سوچئے! کہیں انتہا پسندی گھر سے تو شروع نہیں ہورہی؟

ملیحہ خادم  ہفتہ 10 اکتوبر 2015
 یہ انتہا پسندی کی علامت ہی تو ہے کہ جہاں سے میں دنیا کو دیکھوں سب وہیں سے دیکھیں یا جو مجھے صحیح لگے سب اسی پر اکتفا کریں.

یہ انتہا پسندی کی علامت ہی تو ہے کہ جہاں سے میں دنیا کو دیکھوں سب وہیں سے دیکھیں یا جو مجھے صحیح لگے سب اسی پر اکتفا کریں.

انتہا پسندی یا شدت پسندی ایسا پودا ہے جو ایک بار جڑ پکڑ لے تو پھر پھیلتا ہی جاتا ہے اور نشوونما کیلئے اسکو کھاد پانی عدم برداشت مہیا کرتی ہے۔ لہذٰا جڑوں کی مضبوطی سے پہلے ہی اسے اکھاڑ پھینکنا چاہیئے۔ 
شدت پسندی رویوں میں بھی ہوسکتی ہے اور نظریات میں بھی۔ دونوں صورتوں میں ہی انسان  کے اپنے لئے اور اردگرد بسنے والوں کے لئے انتہائی خطرںاک ثابت ہوتی ہے۔ اس کیفیت میں انسان صرف خود کو اور اپنے نظریہ کو درست سمجھتا ہے اور اس سے اختلاف رکھنے والے سب لوگ اس کی نظر میں قابل اصلاح اور بعض اوقات معتوب ٹھہرتے ہیں چنانچہ وہ سب کو ’’درست‘‘ کرنے میدان میں آجاتا ہے اور پھر جو نتیجہ نکلتا ہے وہ خوفناک ہی ہوتا ہے۔
بد قسمتی سے آج کے دور میں انتہا پسندی اور اسلام لازم و ملزوم سمجھ لئے گئے ہیں، جبکہ دنیا کے ہر کونے میں ہر دور میں شدت پسند کسی نہ کسی صورت میں زندہ رہتے ہیں، جب انتہا پسندی، شدت پسندی یا عدم برداشت پر سیاسی مذہبی رنگ چڑھتا ہے تو سقوطِ غرناطہ کے بعد ایسا ظلم شروع ہوتا ہے کہ انسانیت کانپ جاتی ہے، کیتھولک چرچ  کی ایذا رسانیوں میں اضافہ ہوتا ہے، پروٹسٹنٹ تنازعہ کھڑا ہوتا ہے، 30 سالہ جنگ یورپ کو نگل جاتی ہے۔ صہونیت، القاعدہ، داعش، راشٹریہ سیوک سنگ وغیرہ کا ظہور ہوتا ہے، اور جب اس میں قومیت اور نسل کی بنیاد پر تعصب کی آمیزش بھی ہوجائے تو ہٹلر آدھی دنیا کو جنگ میں جھونک دیتا ہے۔ مارٹن لوتھر کِنگ جونئیر جنم لیتا ہے اور روہنگیا مسلمان دربدر کی ٹھوکریں کھاتے ہیں۔ ایسی ان گنت مثالیں ہیں، پھر ایسے واقعات کا ردِعمل اپنے ساتھ مزید اشتعال اور شدت لیکر آتا ہے یوں ایک چین ری ایکشن کیطرح رونما ہونیوالے حالات و واقعات حمایتی اور مخالفین کی نفسیات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
انتہا پسندی کی چوٹی تک پہنچنے سے پہلے بھی تو کچھ منزلیں ہیں جہاں پڑاؤ کرتے ہوئے ایک عام انسان شدت پسند بن جاتا ہے۔ شدت پسندی صرف یہ تو نہیں ہے کہ انسان ہاتھ میں بندوق لیکر نکل جائیگا بلکہ رویوں میں سےتحمل، برداشت اور افہام و تفہیم ختم ہوجانا بھی میانہ روی اور معتدل سوچ کے بگاڑ کو ظاہر کرتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ بھی عدم برداشت اور انتہا پسندی کی طرف پہلے سے زیادہ مائل نظر آتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کی بات سننے کے بجائے صرف اپنی سوچ اور نظریہ دوسرے پر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کہتے ہیں مباحث صحت مند معاشرے کی علامت ہوتے ہیں۔ جب ایک سے زائد افراد کسی موضوع یا مسئلہ پر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں تو، نہ صرف ان میں برداشت کا مادہ پیدا ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات اتفاقِ رائے کی نوبت بھی آجاتی ہے، لیکن ہم پاکستانی کسی مذہبی نقطے پر بات شروع کریں تو چار پانچ جملوں کے بعد ہی برداشت کی حد ختم ہوجاتی ہے اور فتنہ انگیزی اور خود ساختہ فتوٰی کا سلسلہ دراز ہوجاتا ہے۔ کسی شخصیت یا واقعہ پر بحث کرتے ہوئے بھی ہم ایک دوسرے کی تکہ بوٹی کرنے پر اتر آتے ہیں۔ دلیل کے بجائے گھٹیا زبان کے سہارے ذاتیات پر حملے کرتے ہوئے خود کو صحیح اور دوسرے کو ذلیل کرنے کی حد تک غلط ثابت کرنا شروع ہوجاتے ہیں۔
 یہ انتہا پسندی کی علامت ہی تو ہے کہ جہاں سے میں دنیا کو دیکھوں سب وہیں سے دیکھیں یا جو مجھے صحیح لگے سب اسی پر اکتفا کریں اور جو کسی نے مجھ سے اختلاف کیا تو اس کو سبق سِکھانا مجھ پر واجب ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے اندر سے برداشت کرنے کی صلاحیت ختم ہوتی جارہی ہے۔
عموماً نصاب کو قصور وار سمجھا جاتا ہے کہ چونکہ ہمارا نصاب ہی اپنے اندر توازن نہیں رکھتا، اسلئے بچپن سے ہی سوچوں میں اعتدال نہیں رہتا اور نظریہ کا میزان بگڑ جاتا ہے۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے، پچھلے دنوں راقم کی حیرت کا سامان اس وقت ہوا جب ایک استاد کی زبانی معلوم ہوا کہ تیسری جماعت کے ایک طالبعلم نے اپنے ہم جماعت کیساتھ ایک ڈیسک پر بیٹھنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ان کے درمیان مذہبی و مسلکی اختلاف ہے۔ اب یہ بات اتنے چھوٹے بچے کے ذہن میں کس نے ڈالی جبکہ اسکول کا ماحول تو بالکل متوازن ہے۔ یقیناً یہ اسکے گھر کی تربیت ہے یا اردگرد کے ماحول کا اثر جس نے معصوم ذہن میں ایسی فیڈنگ شروع کر رکھی ہے۔
جب یہی بچہ بڑا ہو کر اسی ذہن سازی کے ساتھ اعلٰی تعلیمی اداروں اور بعد ازاں عملی زندگی میں قدم رکھے گا تو ذرا سوچئے! کیا کیفیت ہوگی؟ وہ یا تو خود نفسیاتی توڑ پھوڑ کا شکار ہوجائیگا یا خود کو برتر سمجھتے ہوئے باقی سب کو  کمتر یا غلط قرار دیگا، کچھ بعید نہیں کہ وہ اس راستے پر چلتے ہوئے تشدد کا سہارا لینا شروع کردے کیونکہ مذہب کے نام پر جذبات بہت آسانی سے بھڑکائے جاسکتے ہیں، اسلئے ایسا ذہنی رجحان مذہبی شدت پسندی کیلئے آسان ہدف ثابت ہوسکتا ہے۔
گھروں میں ہونے والی یہ ہی وہ بنیادی غلطی ہے جو معاشرے کو بگاڑ کیطرف لے جارہی ہے۔ درسگاہ صرف ایک حد تک کردار سازی کرتی ہے اصل بنیاد گھٖر کا ماحول اور والدین کی تربیت بنتی ہے۔ اسکول میں گزارے گئے چھ گھنٹوں کے مقابلے میں بچہ گھر کے ماحول اور گھر والوں کے مابین ہونیوالی گفتگو سے زیادہ جلدی سیکھتا ہے، اسلئے والدین کو احتیاط برتنی چاہیئے بالخصوص مذہب اور مسلک کے معاملے میں اور ایسے کام اور گفتگو سے پرہیز کرنا چاہیئے جو کچے ذہنوں پر دیر پا نقش چھوڑ جائے.

ِاس وقت پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے سند یافتہ پڑھے لکھے نوجوانوں کا تعلق بھی شدت پسندوں سے ثابت ہورہا ہے۔ اگر ہم ملک کو پُرامن دیکھنا چاہتے ہیں تو بیماری کی جڑ تک پہنچنا ہوگا۔ ہر کام حکومت اور اداروں کے گلے میں ڈالنے کے بجائے لوگوں کو اپنے طرزِعمل کا جائزہ لینا ہوگا۔ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو طلبہ کے رجحانات، کیمپس میں ہونے والی غیر نصابی سرگرمیوں پر نظر رکھنی چاہیئے۔ جبکہ والدین کو گھر کا ماحول اعتدال میں رکھنے کے ساتھ ساتھ بچوں کے حلقہِ احباب کی جانچ پڑتال کرتے رہنا چاہیئے، اور بچے کے ساتھ دوستانہ انداز اختیار کرتے ہوئے اسکے ذہن میں مثبت سوچ پروان چڑھانی چاہئیے کیونکہ ہمارے آس پاس منافرت پھیلانے والے بہت ہیں۔

کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،  مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔