ذہنی امراض اور دماغی صحت

خرم منصور قاضی  اتوار 11 اکتوبر 2015
 نام نہاد پیروں فقیروں کے بجائے اچھے معالج سے رجوع کریں  ۔  فوٹو : فائل

نام نہاد پیروں فقیروں کے بجائے اچھے معالج سے رجوع کریں ۔ فوٹو : فائل

آج پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا ذہنی امراض کی لپیٹ میں ہے۔ ذہنی صحت زوال پذیر ہے۔ کشمکش اور تناؤ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ انسانی رشتوں کی مطابقت ختم ہوتی جا رہی ہے اور مادیت کے لوازمات بڑھ چکے ہیں۔

مادی ترقی کے ساتھ ساتھ روحانی اور انسانی اقدار میں زوال‘ سماجی زندگی میں روابط کی کمی اور تنہائی ذہنی صحت کو تیزی سے تباہ کر رہے ہیں، خوشیاں مفقود ہو رہی ہیں اور ذہنی و جسمانی عوارض بڑھتے جا رہے ہیں، بالخصوص بڑے شہروں میں نیند کی کمی‘ جھنجھلاہٹ‘ غصہ ‘ ڈپریشن‘ عضلاتی تناؤ اور ان جیسے دیگر کئی عوارض عام ہوتے جا رہے ہیں ۔ رب العالمین نے انسان کو عقل کا نور اور ایسا فہم و شعور عطا کیا ہے جس کے ذریعے وہ دانائی و ہوش مندی کے ذریعے اچھے اور بْرے کی تمیزکرتا ہے اور یہی وہ نعمت ہے جو تمام جانداروں میں انسان کو ممتاز کرتی ہے ۔

یاد رکھیں کہ زندگی کے مسائل ہمیں زندہ رہنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ مسائل ہی زندگی کو بامقصد اور دلچسپ بناتے ہیں۔صرف قبرستان ہی وہ جگہ ہے کہ جہاں کے باسیوںکو کوئی الجھن ،کوئی پریشانی نہیں ہے ۔ اگر انسان زندہ ہے تو اْسے دْکھ سْکھ اور مختلف مسائل کا سامنا کرنا ہے اور زندگی کی روانی ان ہی سے مربوط ہے ۔ جب انسان اپنے مسائل سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کرتا ہے تو اس کے اثرات دوسروں پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔

اس کے برعکس جب انسان اپنے مسائل کے سامنے ہار مان لیتا ہے تو اس کا ذہن بیمار ہونے لگتاہے جس کی وجہ سے اس میں کئی قسم کی ذہنی و نفسیاتی بیماریاں پیدا ہونے لگتی ہیں ۔

ذہنی امراض کے مریضوں کی علامات ایسی ہوتی ہیں کہ عموماََ ان کے گھر والے ان پر جنات کا سایہ سمجھ لیتے ہیں اور فقط دم درود کو ہی علاج قرار دیتے ہیں یا پھر کسی نام نہاد پیر کے پاس لے جا کر اس کے جن نکلوانے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں لیکن جن اندر ہو تو باہر نکلے ، بس پیر صاحب کی جیب میں بہت کچھ چلا جاتا ہے۔ ہمارے اِردگرد بہت سے ایسے مریض ہوتے ہیں جو بظاہر صحت مند نظر آتے ہیں بلکہ صحت مند لوگوں سے زیادہ بہتر کام بھی کر لیتے ہیں اور اس کی وجہ صرف ان کی قوتِ ارادی اور پریشانیوں سے لڑنے کی طاقت میں پوشیدہ ہے۔ وہ عوارض کو اپنے عزت و وقار پر حاوی نہیں ہونے دیتے اور آخری سانس تک باہوش انداز میں زندگی کی تلخ حقیقتوں سے نبرد آزما رہتے ہیں اور یہی کامیابی کی کنجی ہے۔

ذہنی امراض اور ان کی مختلف اقسام
ذہنی امراض بے شمار ہیں۔ایک مرض ڈیلوژن آف ریفرنس ( Reference of Delusion) ہے۔ اس مرض کے شکار مریض کو ایسا گمان ہوتا ہے کہ لوگ اس کے متعلق باتیں کر رہے ہیں۔ ٹی وی دیکھنے، ریڈیو سننے ، اخبار یا کتاب پڑھنے پر،کہیں تعریف ہو رہی ہو یا برائی وہ اسی قسم کی صورتحال میں مبتلا رہتے ہیں۔

اسی طرح کچھ افراد ڈیلوژن آف پرسیکیوشن (Delusion of Persecution) کا شکار ہوتے ہیں‘ ایسے افراد کو دوسروں سے خطرہ محسوس ہوتا ہے، کھانے پینے کی اشیاء زہر آلود ہونے کا گمان ہوتا ہے۔کچھ افراد ڈیلوژن آف پیسویٹی ( Passivity Delusion of ) کا شکار ہوتے ہیں ‘ اس مرض کے شکار افراد کا یہ خیال ہوتا ہے کہ جو کچھ و ہ سوچتے ہیں وہ سب کو معلوم ہو جاتا ہے‘ ایسے بھی محسوس ہوتا ہے کہ ان کے خیالات ان کے نہیں ہیں جبکہ دوسروں کے خیالات پر یہ شبہ ہوتا ہے کہ یہ تو میرے خیالات ہیں، اس شخص کو کیسے معلوم ہو گئے۔

جذبات اور ہیجانات انسانی جسم پر براہِ راست اثر انداز ہوتے ہیں ۔ اسی طرح بہت سے ذہنی و جذباتی عوامل انسانی جسم کو متاثر کرتے ہیںجن میں بہت زیادہ فکر مندی و تشویش سے معدے کا السر ،خوف و صدمہ کی وجہ سے کمزور ی و غشی ،ذہنی تناؤ کے سبب سردرد ، بہت زیادہ پریشانیوں سے انسان کی جنسی صلاحیتوں پر منفی اثرات، بہت زیادہ غصے میں ہائی بلڈ پریشر کا عارضہ ، بہت زیادہ فکر مند ی کی وجہ سے جِلد پر جھریاں اور بال وقت سے پہلے سفید ہو جانا اور نظام ہضم کے بگاڑ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ چند ایک مثالیں ہیں ورنہ انسان کے ذہنی و جذباتی عوامل اس کے جسم پر اثر انداز ہو کر بہت سے پیچیدہ ذہنی ، جسمانی و نفسیاتی امراض پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔

ایسے افراد جو تھوڑی سی بیماری سے بہت زیادہ پریشان ہو کر اس بیماری کو ذہن پر مسلط کر لیتے ہیں وہ دیر سے صحت مند ہوتے ہیں جبکہ ایسے افراد جو بیماری کو اپنے اوپر سوار نہیں ہونے دیتے وہ بہت جلد یا کئی بار بغیر کسی دوا کے ہی ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ بیماری کو ذہن پر سوار کرنے سے قوتِ مدافعت کمزور ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے انسانی جسم صحت مندی کی طرف راغب ہونے میں دیر لگا دیتا ہے جبکہ بیماری کو مسلط نہ کیا جائے تو قوتِ مدافعت مستحکم رہتی ہے اور بیمار جسم جلد ٹھیک ہو جاتا ہے۔

ذہنی و نفسیاتی صحت برقرار رکھنے کے چند رہنما اصول
24 گھنٹوں کے دوران 8گھنٹے کی نیند لازمی لیں تاکہ دن بھر کی تھکاوٹ دْور ہو سکے اور جسم و دماغ کھوئی ہوئی توانائی بحال کر لیں،کھانا آرام و سکون سے کھائیں، غصہ، حسد اور کینہ جیسی منفی عادات سے احتراز برتیں، غصے کے دوران ہمیشہ ضبط سے کام لیں، لوگوں سے ہمیشہ خوش اسلوبی سے ملیں اور چھوٹی موٹی باتوں کو درگزر کریں۔

ہر بات کو اپنے ذہن پر سوار مت کریں، اگر کوئی ناموافق بات سنیں یا نظر آئے تو اسے بھلانے کی کوشش کریں، چھوٹوں سے پیار و محبت اور بڑے افراد کا ادب کریں، لالچ ، حرص و ہوس سے گریز کریں، ہر قسم کے نشہ سے دور رہیں ،احساسِ کمتری کو کبھی اپنے اْوپر غالب نہ آنے دیں اور مراقبہ یعنی خاموشی و یکسوئی سے ارتکاز اور ورزش کی عادت ڈالیں جو ذہنی و جسمانی صحت کیلئے اکسیر کی حیثیت رکھتے ہیں۔

پاکستان میں ذہنی امراض کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان میں ذہنی صحت کے حوالے سے شہریوں کی صورتحال اچھی نہیں ہے اور ملک میں ڈپریشن کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اسی وجہ سے ملک میں خود کشیوں کی شرح بھی بڑھ رہی ہے ۔ ملک میں جاری دہشت گردی، بد امنی، خود کش بم دھماکے، غربت، بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ اورخاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ کے علاوہ بے یقینی اور عدم تحفط کا بڑھتا ہوا احساس لوگوں میں اضطراب، بے چینی، چڑچڑاپن، غصہ اور ذہنی دباؤ پیدا کرنے کا باعث بنتا جا رہا ہے جو کہ ان کی جسمانی ، ذہنی و نفسیاتی صحت کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ یاد رکھیں کہ زندگی گزارنے کے لیے ہمیشہ پر اْمید اور مثبت انداز اختیار کریں۔ واہمے اور نااْمیدی انسان کو کمزور کر دیتی ہے اور کمزور انسان بیماریوں کا گڑھ بن جاتا ہے ۔ یہ حالت مسلسل رہے تو آخر کار انسان ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو کر نہ صرف اپنی بلکہ اپنے پیاروں کی زندگی کیلئے بھی روگ بن جاتا ہے۔

ایک صحت مند جسم کے لیے صحت مند ذہن کا ہونا ضروری ہے۔ ایسی بے شمار بیماریاں جیسے سردرد‘ حافظے کی کمزوری‘ ذہنی تھکن‘ بصارت کی کمزوری‘ ہکلانے کی عادت‘ ذہنی تناؤ و دباؤ‘ احساسِ کمتری یا اس طرح کی دیگر بیماریاں جو کہ ذہنی و نفسیاتی ہوتی ہیں لیکن ان کی طرف سے لاپرواہی برتی جاتی ہے جو کہ بعد ازاںجسمانی عوارض کا باعث بن کر کئی پیچیدگیاں پیدا کر سکتی ہیں۔ اس لیے اگر ایسے امراض کا علاج کرنے کے لیے منفی نفسیاتی عناصر کا تدارک کیا جائے تو جسمانی بیماریاں خود بخود دْور ہونے لگتی ہیں۔

پاکستان میں عمومی طور پر لاحق ہونے والے ذہنی و نفسیاتی امراض میںانگزائیٹی ،فکر، تشویش‘ اعصابی دباؤ‘ احساسِ کمتری‘ اعصاب زدگی‘ الزائیمر‘ تنہائی پسندی، بے خوابی وکم خوابی، بسیار خوابی و خراٹے لینا ، نیند کے دوران سانس کا رکنا، پاگل پن، پارکنسن ڈیزیز،رعشہ‘ حسد، حافظہ کی کمزوری، خوف کا فوبیا، خود اعتمادی کا فقدان، خیالات کا تسلط اور تکرارِ عمل ، ڈپریشن ،افسردگی ، ذہنی اضمحلال، بائی پولر ڈس آرڈر، ذہنی تناؤ اور دباؤ، سردرد اور دردِ شقیقہ، شیزوفرینیا، فرسٹریشن ، احساسِ محرومی، فالج و لقوہ، مرگی، وہم اور ہسٹیریا وغیرہ شامل ہیں۔

یہ چند ایک بیماریاں ہیں جن کے متعلق عموماً معاشرے میں جنوں کے سایہ کی باتیں کی جاتی ہیں حالانکہ یہ مکمل طور پر ذہنی و نفسیاتی عوارض ہیں ۔ بس شرط یہ ہے کہ ان کی طرف دھیان دیا جائے اور ان کا مکمل علاج معالجہ کرایا جائے تو یہ افراد بھی معاشرے کے دیگر صحتمند افراد کی طرح بہتر ،خوشحال، قابلِ تکریم اور پُروقار زندگی بسر کر سکتے ہیں۔

پروفیسر اعجاز ترین…دماغی صحت کے شعبہ میں ان کی خدمات غیر معمولی رہیں
ڈاکٹر مقصود احمد( سینئر سائیکاٹرسٹ و میڈیکل ڈائریکٹرسگنٹ ہیلتھ کیئر یو۔کے)
10 اکتوبر کا دن گزشتہ 23سال سے عالمی فیڈریشن برائے مینٹل ہیلتھ ، عالمی ادارہ برائے صحت کے زیر اہتمام دنیا کے تمام ممالک میں ہر سال دماغی صحت کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔

اس دن کے لیے ہر سال کوئی نہ کوئی نیا موضوع طے کردیا جاتا ہے جس کا تعلق دماغی صحت سے ہوتا ہے اور اس نسبت سے دنیا بھر کے اخبارات اور رسالوں میں مضامین لکھے جاتے ہیں اور کانفرنسیں منعقد کی جاتی ہیں۔ 2015ء کے لیے ’’دماغی صحت میں عزت و وقار‘‘ کو موضوع بحث بنایا جائے گا۔ اسی مناسبت سے ایک زندہ و جاوید عہد ساز پاکستانی شخصیت کا ذکر کرنا ضروری ہے جس نے اپنی تمام عمر اس کام کے لیے وقف کر رکھی ہے۔

اس شخصیت کو 2009ء میں ’’ پاکستان سائیکاٹرک سوسائٹی‘‘ کے زیر اہتمام اس وقت سوسائٹی کے صدر اوربین الاقوامی شہرت یافتہ سائیکاٹرسٹ مرحوم پروفیسر ہارون رشید چوہدری نے دماغی صحت کے میدان میں خدمات کے اعتراف میں ’’لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ‘‘ عطا کیا تھا۔ گزشتہ سال’’ برٹش پاکستانی سائیکاٹرسٹس ایسوسی ایشن‘‘ نے انہیں ایسا ہی ایوارڈ عطا کیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل میو ہسپتال لاہور میں نفسیاتی و دماغی امراض کے شعبہ میں تعلیم و تدریس کے لیے وقف ہال کو ان کی اس شعبہ میں خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ان سے نام منسوب کردیا گیا جوکہ اب ’’ترین ہال‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ شخصیت میرے اور میرے جیسے بے شمار شاگردوں کے استاد محترم پروفیسر اعجاز ترین صاحب ہیں۔

تقریباً چالیس سال پہلے پروفیسر اعجاز ترین کو قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس کے طالب علم کی حیثیت سے زیر تعلیم تھا اور وہ اس کالج میں ایک استاد اور میو ہسپتال لاہور میں ایک کنسلٹنٹ سائیکاٹرسٹ کی حیثیت سے اپنے فرائض ادا کررہے تھے۔ کئی دہائیاں پہلے قائم ہونے والا استاد شاگرد کا یہ تعلق نہ صرف آج تک قائم ہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ مزید گہرا اور مضبوط ہوتا چلا گیا ہے۔ پاکستان میں نفسیاتی اور دماغی امراض کے علاج کیلئے ان کی خدمات غیر معمولی ہیں۔ خدمت خلق کی خواہش نامساعد حالات کے باوجود غریب میڈیکل طلباء کے لیے کالج میں لینڈنگ لائبریری کے قیام کا باعث بنی۔ کالج کے ادبی رسالہ ’’ کیمکول‘‘ میں ان کے متعلق ایک مضمون ”Service before self” کے عنوان سے شائع ہوا۔

میڈیکل کی ڈگری کے حصول کے بعد کچھ عرصہ میو ہسپتال لاہور اور چند سال لیبیا میں خدمات سرانجام دینے کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے جہاں اللہ تعالیٰ نے انہیں کنسلٹنٹ کی نوکری بھی عطا کردی ۔ خدائے بزرگ و برتر نے ان سے وطن عزیز پاکستان میں ایک بڑا کام لینا تھا ۔ وہ کام پاکستان میں سائیکاٹرک پریکٹس کو ایک نئی جہت عطا کرنا تھا جس کا محور اور مرکزی نقطہ ذہنی امراض میں مبتلا بے بس ذہنی مریض اور ان کے ساتھ روا رکھا جانے والا تحقیر آمیز سلوک تھا۔ پروفیسر اعجاز ترین نے ان مریضوں سے چھینی گئی عزت و تکریم بحال کرنے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا ۔ اس اعتبار سے ان کا کردار اٹھارہویں صدی عیسوی میں انگلستان میں شہرت پانے والے ولیم ٹیوک (William Tuke) ، فرانس کے فلپ پِنل (Philippe Pinal) اور امریکا کے بنجمن رُوش (Benjamin Rush) جیسا دکھائی دیتا ہے۔

ستر کی دہائی میں پاکستان آنے کے بعد ان کی خدمات کا سفر بہاولپور سے شروع ہوا جہاں انہوں نے سائیکاٹری ڈیپارٹمنٹ کی بنیاد رکھی، بعدازاں یہی خدمت ملتان میں سرانجام دی اور بالآخر لاہور میں تعیناتی ہوئی جہاں پر انہوں نے ایک سٹیٹ آف دی آرٹ سائیکاٹری ڈیپارٹمنٹ شروع کرنے کا منصوبہ بنایا اور تمام رکاوٹوں اور دشواریوں کے باوجود اپنی ذاتی جدوجہد اور مسلسل کاوش کے باعث یہ پراجیکٹ مکمل کرنے میں کامیاب ہوگئے، جہاں نہ صرف بالغ عمر ذہنی مریضوں کے لئے علاج معالجہ کی سہولت مہیا کی گئی بلکہ آنے والے وقت کی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نوجوانوں اور عمر رسیدہ مریضوں کے علاج معالجہ کی سہولت کا بھی بندوبست کیا گیا ۔ مریضوں کو مفت ادویات کی فراہمی کا انتظام کرنے کے لیے ’’سوسائٹی برائے بہبودِ مریضاں‘‘ بھی قائم کی گئی۔

مریضوں کے ساتھ ان کی انسانی ہمدردی اور اعلیٰ سلوک کا نتیجہ تھا کہ جب حکومت پاکستان نے افیون کے ٹھیکوں پر اچانک پابندی عائد کردی تو میو ہسپتال لاہور میں ان کی زیر نگرانی شعبۂ امراض منشیات کا قیام عمل میں آیا جو ملک میں اپنی نوعیت کا پہلا اور سب سے بڑا شعبہ تھا، جس میں مہیا سہولیات کی تعریف برطانوی شہزادی ڈیانا نے اپنے دورہ کے دوران انتہائی شاندار الفاظ میں کی۔ آپ نے بحیثیت ڈین ’’سائیکاٹری فیکلٹی کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان‘‘ میں سائیکاٹری پارٹ ون کے علیحدہ نصاب کی ترتیب اور امتحان کے اجراء میں مرکزی کردار ادا کیا۔ سائیکاٹری کے مضمون میں طلباء و طالبات کی رہنمائی کے لیے اپنے تجربہ کو ایک کتاب کی شکل میں مرتب کیا جو کہ’’ Understanding Psychiatry ‘‘کے نام سے شائع ہوئی اور اس کے اب تک کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔

ان کا ایک اور انتہائی قابل ذکر اور گرانقدر کارنامہ 1912ء کے ’’ Lunacy Act ‘‘کی تبدیلی کا بھی ہے جس کے لیے انہوں نے حکومت پاکستان کے ٹیکنیکل ایڈوائزر کے طور پر بھی کام کیا اور بالآخر اس کا حتمی مسودہ مکمل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس عظیم الشان کارنامے کو سرانجام دینے میں انہیں اپنی شریک حیات پروفیسر خالدہ ترین صاحبہ کا بھر پور تعاون میسر رہا جو اس وقت’’ پاکستان سائیکاٹرک سوسائٹی‘‘ کی صدر بھی تھیں۔ 2001ء میں یہ مسودہ مینٹل ہیلتھ آرڈیننس کے نام سے حکومت وقت نے جاری کیا جوکہ بعدازاں’’ مینٹل ہیلتھ لاء‘‘ کی صورت میں نافذ کردیا گیا۔

تقریباً سولہ سال پہلے سرکاری نوکری سے ریٹائر ہونے کے بعد ان کی نفسیاتی اور ذہنی مریضوں کے لیے فری کلینکس کی خدمت پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئیں جو جاری و ساری ہے۔انہوں نے اپنے نام کی تمام جائیداد دماغی اور نفسیاتی امراض کے علاج کے لیے ایک ٹرسٹ کے طور پر وقف کردی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔