کچھ ڈاکٹر جاوید اقبال کے بارے میں

انتظار حسین  جمعـء 9 اکتوبر 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

ڈاکٹر جاوید اقبال اب ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں۔ ویسے انھوں نے لمبی عمر پائی، نوے برس کی حد سے تجاوز کر چکے تھے جب ان کا انتقال ہوا۔ ان کا آخری عمر کا ایک افسوس درج ذیل ہے۔

’’عجیب اتفاق ہے، میرے والد کے پرستاروں نے مجھے بڑا نہیں ہونے دیا۔ ہمیشہ چھوٹا سا بچہ ہی سمجھا گیا۔‘‘

یہ فقرے ان کی خود نوشت ’اپنا گریباں چاک‘ سے نقل کیے گئے ہیں۔ مگر یہ بچہ محض بچہ بنے رہنے پر قانع نہیں تھا۔ ’’ایک بہت بڑے درخت کے سائے سے نکل کر اپنا مقام پیدا کرنے کی کوشش کرتا نظر آتا ہے‘‘ کیا میں اس سائے سے نکل کر اپنا سایہ بنا سکا۔ میں کس حد تک کامیاب ہوا اور کس حد تک ناکام، فقط یہی میری داستان حیات ہے۔‘‘

اس داستان حیات کو پڑھتے ہوئے ہمیں عجب عجب مقامات سے گزرنا پڑتا ہے۔ ایسے مقام بھی آتے ہیں کہ بیٹا باپ سے ان کے تصورات کے بارے میں سوال کر رہا ہے۔ یہ سوال کیا ہیں، ان تصورات کے بارے میں اس کے شکوک کی غمازی کر رہے ہیں۔ کتاب کے آخر میں باب ہے… ’’دوسرا خط‘‘… بتاتے ہیں کہ انھوں نے والد گرامی کو ایک خط بچپن میں اس وقت لکھا تھا جب وہ لندن گئے تھے اور بچے نے باپ سے گراموفون باجا لانے کی فرمائش کی تھی۔ دوسرا خط اب لکھا گیا ہے جب والد گرامی عالم بالا میں ہیں اور بیٹا باپ سے ان کے بیان کردہ قومی تشخص اور اسلامی ریاست کے بارے میں سوال کر رہا ہے۔

پھر ان مراحل سے گزرتے نظر آتے ہیں جب یہی فرزند علامہ اقبال کے معتقدین کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ علامہ کا مطلب وہ نہیں تھا جو آپ سمجھے ہیں، مطلب وہ ہے جو میں بتا رہا ہوں۔

اس سلسلہ میں ایک واقعہ سن لیجیے۔ جس زمانے میں افغانستان میں طالبان برسراقتدار تھے اس زمانے میں محترم جاوید اقبال نے وہاں کا دورہ کیا۔ کابل کے چیف جسٹس سے ان کی ملاقات ہوئی۔ بتاتے ہیں ’’میرے سوالوں کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ ملک کے دیوانی قوانین میں تو کوئی خاص تبدیلی نہیں کی گئی۔ البتہ فوجداری قوانین شریعت کے مطابق نافذ کر دیے گئے ہیں۔

اسلامی سزاؤں (حدود) کے بارے میں فرمایا کہ لواطت کے کیس میں اگر جرم کا ارتکاب فریقین کے ایما سے ہوا ہو تو فاعل اور مفعول دونوں کو زندہ جلا دینے کی سزا دی جاتی ہے۔ زنا کے کیس میں زانی اور زانیہ دونوں کو پتھر مار کر مارنے (رجم) کی سزا دی جاتی ہے یا دیوار تعمیر کر کے ان پر گرا دی جاتی ہے یا انھیں کسی پہاڑ کی چوٹی سے نیچے کھڈ میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ میں نے اجتہاد کی بات کرتے ہوئے انھیں حضرت معاذ بن جبل سے متعلق حدیث کے بارے میں پوچھا کہ کیا وہ قیامت تک نافذ العمل ہے یا نہیں۔ فرمایا کہ آئمہ کرام نے قرآنی احکام کی ایسی مدلل تشریح کر دی ہے کہ اب اس حدیث کی اہمیت ختم ہو چکی ہے۔

مختصراً ان کا مطلب تھا کہ اب اجتہاد کے دروازے بند ہو چکے ہیں۔ اس پر میں نے ان سے مزید سوال کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ جب ہم اٹھ کر جانے لگے تو مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ محمد علی جناح نے صرف پاکستان بنایا۔ مگر علامہ اقبال تو ساری دنیائے اسلام کے رہبر ہیں۔ میں نے طنزاً جواب دیا کہ جی ہاں انھوں نے معاذ بن جبل کے حوالے سے اجتہاد کے تاقیامت جاری رہنے کی بات کی تھی۔ شاید ان کی اس غلطی کے سبب علماء حضرات نے ان پر کفر کا فتویٰ صادر کر دیا۔‘‘

ادھر پاکستان میں پاکستانی علماء سے باتیں کرتے ہوئے ’’مجھے فوری طور پر احساس ہوا کہ وہ طالبان کی طرز اسلامیت کو صحیح سنی اسلامیت سمجھتے ہوئے اسے کسی نہ کسی انقلاب کے ذریعہ پاکستان میں رائج دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘

محترم جاوید اقبال کا خیال ہے کہ ’’دراصل پاکستان میں اس پودے کی آبیاری جنرل ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کو طول دینے کی خاطر کی تھی اور اب یہ پودا رفتہ رفتہ نہ صرف ایک تناور درخت بننے کے خواب دیکھ رہا تھا بلکہ ……‘‘ لیجیے یہ مضمون تو لمبا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس میں پھنس گئے تو اس خود نوشست میں کی جو کتنی اچھی اچھی باتیں لکھی گئی ہیں وہ بیان سے رہ جائیں گی۔

جاوید اقبال بتاتے ہیں کہ ’’مجھے علامہ اقبال کے حوالے سے میوزیم پیس کی طرح پاکستان کے اکثر حکمراں بیرونی مہمان شخصیات سے متعارف کراتے رہے ہیں۔‘‘

سب سے دلچسپ ملاقات امام خمینائی کے دورۂ لاہور کے دوران ہوئی۔ جنرل ضیاء الحق نے گورنر ہاؤس میں ڈنر کے موقعہ پر ان سے میرا تعارف کرایا تھا۔ جب میں نے انھیں بتایا کہ میں فارسی نہیں جانتا تو انھوں نے جنرل ضیاء الحق سے ازرہِ مذاق کہا تھا کہ جاوید کو ایران بھیج دیں۔ وہ اس کی شادی کسی شیرازی حسینہ سے کرا دیں گے اور تین ماہ کے اندر وہ ایسی فارسی بولیں گے جو لہجہ کے اعتبار سے شیریں ہو گی۔‘‘

آگے چل کر کہتے ہیں کہ ’’ایک بات جس نے مجھے حیرت میں ڈالا ہے کہ پاکستان کے حاکم خواہ وہ عسکری جرنیل ہوں یا سیاستداں کسی اہم امریکی شخصیت کو دیکھ کر ان کی بانچھیں کیوں کھل جاتی ہیں۔‘‘

آگے چل کربتاتے ہیں کہ ’’مجھے کسنجر سے علامہ اقبال کے فرزند کی حیثیت سے ملوایا گیا۔ لیکن کسنجر کی پاکستان کے بارے میں لاعلمی کا یہ عالم تھا کہ وہ مجھے ہی علامہ اقبال سمجھا۔‘‘

ہندوستان کے اپنے پہلے دورے کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’’دہلی کی تقریب میں اندرا گاندھی اور واجپائی بڑے تپاک سے ملے۔ اس زمانے میں واجپائی بھارت کے وزیر خارجہ تھے۔ اندرا گاندھی اپوزیشن لیڈر تھیں اور مرار جی ڈیسائی وزیر اعظم تھے۔ میں نے اندرا گاندھی سے کہا کہ اگلی مرتبہ جب آپ لاہور تشریف لائیں تو ہمارے یہاں ٹھہریں۔ انھوں نے قریب کھڑے واجپائی کی طرف دیکھ کر طنزاً کہا کہ پہلے ان سے میرا پاسپورٹ واپس دلوائیے۔‘‘

ضیاء الحق کی دعوت پر ان کی ایک تقریب میں شرکت کا موقعہ ملا ان کے کہنے پر علماء و مشائخ کے بعد مجھے بھی ایک تقریر کرنی پڑی۔ بیٹھے بیٹھے وہیں جلدی جلدی تقریر لکھی جو اردو میں تھی اور پڑھ دی۔ ’’میں نے جنرل ضیاء الحق کے اسلامائزیشن کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ حدود آرڈیننس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کے تحت کسی مجرم کو سزا دے سکنا ممکن نہیں۔ لہٰذا یہ قانون نمائشی ہے۔ ہمارے ضابطوں پر محض سرخی پاؤڈر لگانے کے مترادف ہے۔‘‘

اس پر علماء حضرات نے شور و غل مچانا شروع کر دیا۔ جنرل ضیاء الحق پہلے تو اپنے مخصوص انداز میں مسکراتے رہے پھر یک دم اٹھ کر کھڑے ہوئے اور اعلان کیا ’’علماء حضرات اطمینان رکھیں ڈاکٹر جاوید اقبال کی سفارشات پر عملدرآمد نہیں کیا جائے گا۔‘‘ اس پر تمام علما حضرات خاموش ہو گئے۔

’’ظہر کی نماز کے بعد وقفہ میں جنرل ضیاء الحق نے مسکراتے ہوئے مجھ سے کہا کہ آپ کی وجہ سے تو آج کی محفل میں خوب جوش و خروش پیدا ہو گیا۔‘‘

بچپن کی ایک یاد میاں نظام الدین کے باغ میں آموں کی دعوت ’’میں یخ بستہ پانی کے حوض میں جو پانی سے بھرا ہوتا میں اتر جاتا اور خوب خوب آم کھاتا۔ میرے والد کو آم بہت پسند تھے۔ انھوں ہی نے آم کی اس قسم کا نام ٹیپو رکھ دیا تھا۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔