوز اور ملکی دینی طبقے سے وابستہ فلاحی اداروں کے کردار کی تعریف نہ کرنا سراسر زیادتی ہوگی جنہوں نے حکومتوں سے بڑھ کر متاثرین کی بحالی میں کردار ادا کیا۔

کیا آپ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ اگر حکومت سنجیدگی سے کام کرتی تو تین سال کی مدت میں تمام منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکتا تھا؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

سید امجد حسین بخاری

سید امجد حسین بخاری

بلاگر میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ نجی ٹی وی چینل سے بطور سینئر ریسرچ آفیسر وابستہ ہیں۔ سیاسی، سماجی اور معاشرتی موضوعات پر قلم اٹھانے کی سعی کرتے ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر Amjadhbokhari پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔