دو جریدے، دو شعری مجموعے

رفیع اللہ میاں  منگل 13 اکتوبر 2015
سوشل میڈیا کے کھٹے میٹھے، تند و تیز اسٹیٹسز کے غبار میں اگر کتابوں اور ادبی پرچوں پر بات ہوتی رہے تو غنیمت ہے۔

سوشل میڈیا کے کھٹے میٹھے، تند و تیز اسٹیٹسز کے غبار میں اگر کتابوں اور ادبی پرچوں پر بات ہوتی رہے تو غنیمت ہے۔

استفسار

معاشرے کے سیاسی بیانیوں، اخباروں کے سیاسی کالموں اور سوشل میڈیا کے کھٹے میٹھے، تند و تیز اسٹیٹسز کے غبار میں کتابوں اور ادبی پرچوں پر اگر بات ہوتی رہے تو غنیمت ہے۔ کافی ساری کتابیں منتظر ہیں کہ انہیں پڑھا جائے اور ان پر بات کی جائے لیکن وقت کی تنگی اور دیگر فوری قسم کے کاموں کے درمیان یہ کام ملتوی ہوتا رہتا ہے۔

استفسار کا پانچواں شمارہ آچکا ہے اور جے پور، راجستھان کے اس 112 صفحات کے مختصر ادبی پرچے نے نہ صرف انڈیا بلکہ پاکستان کے ادبی حلقوں میں بھی خوش گوار تاثر پیدا کرلیا ہے۔ صف اول کے جتنے بھی ادبی پرچے ہیں ان کی مجبوری بن چکی ہے کہ وہ اپنے صفحات کی تعداد بڑھاتے جائیں۔ نہ اچھے لکھنے والوں کی کمی ہے نہ مدیران کنجوسی کرنا چاہتے ہیں۔ ویسے بھی ادبی پرچوں کا تواتر بھی 3 ماہ کے سادہ سے وقفے سے کم نہیں ہوتا لہٰذا صفحات کا بڑھایا جانا بھی ضروری محسوس ہوتا ہے۔

شعر و ادب سے شین کاف نظام اور عادل رضا منصوری کی وابستگی ان تمام شعرا و ادبا کے لیے خوش کن ہے جو ہمیشہ اچھے اور معیاری ادبی پرچوں کی طرف دیکھتے ہیں۔ گہرے سرورق پر استفسار کی روشنی ہمیشہ ایک خوش گوار تاثر دل و دماغ پر مرتسم کرتی ہے، اور اس کے مندرجات بقول اردو نظم کے اہم شاعر ابرار احمد ’’بہت قیمتی‘‘ ہیں۔ استفسار کے ہر شمارے میں یاد رفتگاں کا اہم حصہ ہوتا ہے جو ہر بار چونکاتا ہے۔ اس مرتبہ اس حصے میں جدید اردو نظم کے سفر کو ایک نئی معنویت سے ہمکنار کرنے والے شاعر میرا جی کے حوالے سے مواد اس طرح مرتب کیا گیا ہے کہ پڑھتے ہوئے تازگی کی ایک نئی لہر کا احساس ہوتا ہے۔ بھارت کے نوجوان ناول نگار رحمان عباس کے ناول ’’ایک ممنوعہ محبت کی کہانی‘‘ پر تنقیدی مضمون اس شمارے کا ایک اور اہم حصہ ہے، جنہوں نے چند دن پہلے انڈیا میں ادیبوں اور دانشوروں کی ٹارگٹ کلنگ پر سرکاری بے اعتنائی کی وجہ سے سرکاری ایوارڈ ساہتیہ اکیڈمی کو بطور احتجاج واپس کردیا ہے۔

غزل کا حصہ کھولیں تو مدحت الاختر اور عرفان ستار جیسے انڈو پاک کے اہم شعرا جلوہ گر ہیں۔ اختر کے ہاں شعری سماج کی ایک اٹھان ملتی ہے جب کہ عرفان کے ہاں شعری وجدان کی لہک۔ مدحت الاختر کے ہاں اگر معنوی سطح پر جدیدیت کا تاثر ملتا ہے تو عرفان ستار کے ہاں کلاسیکیت کا۔ اس لیے اختر اپنے شعر میں سماج سے معاملہ کرتا ہے اور عرفان اپنے وجدان سے۔ شمارے میں شامل ان کی غزلوں سے ایک ایک شعر کا انتخاب پیش خدمت ہے،

یہ کیا ضرور کہ میری ہی بات مانے گا
خدا ہے سب کا تو پھر اس پہ حق سبھی کا ہے

(مدحت الاختر)

کاسہ ہے ایک فکر سے مجھ میں بھرا ہوا
اور اک پیالہ درد سے لبریز مجھ میں ہے

(عرفان ستار)

ان کے علاوہ بھی رؤف خیر، خالد عبادی، افضال نوید، ہمدم کاشمیری اور افتخار احمد خٹک کی غزلیں بھی شمارے کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ ندا فاضلی جیسے شاعر کے دوہے، خلیل مامون، پروفیسر صادق، ستیہ پال آنند، ڈاکٹر نریش، مصطفیٰ ارباب، عبدالاحد ساز اور فہیم شناس کاظمی کی نظموں کا سحر الگ سے بولتا ہے۔

’’دنیا‘‘
اس پوری دنیا میں
ایک چھوٹی سی
ادھوری دنیا ہماری ہے
ہمیں کوئی احساس محرومی نہیں ہے
ادھوری دنیا
ہمیشہ
ایک مکمل دکھ
تخلیق کرتا ہے

(مصطفیٰ ارباب)

استفسار کے اس شمارے میں عبدالصمد، انجم عثمانی اور محمد حامد سراج کے تین علامتی افسانے بھی شامل ہیں جن کے اندر پڑھوانے کی قوت زیادہ محسوس نہیں ہوتی۔ ادب شناس اور ادب دوست احباب aadilmansoori کی جی میل پر رابطہ کرکے استفسار کی سالانہ ممبرشپ حاصل کرسکتے ہیں۔

آبشار

اردو ادبی جرائد میں ایک طرف اگر ضخیم پرچوں کی آمد جاری ہے تو دوسری طرف سلم اور اسمارٹ پرچوں کی آمد بھی نیک شگون ہی ہے۔ یہ سہہ ماہی آبشار کا پہلا شمارہ ہے جو میانوالی سے چھپا ہے۔ محمد سلیم فواد کندی خاکسار قسم کی شخصیت ہیں اور انہوں نے یہ پہلا پرچہ بڑے جوش و جذبے سے نکالا تاہم اس کڑے امتحان سے گذر کر ہی انہیں حقیقت معلوم ہوئی کہ ادبی پرچوں کا منصہ شہود پر نمودار ہونا ایک عمومی قسم کا واقعہ ہرگز نہیں ہوتا۔ دعا ہے کہ وہ اس قابل قدر سلسلے کو جاری رکھ سکیں اور ادبی شمعیں اسی طرح جلتی اور روشنی دیتی رہیں۔ 128 صفحات کے اس پرچے کے مشمولات بھی قابل ذکر ہیں۔ مضامین میں ڈاکٹر ستیہ پال آنند ایسے بین الاقوامی شاعر نظم اور محمد حمید شاہد ایسے ناقد کی تحریریں موجود ہیں۔ حصہ شعر و شاعری میں نصیر احمد ناصر، ڈاکٹر ستیہ پال آنند، پروین کمار اشک، خلیل مامون، ڈاکٹر ارشد معراج، رفیع اللہ میاں، افضال نوید، نوشی گیلانی، شائستہ مفتی، کے بی فراق اور افسانوں میں محمد حمید شاہد، اقبال حسن آزاد، شائستہ فاخری، شاہین کاظمی اور سیمیں کرن کے افسانے لائق مطالعہ ہیں۔ احباب aabsharkundi کی جی میل آئی ڈی پر رابطہ کرکے اس ادبی پرچے کی سالانہ ممبر شپ حاصل کرکے شعر و ادب کے سلسلے کو زندہ رکھنے میں معاون ہوسکتے ہیں۔

سرمئی دستخط

اردو شاعری کی دنیا میں ایک دن بھی ایسا نہیں گذرتا جو کسی نہ کسی شاعر کے مجموعے کی آمد کی خبر نہ دیتا ہو، لیکن اس دنیا میں بھی کچھ خاص دن گذرتے ہیں جب کچھ خاص شعری مجموعے سامنے آتے ہیں۔ ’’سرمئی دستخط‘‘ خالد ملک ساحل کا مجموعہ کلام ہے۔ آپ اگر کنگن والی شاعری کے دلدادہ ہیں تو آپ کو یہ مجموعہ مطالعہ کرتے ہوئے پریشانی لاحق ہوسکتی ہے۔ تاہم ساحل اردو غزل میں اپنا ایک الگ رنگ رکھتے ہیں جسے غزل کا خوگر نظر انداز کرنا پسند نہیں کرے گا۔ غزل میں اگر قاری کو نئے خیال کی تلاش ہو تو ساحل آج کے ان چند گنے چنے شعرا میں سے ایک ہیں جو شعر گوئی میں ایسے خیال کی تگ و دو میں رہتے ہیں جو اپنی ندرت سے چونکاتے ہوں، ایک عافیت اور امن پسند شاعر جو اپنی وحشت کو بھی دیواروں میں چنوانا پسند کرلیتے ہیں لیکن چند سانسوں کے لیے ذات سے آفاقیت کی طرف سفر کا انتخاب نہیں کرتے، کیوں کہ وہ اپنی پیش قدمی کے دوران فطرت کا بھی کوئی نقصان گوارا نہیں کرتے۔ ساحل تو دشمن کے بارے میں بھی مروجہ جذبات کے برعکس ایک انوکھا جذبہ رکھتے ہیں،

ہم ایک صف میں تھے لیکن یہ کیا ہوا ساحل

میں رزم گاہ سے دشمن بچا کے لایا تھا

ادب آداب اور تہذیبی رچاؤ کی شاعری ہے یہ،

دیکھ ایسے نہ بدتمیزی کر

دیکھ تجھ سے تو کچھ بڑا ہوں میں

دیکھ الجھے ہوئے زمانے میں

اچھے لوگوں کا سلسلہ ہوں میں

یہاں سب اچھا ہی اچھا نہیں ہے، بلکہ کئی ایسے اشعار بھی ہیں جو بہ ظاہر اچھے محسوس ہوتے ہیں مگر خیال کے اعتبار سے گڑ بڑ ہوتے ہیں لیکن میں انہیں مذکور نہیں کرنا چاہتا، یہ کام آپ خود بھی کرسکتے ہیں اور کرنا چاہیے۔ مجھے ان غزلوں میں اسلوب کی واضح جھلک محسوس نہیں ہوئی لیکن پاک و ہند میں اس وقت اردو غزل جس عصری رنگ سے گذر رہی ہے، کئی ابھرتے اور مشہور ہوتے غزل گو شعرا میں ایک نام خالد ملک ساحل کا بھی شامل کیا جاسکتا ہے، جن کے ہاں تازہ کاری کا کم و بیش وہی عالم ہے جو آج کے نمایاں ہونے والے شعرا کے ہاں ہے۔ انہیں پڑھتے ہوئے کبھی ایسا لگتا ہے کہ ان کی غزل مستحسن اخلاقی و معاشرتی اقدار کو نئی زندگی دینے کی تگ و دو کررہی ہو۔ یہ کتاب ملٹی میڈیا افئیرز لاہور نے چھاپی ہے اور رئیر بک شاپ لوئر مال روڈ لاہور پر دستیاب ہے۔ چند اشعار کا انتخاب پیش ہے،

میری عزت ہی میری دولت ہے

میرے بچے! سنبھال کر رکھنا

خود کو اٹھا کے راہ میں رکھا ہے کھول کر

دیکھو تو میری ذات میں غربت نہیں رہی

بن سنور کر جو میں نکلا تو گھٹائیں برسیں

یوں بکھر جاتے ہیں دنیا میں سنوارے ہوئے لوگ

ایک مصرع نہیں ہوا ساحل

ہم نے ہر روز خودکشی کی ہے

دونوں طرف ہے درد کی تصویر جان غم

دیکھا ہے میں سوچ کا سکہ اچھال کر

طلوعِ شام

لیکن شام تو طلوع نہیں ہوتی، اُترتی ہے۔ اس تضاد نے لفظ طلوع کو استعارہ بنادیا ہے۔ استعارہ بننے کے بعد بھی شام کے طلوع ہونے میں جو فکری اُٹھان در آتی ہے وہ خیال کی سطح پر اس پوری شاعری میں دکھائی نہیں دیتی۔ اپنے عنوان کے برعکس شام کا مضمون شاعر پر اس طرح اترتا ہے کہ اس کی شعری کائنات میں دھیما پن لے آتا ہے۔ خیال کی لو اور دھیمی ہوجاتی ہے۔ احمد رضوان نے اچھی شاعری کی ہے اور یہ شاعری پڑھے جانے کے لائق ہے۔ ایک غزل کے یہ دو شعر دیکھئے،

مجھ سا دیوانہ کوئی ہے جو ترے نام کے ساتھ

رقص کرتا ہوا بازار میں آجاتا ہے

میں کبھی خود کو اگر ڈھوندنا چاہوں احمد

دوسرا معرض اظہار میں آجاتا ہے

اگرچہ احمد رضوان کو شام زیادہ عزیز ہے لیکن یہ غزل اس سے کہیں زیادہ خواب کے استعارے سے قریب ہے اور ایسے خواب سے جو ابھی کسی اعلیٰ تخیل سے ہم آغوش نہیں ہوا اور صرف کسی نامعلوم تعبیر کی پیاس کا اسیر ہے۔ خواب کی تشکیل ذاتی حوالوں سے گزر کر جہاں گیری کے تصور سے ہم کنار ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ خواب کا اتنا زرخیز استعارہ رضوان کے ہاں معنوی سطح پر اتنا محدود کیوں ہے، اس سوال سے صرف نظر کرنا مناسب نہیں، کہ اکثر غزلوں میں یہ بطور مطلع نمودار ہوا ہے۔ تاہم خواب سے تہی دامانی کا معاملہ ایسا ہے کہ اسے سماجی المیے سے ضرور جوڑا جاسکتا ہے۔ بہرحال رضوان کی شاعری ایسی ضرور ہے کہ پڑھی جائے۔ یہ شاعری کی سینکڑوں کتابوں میں اپنا امتیاز قائم کرتی ہے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ’’طلوع شام‘‘ میں احمد رضوان نے صبح سے لے کر شام تک ایک پوری شعری زندگی گزاری ہے جس کے اختتام پر رات کھڑی ہے، دن، شام اور رات، یہ ہے احمد رضوان کی شعری کائنات۔ ملاحظہ ہو یہ شعر،

ختم ہوجائے گی جہاں یہ رات

ختم ہوجائے گا عذاب تمام

مجھے امید ہے کہ اس رات کا اختتام اس مجموعے کے ساتھ ہوچکا ہے اور اب اس کے شاعر کو نئے دن کے طلوع پر نئی سوچ اور نئی فکر کا اکتساب کرنا چاہیے۔

طلوعِ شام کی غزلوں کو پڑھتے ہوئے آپ کو تخیل کی تازگی ملے گی۔ اس میں گہرائی کی بجائے سادگی ہے۔ گہرائی سے تہ داری نمود کرتی ہے اور سادگی سے محض اظہار کا حسن مطلوب ہوتا ہے لیکن اس سے اسلوب کی تشکیل مشکل تر ہوجاتی ہے۔ کبھی کبھی تازہ خیال کی سادہ شاعری بھی تازگی سے خالی، سادہ روایتی شاعری کے ذیل میں چلی جاتی ہے۔ اس لیے خیال کی تازگی کے ساتھ معنوی تہ داری شامل ہو تو شاعری کی عمر دراز ہوجاتی ہے۔ احمد رضوان کی شاعری کلاسیکی شعریت سے پاک ہے۔ یہ کتاب برصغیر پبلی کیشنز، شاہین مارکیٹ ملتان نے چھاپی ہے۔ کتاب کے حصول کے لیے اس نمبر 03336196866 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ ایک مختصر انتخاب آپ کی نذر،

ایک بجھتا ہے کوئی دوسرا جل اٹھتا ہے

آگ کو اپنے شرارے نہیں سونے دیتے

میں خود ہی آگ لگاتا ہوں اپنے چار طرف

پھر اپنے واسطے جائے پناہ دیکھتا ہوں

بہت سے لوگ ہیں جو بول بھی نہیں سکتے

میں اپنے آپ کو اظہار تک تو لے آیا

مدت کے بعد نیند ملی اور اپنے پاس

اک شب گزارنے کے لیے خواب بھی نہیں

جہاں میں تھا وہاں سورج ابھرتا تھا برابر

کسی نے روشنی کا راستہ روکا ہوا تھا

چھاؤں دیتے ہیں جو صحرا میں کسی کو احمد

دل مرا ایسے درختوں کو ولی بولتا ہے

اب وہاں اور لوگ رہتے ہیں

پہلے رہتے تھے جس مکان میں ہم

جب بھی کہیں حساب کیا زندگی کا دوست

پہلے تمھارے نام کا حصہ الگ کیا

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

Rafi Allah Mian

رفیع اللہ میاں

ادیب و شاعر اور پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں۔ گزشتہ دس سال سے صحافت سے وابستہ ہیں اور ادبی میگزینز میں تنقیدی مضامین لکھتے ہیں۔ روزنامہ ایکسپریس میں کالمز کے ساتھ ساتھ بلاگز بھی لکھ رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔