اللہ آپ سے بھی پوچھے گا

میرشاہد حسین  جمعـء 9 اکتوبر 2015
جج صاحب آپ کا فرض ہے کہ قانون کے مطابق فیصلہ دیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس پر آپ کو متوجہ کریں۔

جج صاحب آپ کا فرض ہے کہ قانون کے مطابق فیصلہ دیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس پر آپ کو متوجہ کریں۔

کام کرنے والوں کیلئے 100 راستے اور نہ کرنے والوں کیلئے تمام راستے بند ہوجاتے ہیں۔ ایسا ہم نے اپنی زندگی میں بارہا مشاہدہ کیا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر بے حیائی پر مبنی مواد چلے تو کہا جاتا ہے کہ جس کو پسند نہیں وہ نہ دیکھے یا وہ ٹی وی بند کردے، یا چینل تبدیل کرلے۔ لیکن اس کے برعکس جب کسی سیاسی جماعت کے لیڈر خطاب فرمائیں تو رویہ تبدیل ہوجاتا ہے اور ان کو یہ نہیں کہا جاتا ہے کہ جس نے سننا ہے سنے اور جس نے نہیں سننا وہ اپنا چینل تبدیل کرلے۔

حال ہی میں سپریم کورٹ نے سودی نظام کے خلاف یہ کہہ کر درخواست مسترد کر دی کہ جو سود نہیں لینا چاہتے نہ لیں، لینے والوں کو اللہ پوچھے گا۔ میرا سوال ہے محترم جج صاحب سے کہ کیا اللہ آپ سے نہیں پوچھے گا کہ کلمہِ توحید پڑھ کر آپ نے  اللہ کا حلف اٹھایا تھا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان جس کے دستور کا آپ نے حلف اٹھایا تھا۔ کیا کسی غلط کام کرنے والے کو یہ کہہ کر اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ کرے اللہ اس سے پوچھے گا تو، پھر آپ نے شراب پر پابندی کیوں لگا رکھی ہے؟ یہ ذاتی فعل ہے۔

حکومت الہیہ سے مراد وہ نظام حکومت ہے جس میں اللہ کی حاکمیت اور اس کے نازل کردہ احکام و قوانین کی فوقیت کو من و عن تسلیم کیا جائے اور انہی کے مطابق ہدایات اور فروعی قوانین وضع کیے جائیں۔ جس مملکت کی بنیاد اس نظریہ پر قائم ہوگی اس کے لئے قانون کے لانے والے اور اس پر عمل کرکے دکھانے والے کے نقش قدم پر چلنا نا گزیر ہوگا۔

’’خلیفہ اللہ فی الارض‘‘ ہونے کی وجہ سے انسان مجبور ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری سے انحراف نہ کرے۔ آپ کے معاملات ہوں یا عبادات انہیں اسی طرح کر دکھائے، جیسا کہ قانون کے لانے والے نے اپنی زندگی میں عمل کر کے دکھایا۔

عدل و انصاف کے صرف وہی اصول مملکت میں نافذ کرئیے جو اللہ کی طرف سے پہنچے ہوں۔ نیز زندگی کو ایسے ڈھب پر گامزن کرنے کی کوشش کرئیے جس کے ہر خط و خال سے آخرت کی جواب دہی کا تاثر پیدا ہو۔ اللہ کو ’’ملک الناس‘‘ جان کر دنیاوی زندگی کے تمام شعبوں میں قوانین الہیہ کی پابندی عملاً لازم کر دینا ہی حکومت الہیہ کے قیام کر دینے کے مترادف ہے۔ تکوینی حیثیت سے عملاً حکومت الہیہ قائم ہے۔ چاند، سورج، زمین، ملائکہ جن و انس سب وہی کچھ کرتے ہیں جو ان سب کا پیدا کرنے والا چاہتا ہے۔ فقط جن و انس ایسی مخلوق ہے جنہیں چند معاملات میں آزادیِ رائے بخشی گئی ہے اور اسی آزادی رائے کی بنا پر انسان اور جنات جزا و سزا کے مستحق گردانے گئے ہیں۔

خلیفۃ اللہ فی الارض کے منصب و مقام کو پہچان کر اس پر عمل پیرا ہونا ہی منشا الہی کو پورا کرنا ہے۔ اس کے برعکس آزاد منش ہونا، منشاء الہی کے خلاف اور حکومت الہیہ کے منافی ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے بہت واضح طور پر سمجھادیا ہے کہ وہ خلیفۃ اللہ فی الارض ہے اور اس کا فرض ہے کہ وہ زندگی کے ہر شعبے میں اطاعت، فرمانبرداری کو اپنا شعار بنائے۔ چنانچہ جو ریاست حکومت الہیہ کی شرائط پوری کرتی ہے وہی اصل میں اسلامی ریاست کہلاتی ہے۔

سود سے متعلق احکامات قرآن پاک میں واضح درج کر دیئے گئے ہیں اور ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اللہ سے جنگ قرار دیا گیا ہے، اس سے قبل کہ اللہ کا عذاب ہم سب پر نازل ہو برائے کرم اپنے فیصلوں پر خود ہی غور فرمائیں۔ آپ نے اس سے قبل کئی اچھے فیصلے کیے ہیں۔ چاہے وہ سرکاری زبان اردو پر عمل کرنے کا فیصلہ ہو یا 62، 63 پر عمل کا فیصلہ، آپ نے دستور کی ہر شق کی پاسداری کی ہے۔ آپ کا فرض ہے کہ قانون کے مطابق فیصلہ دیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس پر آپ کو متوجہ کریں، اب اہل اختیار کا کام ہے کہ وہ اس معاملہ کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ ﷲ آپ سے بھی پوچھے گا!

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ سود کے حوالے سے عدلیہ کا فیصلہ ٹھیک ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،  مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

میرشاہد حسین

میرشاہد حسین

میر شاہد حسین نے اپنے قلمی سفر کا آغاز بچوں کے معروف رسالہ سے 1995ء میں کیا۔ بعد ازاں آپ اسی رسالے کے مدیر بھی رہے۔ آپ کو بچوں کے ادب میں بہترین ادیب کا ایوارڈ نیشنل بک فاؤنڈیشن کی طرف سے دیا گیا۔ آج کل بچوں کے بڑوں پر بھی اپنے قلم کے جوہر دکھانے کی کوشش کررہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔