چند اسبابِ زوالِ سلطنتِ مغلیہ

وسعت اللہ خان  منگل 13 اکتوبر 2015

دنیا بھر کی سیاسی و غیر سیاسی تنظیموں میں اندرونی گروہ بندی ، رسہ کشی ، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششیں کوئی غیر معمولی بات نہیں۔طبیعت کا میلان ، ذاتی مسائل، نفسیاتی فرق، ایک ہی معاملے پر مختلف زاویہِ نگاہ اختلاف کو بھی جنم دیتا ہے اور اتفاق بھی پیدا کرتا ہے۔

لیکن برسرِ اقتدار گروہوں اور اداروں سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ چونکہ نازک ریاستی معاملات کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے اس لیے وہ ذاتی پسند و ناپسند اور باہمی اختلافات کو اپنے سرکاری فرائض کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیں گے۔اندر خانے کیسی بھی سر پھٹول ہو اسے باہر نہیں آنے دیں گے اور بطور حکومت یک آواز ہوں گے۔بصورتِ دیگر چوک میں ایک دوسرے کے کپڑے دھونے سے نہ صرف حکومتی رٹ کو بٹہ لگ جاتا ہے بلکہ گڈ گورنننس کے حصول کی رہی سہی کوششیں بھی غارت ہو جاتی ہیں۔تاک میں بیٹھے مخالفین کے لیے اس سے اچھی خبر کیا ہوسکتی ہے کہ سرکاری کچن میں سے طوائف الملوکی کا دھواں اٹھے اور وہ روشندان سے اڑ کے باہر آنے والی چنگاریوں کو آگ میں بدلنے کی کوشش کریں۔

اس لمبے بھاشن کا پس منظر یہ ہے کہ پچھلے ڈھائی برس کے دوران نواز شریف حکومت ایک کے بعد ایک بحران سے گذر رہی ہے۔دہشت گردی ، دھرنا ، افغانستان ، بھارت ، بلوچستان ، کراچی ، سول ملٹری تعلقات کا ٹھنڈا گرم ، نجکاری و کرپشن اسکینڈلز ، احتساب ، معاشی اتار چڑھاؤ وغیرہ وغیرہ اور پھر ان بحرانوں کے درمیان میں سے وہ پگڈنڈی بھی گذرتی ہے جس پے چلتے ہوئے ڈگمگائے بغیر اگر کلی نہیں تو جزوی طور سے وہ وعدے بھی نبھانے ہیں جو دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات سے پہلے یا بعد میں حقیقت پسندی کے ساتھ یا جوشِ خطابت میں بہتے ہوئے کر لیے گئے۔

جیسے یہ وعدہ کہ موجودہ مدتِ اقتدار کے خاتمے سے پہلے پہلے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو جائے گا۔پاک چائنا اکنامک کاریڈور کا پہلا مرحلہ مکمل ہوجائے گا۔ملک میں امن و امان کا گراف گذشتہ دورِ حکومت کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہوگا تاکہ غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے فضا سازگار ہوسکے۔برآمدات کا ہدف بڑھایا جائے گا ، ٹیکس نیٹ میں توسیع کرکے اقتصادی خسارے پر قابو پایا جائے گا اور ان اقدامات کے نتیجے میں روزگار کے مواقع پہلے سے زیادہ ہو جائیں گے۔

اگرچہ موجودہ حکومت کے اخلاص پر شبہے کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں لیکن زمینی حقائق بہت بے مروت ہیں۔ پانچ میں سے ڈھائی برس گذر چکے۔اس مدت کے دوران منتخب سیاسی حکومتوں کا اختیاراتی سپیس بڑھنے یا جوں کا توں رہنے کے بجائے اور کم ہو گیا۔حزبِ اختلاف کی جانب سے انصافی دھرنے کے زمانے میں جو اجتماعی جذبہِ خیرسگالی نصیب ہوا تھا وہ رفتہ رفتہ سرد ہوتا چلا گیا۔ دہشت گردی اور امن و امان کے معاملات کس طرح اور کون ہینڈل کرے ، خارجہ پالیسی کا ایک قبلہ کیسے متعین رہے اور کرپشن کے اژدھے کو سر سے پکڑا جائے کہ دم سے اور نظامِ انصاف کو کیسے جدید ، فعال اور عوام دوست بنایا جائے۔ان مسائل کی بابت سول ملٹری حکمتِ عملی میں تال میل نظر نہیں آ رہا۔

اکثر محسوس ہوتا ہے کہ کلیدی ملکی مسائل کے حل کی عملی سمری کہیں اور تیار ہوتی ہے اور اس سمری کو دوسرا فریق بادلِ نخواستہ اپنی پالیسی کہتے ہوئے قبول کرلیتا ہے۔ صرف اس تکرار سے تو کام نہیں چلا کرتا کہ مقتدر ادارے ایک پیج پر ہیں جب تک خود مقتدر اداروں کے دل و دماغ ایک پیج پر نہ ہوں۔اگر ایک ادارہ مسلسل کمزور فیصلہ سازی اور عدم تحفظ کے محاصرے میں ہو اور دوسرا ادارہ غیر اعلانیہ خودمختاری پر عمل پیرا ہو تو ریاست کی گاڑی چلے گی تو ضرور مگر اتنی ہی جتنی ایک چھوٹے اور ایک بڑے پہئیے کے ساتھ گھسٹتی ہے۔

لیکن اس سے بھی بڑا مسئلہ نواز حکومت کو خود اپنے سے لاحق ہے۔جب سول حکومت ہی اندر سے ایک پیج پر نہ ہو تو وہ دیگر اداروں کے ساتھ کیسے ایک پیج پر ہوسکتی ہے۔

مثلاً وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان اور شریف برادران کیا ایک پیج پر ہیں ؟

اگر پلاننگ کمیشن کے سربراہ احسن اقبال پاک چائنا اکنامک کاریڈور منصوبے پر عمل درآمد کے نگراں ہیں تو پھر شہباز شریف اس بابت چینی حکومت کے ساتھ رابطہ کاری میں لیڈ رول کیوں ادا کررہے ہیں ؟ اگر پانی و بجلی کو دیکھنے کی ذمے داری وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف کی ہے تو پھر ان کے وزیرِ مملکت عابد شیر علی اور خواجہ صاحب کی اپنی اپنی ڈفلی کیوں ہے ؟ انرجی سیکٹر کے منصوبوں کی نگرانی میں پٹرولیم اور پانی و بجلی کی وزارتوں کا کتنا کردار ہے اور سلمان شہباز کا اختیار کیا اور کس برتے پر ہے ؟ پاکستان میں چینی اور ترک سرمایہ کاری کو دراصل کون دیکھ رہا ہے ؟ پلاننگ کمیشن یا پلاننگ کمیشن سے باہر بیٹھی کچن کابینہ ؟

کیا وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار اور شہباز شریف تاجروں کے مسائل اور بینک ٹرانزیکشن پر ود ہولڈنگ ٹیکس جیسے معاملات پر ایک پیج پر ہیں ؟ اسحاق ڈار اور شہباز شریف کی آپس میں بنے نہ بنے مگر ان دونوں کی خواجہ محمد آصف اور وزیرِ توانائی شاہد خاقان عباسی سے کس قدر چھنتی ہے ؟

خواجہ آصف اور شاہد خاقان عباسی آخر احسن اقبال کے اتنے خلاف کیوں ہیں کہ انھوں نے بھرے سیمینار میں یہ کہہ دیا کہ پلاننگ کمیشن سرکاری اہداف اور ملکی ترقیاتی مفادات کے خلاف اور اپنے خود ساختہ اہداف پر کام کررہا ہے لہٰذا ملک کو آگے بڑھانا ہے تو پلاننگ کمیشن ہی ختم کردیا جائے۔اس کے علاوہ بقول ان کے دو ریگولیٹری ادارے اوگرا اور نیپرا بھی سرکاری اہداف کے حصول میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔( اوگرا کا قصور یہ ہے کہ اس نے قطر سے مائع گیس کی درآمد کی اربوں روپے کی ڈیل پر کچھ تکنیکی انگشت نمائی کی اور نیپرا کا قصور یہ ہے کہ اس نے بجلی کے سیکٹر میں ہوشربا بد انتظامی ، بد عنوانی اور فرضی بلنگ کے مسائل پر توجہ دلائی )۔

پلاننگ کمیشن کے نگراں احسن اقبال نے جواب آں غزل یہ دیا کہ دراصل ’’ کچھ وزرا ’’ کو ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی سے تکلیف ہے مگر پلاننگ کمیشن کا کام ہے کہ وہ من مانی و بدانتظامی روکنے کے لیے ان منصوبوں کی اسکروٹنی کرتا رہے۔

سوال یہ ہے کہ خود میاں صاحب کس ادھیڑ بن میں ہیں ؟ ان کا اپنے وزرا پر کتنا کنٹرول ہے ؟ سیلف ڈسپلن اور باز پرس کا اندرونی نظام کتنا کارگر ہے اور وزرا کے درمیان اختیارات کی تقسیم کتنی واضح ہے اور پھر کارِ سرکار میں شریف خاندان کا رسمی و غیر رسمی کردار کیا ہے ؟ جب تک ان سوالات کا شفاف جواب نہیں ملے گا تو دھند کیسے چھٹے گی ؟ گڈ گورننس کتنی قائم ہو پائے گی اور عوام سے جو وعدے کیے گئے وہ کس قدر پورے ہوں گے ؟ کابینہ کے اندرونی حالات و باہمی تعلقات کے تناظر میں یوں لگ رہا ہے گویا بے بس وزیرِ اعظم مینڈکوں کو ترازو میں تولنے کی کوشش کررہے ہیں۔جب گھر میں رٹ نہیں چلے گی تو گھر سے باہر کتنی رٹ چلے گی۔اور وہ بھی ایسا گھر جس کے چاروں طرف بھانت بھانت کے مگر مچھ گردن ڈالے چوکنا پڑے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔