لاہور کا ایک شریفانہ الیکشن

عبدالقادر حسن  منگل 13 اکتوبر 2015
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

کسی ایسے بڑے یا چھوٹے واقعہ پر لکھنا جو آپ نے صرف ٹی وی پر دیکھا ہو ہر گز مناسب نہیں ہے۔ کیمرہ عجیب و غریب تماشے دکھاتا ہے اور دیکھنے والوں کو کہیں سے کہیں لے جاتا ہے ۔گزشتہ اتوار والا الیکشن  میں نے بھی صرف ٹی وی پر دیکھا اور جب پتہ چلا کہ فوج اس الیکشن کی نگرانی کر رہی ہے تو الیکشن کا سارا مزا کرکرا ہو گیا۔ وہ الیکشن کیا جو حزب مخالف کے گلوگیر نہ ہو اور مخالف کی آنکھیں باہر نکلتی دکھائی نہ دیں۔

شہر ہو لاہور کا علاوہ زندہ دلی کے فتنہ و فساد میں مشہور و معروف اور اس شہر میں کہیں الیکشن ہو رہا ہو اور یہ الیکشن چپ چاپ مٹھائیاں کھاتے گزر جائے اور دنگا و فساد اگر کہیں ہو بھی تو بڑے ہی شائستہ انداز میں یعنی فوجی منظوری کے مطابق۔ ایسا الیکشن میاں صاحبان ایسے کاروباری لوگوں یا عمران خان جیسے کھلاڑی کے درمیان ہو تو ہوتا رہے ہم لاہوریوں کو ایسے پابندیوں اور شرافت کے مارے بے جان اور پھس پھسے الیکشن سے کوئی سروکار نہیں۔

الیکشن کے شروع ہونے کے بعد کچھ وقت کے لیے صرف ووٹر ہی دکھائی دیے اور ان کے نشان زدہ انگوٹھے تو ادھر ادھر سے پوچھا کہ یہ الیکشن ہو رہا ہے یا ابھی اس کی مشق ہو رہی ہے تو معلوم ہوا کہ ہے تو اصلی الیکشن لیکن ضرب عضب والی فوج نے ایک نگاہ اس کے لیے بھی مخصوص کر دی ہے کہ یہ سیاسی دہشت گرد کہیں خطرہ نہ بن جائیں چنانچہ الیکشن کے ووٹر اور اس میں شریک پارٹیوں کے نمائندے نہایت شریف بن کر اس سیاسی عمل میں مصروف رہے۔ شرافت کا دور دورہ رہا۔ بعض مقامات پر عادت سے مجبور ہو کر لاہوریوں نے زندہ دلی کا ثبوت دینا چاہا لیکن جلد ہی فوج نے ان کو سنبھال لیا اور الیکشن کو راحیل شریف بنا دیا۔

پاکستان کے مرکزی سیاسی شہر لاہور میں الیکشن ایک بہت بڑا معرکہ سمجھا جاتا ہے اور لاہور کے مزاج کے مطابق اس کا پرامن رہنا اچھا نہیں سمجھا جاتا کیونکہ اس کے پیچھے کچھ خطرہ پوشیدہ ہوتا ہے اور بعض عناصر اسے پرامن رکھنے میں سرگرم ہوتے ہیں جو بذات خود خطرناک ہوتے ہیں امن کے ذمے دار ان پر نظر رکھتے ہیں۔

کیونکہ لاہور کی بدامنی بذات خود ایک خطرناک واقعہ سمجھا جاتا ہے اس بار بھی دہشت گردوں سے تنگ آئی ہوئی ہماری فوج نے اس لاہوری جلسے کو پرامن بنا دیا ہے۔ جب یہ اعلان ہونے لگا کہ الیکشن ختم ہونے میں اب اتنے گھنٹے باقی رہ گئے ہیں تو اہل لاہور نے سکھ کا سانس لیا لیکن شہر کے اندر اس الیکشن میں حاضری کم رہی اس کی وجہ شاید بدامنی کا خطرہ ہو سکتا ہے کیونکہ اب سیاسی سرگرمیاں نظریاتی نہیں رہیں اور شہری ان میں رسماً حصہ لیتے ہیں۔

پاکستان اور اس کا شہر لاہورجمہوریت کی پیداوار ہیں۔ پاکستان جمہوریت کے نام پر بنایا گیا اور متحدہ ہندوستان سے کچھ لوگ الگ ہو کر پاکستان کے شہری بن گئے۔ تحریک پاکستان کے قائد حضرت قائداعظم کی زندگی کی جدوجہد دیکھیں تو وہ جمہوریت کی جدوجہد ہے۔ قائد نے جو جمہوریت کے سچے قائل تھے جانتے تھے کہ برصغیر کے مسلمانوں کی بقا ان کی ایک آزاد اور جمہوری ریاست میں ہے۔ قائداعظم تو یہاں تک فرماتے تھے کہ اگر اس خطے میں مسلمانوں کا ایک الگ اور آزاد ملک نہ بنا تو ہندو اکثریت اسے کھا جائے گی بلکہ قتل کر دے گی۔ آپ نے چند دن پہلے سنا کہ گائے کا گوشت کھانے پر ایک مسلمان کو قتل کر دیا گیا۔ہندواتوا میں کسی غیر ہندو کو قتل کردینا کار ثواب ہے اور اگر وہ مسلمان ہو تو اس کا ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔

پاکستان کی جمہوری اساس مسلمانوں کا کارنامہ ہے کیونکہ اس خطے میں کسی نئے جمہوری ملک کا قیام ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ یہ تو قائداعظم کی سیاسی قیادت تھی اور اس خطے کے مسلمانوں کا ان کی قیادت پر اعتماد تھا کہ وہ پاکستان بنانے میں کامیاب ہو گئے۔

یہ ایک الگ موضوع ہے کہ اب اسی پاکستان سے جان چھڑانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ان کوششوں کے راستے میں بھی تحریک پاکستان کے جان لیوا ڈٹ کر کھڑے ہیں اسے زندگی اور موت کا مسئلہ بنائے ہوئے ہیں، ایک واقعہ ہے کہ اگر یہ پاکستان کمزور ہو جائے تو دلی سے جو مبارک بادیں موصول ہوں گی وہ الگ ہیں لیکن اسی کمزور پاکستان نے دلی کے لیے بم بھی بنا لیا ہے جس کی ہر روز پالش ہوتی رہتی ہے تاکہ ہمارے دوست اسے بھول نہ جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔