سبھاش چندر بوس اور پنڈت نہرو

کلدیپ نئیر  جمعـء 9 اکتوبر 2015

مغربی بنگال کی خاتون وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی نے سبھاش چندر بوس کی فائلوں کو ’’ڈی کلاسیفائی‘‘ کر کے بہت اچھا کیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی ممتا کی پیروی میں بوس کے بارے میں تمام دستاویزات کو عوام کے لیے کھول دینا چاہیے۔ وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی نے 12,744 صفحات پر مشتمل 64  خفیہ فائلوں کو ڈی کلاسی فائی کر دیا ہے اور میڈیا کو مطلع کیا ہے کہ ان دستاویزات سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ بوس کے گھر والوں کی جاسوسی کی گئی تھی ’’اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے … اور میں یہی کہوں گی کہ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات تھی۔‘‘ اپریل میں ایک میڈیا ہاؤس نے پہلا انکشاف کیا کہ 1948ء سے 1968ء تک پورے 20 سال بوس فیملی کی جاسوسی کی گئی۔

ان چیزوں کا اسپیشل برانچ کی صرف دو فائلوں سے پتہ چلا جنھیں ڈی کلاسیفائیڈ کیا گیا تھا اور ان میں 50 کے قریب صفحات تھے۔ ان کاغذات سے انکشاف ہوا کہ انٹیلی جنس برانچ جسے اُس زمانے میں آئی بی کہا جاتا تھا اس کے کئی درجن جاسوس جنہوں نے نیتا جی (بوس) کے بڑے بھائی سرت چندر اور اس کے بیٹوں امیاناتھ بوس اور سیسر کمار بوس کے گھروں کی جاسوسی کی۔ آئی بی کے جاسوس بوس اور ان کے گھر والوں کے لیے آنیوالے خطوط ڈاکخانے سے ہی اُچک لیتے تھے جنھیں نئی دہلی میں آئی بی کے ہیڈ کوارٹرز بھیج دیا جاتا تھا۔ نیتا جی کے بھائی کے پوتے چندر کمار بوس نے بتایا کہ اس انداز کی جاسوسی ملک دشمن عناصر کے خلاف کرنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن سبھاش چندر بوس جیسے انقلابی اور فریڈم فائٹر کے خلاف ایسا کرنا ناقابل فہم ہے۔

اب بوس کے اہل خانہ اس جاسوسی کے خلاف تحقیقات کرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ان فائلوں سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ حکومت نے بوس کے نام آنیوالے تمام خطوط کو کھول کر دیکھنے کا حکم دیا تھا۔ اس زمانے میں بوس کا رہائشی پتہ 38/2 ایلجن روڈ اور نمبر ایک ووڈ برن پارک، کلکتہ کا تھا۔ حکومت نے آرڈر نمبر1735 بتاریخ 20-09-48کو جاری کیا۔ اسپیشل برانچ کو ہیڈ کوارٹر کی طرف سے ہدایت کی گئی کہ جاسوسی کی کارروائی میں مزید ایک سال کی توسیع کر دی جائے۔

چونکہ اس زمانے میں تمام اختیارات جواہر لعل نہرو کی حکومت کے پاس تھے اس لیے اس کام کی ذمے داری بھی ان پر آتی ہے، تاہم کانگریس پارٹی کی طرف سے اس حوالے سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ بہتر یہ ہو گا کہ کانگریس پارٹی بوس فیملی کو خاموشی سے یہ یقین دلا دے کہ اگر اس معاملے میں تحقیقات کی جاتی ہیں تو پارٹی کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ جواہر لعل نہرو اور سبھاش چندر بوس برطانوی حکمرانوں کے خلاف قومی جدوجہد کی دو روشن مثالیں تھیں اور یہ دونوں ہی مہاتما گاندھی کے قریبی معتمد تھے جب کہ گاندھی تحریک آزادی کے مرکزی  قائد تھے۔

نہرو اور بوس میں فرق یہ تھا کہ نہرو مہاتما گاندھی کے عدم تشدد کی پالیسی پر دل سے یقین رکھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ برطانوی آقاؤں کی عالمگیر طاقت کو صرف عدم تشدد سے ہی شکست دیکر آزادی حاصل کی جا سکتی ہے۔ حتیٰ کہ نہرو کسی معاملے میں گاندھی جی سے اختلاف بھی کرتے کیونکہ گاندھی کے نزدیک جرمنی کے ہٹلر اور برطانیہ کے چرچل میں کوئی فرق نہیں تھا لیکن نہرو کی ہمدردیاں جمہوریت کے حوالے سے اتحادی ممالک کے ساتھ تھیں۔ بعض وجوہات کی بنا پر گاندھی جی کو یقین تھا کہ جرمنی جنگ جیت جائے گا۔ اور انھیں اپنے اس نکتہ نظر کی تبدیلی میں کئی سال لگ گئے تاہم اس سوچ کا اثر کانگریس پارٹی پر بھی پڑا جو قومی جدوجہد میں آگے تھی۔

پنڈت نہرو کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں اتحادی فوجوں کی حمایت کیا کرتے تھے لیکن اس کے باوجود وہ گاندھی کی تقلید کرتے تھے جن کے بارے میں نہرو کو یقین تھا کہ وہ ملک کو برطانوی حکمرانوں سے نجات دلا دیں گے۔ دوسری طرف سبھاش چندر بوس کی سوچ بھی واضح تھی جو کہ آزادی کے لیے بوقت ضرورت تشدد کا سہارا لینے کو جائز سمجھتے تھے۔جب بوس کلکتہ کی جیل سے مفرور ہوئے تو وہ افغانستان کے راستے سیدھا جرمنی چلے گئے۔

ان کے خیال میں برصغیر کی آزادی کے لیے ہٹلر جیسے آمر کی مدد حاصل کرنے میں کوئی قباحت نہیں تھی۔ (میں نے جرمنی کے اس دو منزلہ مکان کا وزٹ کیا ہے جہاں بوس نے رات گزاری تھی)کلکتے میں ان فائلوں کے منظر عام پر آنے کے بعد تحریک آزادی کا وہ بھولا ہوا باب بھی عیاں ہو گیا۔ بوس نے انڈین نیشنل آرمی (آئی این اے) نامی ایک مسلح تنظیم بھی قائم کر لی تھی جس کے لیے جنوب مشرقی ایشیا میں رہنے والے برصغیر کے بااثر لوگوں نے ان کی مدد کی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے جنوب مشرقی ایشیا میں رہنے والے مقامی شہریوں کو آئی این اے قائم کرنے میں رہنمائی کی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ برصغیر کی آزادی کے بعد عین ممکن ہے کہ جاپانی اس خطے کو آزاد نہ رہنے دیں۔

فاشسٹوں کا اپنا الگ ایجنڈا تھا جس کا جمہوری سوچ و فکر سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ البتہ بوس کے عزم صمیم کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر جاپانی انگریزوں کے جانے کے بعد برصغیر کو اپنی کالونی بنانا چاہتے توسبھاش چندر بوس اپنی فوج کے ساتھ جاپانیوں کے خلاف لڑنے کے لیے تیار تھے۔کلیدی فائلیں نئی دہلی میں تھیں جو کہ برطانوی حکومت کا مرکز تھا لہٰذا یہ سوال بدستور جواب طلب رہے گا کہ کیا ساری فائلیں عوام کے لیے کھول دی گئیں ہیں اور کیا ان فائلوں کو ضایع تو نہیں کر دیا گیا جن میں نہرو کے خلاف مواد موجود تھا۔ تاہم ایک چیز کی مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ نہرو کی حکومت نے بوس کے مرنے کے بعد بھی اس کے اہل خانہ کی جاسوسی کیوں جاری رکھی۔ واضح رہے سبھاش چندر بوس 1945ء میں ایک ہوائی حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ 1945ء کے ہوائی حادثے کی خبر بھی مشکوک معلوم ہونے لگی ہے۔

لہٰذا مرکزی حکومت کے لیے لازم ہے کہ وہ تمام واقعات کو ازخود طشت ازبام کر دے۔ اس کا نتیجہ جو بھی نکلے اس سے مودی حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ متذکرہ فائلوں کو خفیہ رکھنے کا ایک مقصد یہ ہو سکتا ہے کہ کہیں اس سے ملک کے خارجہ تعلقات متاثر نہ ہوں۔ لیکن آخر خارجہ تعلقات پر اس کا کس طرح اثر پڑ سکتا تھا اس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔ بوس نے سوویت یونین میں سیاسی پناہ حاصل کی تھی جو کہ اب خود ٹوٹ چکا ہے۔ ماسکو آج کے دور میں اس زمانے کی نسبت کہیں زیادہ آزاد خیال جگہ ہے۔ وہاں سے بھی ہمیں بوس کے حوالے سے کچھ اہم شواہد حاصل ہو سکتے ہیں۔یہ بات بھی ناقابل فہم ہے کہ آخر مودی حکومت قوم کو پوری کہانی بتانے سے کیوں ہچکچا رہی ہے۔ اور عوام کو حقیقی معلومات تک رسائی کیوں نہیں دی جا رہی؟

ممتا بینرجی کا یہ تبصرہ کہ ’’جو نہرو نے کیا وہ بڑی بدقسمتی کی بات تھی، جس سے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے‘‘ لیکن جو نہرو نے کیا وہ ان کی اپنی سرشت کے خلاف تھا لہٰذا ان پر تنقید کی جانی چاہیے۔ ان انکشافات کے پیش نظر بھارت کے پہلے وزیر اعظم جن کو ایک ماورائی حیثیت حاصل ہے ان کی ساکھ کو سخت نقصان پہنچ سکتا ہے۔    (ترجمہ: مظہر منہاس)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔