پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کی90فیصد ورکنگ ویمن کو ہراساں کئے جانے کا انکشاف

مانیٹرنگ ڈیسک  جمعـء 9 اکتوبر 2015
خواتین خوف، شرم، لاعلمی اور بدنامی کے باعث بتاتی نہیں اور نفسیاتی مریضہ بن جاتی ہیں۔ فوٹو : فائل

خواتین خوف، شرم، لاعلمی اور بدنامی کے باعث بتاتی نہیں اور نفسیاتی مریضہ بن جاتی ہیں۔ فوٹو : فائل

لاہور: پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کی90فیصد کام کرنے والی خواتین کو دوران ڈیوٹی یا آتے جاتے ہراساں کیا جاتا ہے، اس ہوشربا حقائق سے آفتاب اقبال نے اپنے پروگرام ’’خبردار‘‘ میں پردہ اٹھایا۔

انھوں نے مزید کہا کہ کام پر آتے جاتے یا دفتر میں خواتین کو ہراساں کیا جانا معمولی بات سمجھا جاتا ہے جسے خواتین خوف، شرم، لاعلمی اور بدنامی کی وجہ سے کسی کو نہیں بتاتیں۔ اسی وجہ سے وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہوکر مریض بن جاتی ہیں جس سے نہ صرف ان کا کام متاثر ہوتا ہے بلکہ خاندانی زندگی بھی تباہ ہوکر رہ جاتی ہے۔ انھوں نے اس بات پر بھی توجہ دلائی کہ لاہور ٹریفک پولیس میں بھرتی کی جانے والی خواتین وارڈنز بھی مردوں کے ہراساں کیے جانے سے محفوظ نہ رہ سکیں۔

اسلحہ اور پولیس ٹریننگ کے باوجود تمام خواتین کو چند ماہ بعد ہی فیلڈ سے دفاتر میں بلا لیا گیا۔ ان پڑھی لکھی خواتین میں سے کسی نے بھی اس کیخلاف متعلقہ فورم پرآواز نہیں اٹھائی۔ آفتاب اقبال نے خواتین کو آگاہ کیا کہ وہ اپنے ہراساں کیے جانے کے واقعات کو وفاقی و صوبائی خواتین محتسب کے پاس رجسٹر کروا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہر وہ ادارہ جس میں خواتین کام کرتی ہیں قانون کے تحت پابند ہے کہ ایک ایک کمیٹی قائم کرے جہاں خواتین اپنی شکایات درج کروائیں اور یہ کمیٹی30دنوں میں فیصلہ کرنے کی پابند ہے۔

یہ کمیٹی الزام ثابت ہونے پر مرد کو جرمانہ یا نوکری سے برطرف بھی کر سکتی ہے۔ انھوں نے گھر والوں پر بھی زور دیا کہ وہ اپنی خواتین کو اعتماد دیں تاکہ وہ اپنے مسائل اس سے شئیر کر سکیں اور قانونی چارہ جوئی کی جا سکے۔ پروگرام آج رات 11:05پر ایکسپریس نیوز پر پیش کیا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔