پاکستان میں صحت عامہ کی صورت حال

شکیل فاروقی  منگل 13 اکتوبر 2015
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

دنیا کی تمام نعمتوں میں صحت سب سے بڑی نعمت ہے۔ بقول شاعر:

تنگ دستی اگر نہ ہو سالک
تندرستی ہزار نعمت ہے

اس کا اندازہ وہ لوگ بخوبی کرسکتے ہیں جو خدانخواستہ اللہ تعالیٰ کی اس سب سے بڑی نعمت سے محروم ہیں۔ انگریزی کی ایک مشہور کہاوت A healthy mind in a healthy body اس حقیقت پر مہرثبوت ثبت کرتی ہے کہ صحت مند ذہن کے لیے تندرست جسم بھی شرط اول کا درجہ رکھتا ہے۔ سمجھدار لوگ وہ ہیں جو اپنی صحت کا ہمیشہ خیال رکھتے ہیں اور جو زندگی کے اس اہم ترین پہلوکی جانب غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں، انھیں بعد میں بہت پچھتانا پڑتا ہے۔اگر صحت کی گاڑی ایک مرتبہ پٹڑی سے اتر جائے تو اس کا دوبارہ پٹڑی پر چڑھنا بہت مشکل ہوتا ہے اور متاثرہ شخص کے پاس یہ کہنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ:

اب پچھتاوت کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
اس موقعے پر ہمیں صحت کی اہمیت کے حوالے سے یہ دعائیہ شعر بھی یاد آرہا ہے:

جتنے سخن ہیں‘ سب میں یہی سخن درست
اللہ آبرو سے رکھے‘ اور تندرست

نہایت افسوس کی بات ہے کہ ہمارے یہاں حفظان صحت کے اصولوں کا ذرا بھی خیال نہیں رکھا جاتا جس کا سب سے زیادہ فقدان بازاری ہوٹلوں اور ریستورانوں میں کھلے عام نظر آتا ہے۔ ان میں صفائی ستھرائی کا ناقص نظام کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اب تو بڑے بڑے نامی گرامی فوڈ چینز(Food Chains) کے باورچی خانوں کا بھی یہی حال ہے۔

جہاں کیڑوں مکوڑوں اور دیگر حشرات الارض کی موجودگی بالکل آزادانہ اور بلاروک ٹوک ہے۔ دوسری جانب غیر معیاری گھی، کوکنگ آئل، ناقص کیچ اپ اور مضرصحت ناقص مصالحہ جات کے استعمال کا معاملہ بھی عوام کے سامنے آچکا ہے۔ ان ہوٹلوں اور ریستورانوں کے ملازمین کی صحت کے بنیادی اصولوں سے ناواقفیت اور عدم دلچسپی بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔

تاہم پنجاب فوڈ اتھارٹی کا اس معاملے میں متحرک نظر آنا یقینا ایک خوش آئند اور لائق تحسین بات ہے جس نے گزشتہ دنوں پبلک ہوٹلوں اور ریستورانوں پر پے درپے چھاپے مار کر جرمانے بھی عائد کیے اور بعض ہوٹلوں اور ریستورانوں کو سیل (Seal) بھی کیا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ حفظان صحت کے اصولوں کی خلاف ورزی کرنے والے پبلک ہوٹلوں اور ریستورانوں کے خلاف صوبہ پنجاب میں فوڈ اتھارٹی کی ان قانونی کارروائیوں کا سلسلہ نہ صرف آیندہ بھی اسی طرح جاری و ساری رہے گا بلکہ دیگر صوبوں کے متعلقہ ادارے بھی اس راست اقدام کی پیروی کرتے ہوئے دکھائی دیں گے۔

پبلک ہوٹلوں اور ریستورانوں کے علاوہ قصابوں اور مٹھائی کی دکانوں اور خوانچہ فروشوں کے خوانچوں پر بھی اکثر اوقات مکھیاں بھنکتی ہوئی نظر آتی ہیں جب کہ دودھ فروشوں کے برتنوں میں تو مکھیوں کا تیرتا ہوا نظر آنا روز مرہ کی بات ہے۔ مگر ’’جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے‘ باغ تو سارا جانے ہے‘‘ کے مصداق محکمہ صحت کا عملہ اس صورتحال سے بالکل ہی بے نیاز اور لاتعلق دکھائی دیتا ہے۔ اسی عملے کی ملی بھگت سے ہی کھانے پینے کی اشیا میں بلاخوف و خطر ملاوٹ کا کاروبار پورے عروج پر ہے جس کی وجہ سے انسانی جانوں سے کھیلنے والے موت کے سوداگر راتوں رات امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں اور ان سے باز پرس کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

بھلا ہو ہمارے میڈیا اور بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کا جو سر دھڑ کی بازی لگا کر کمال جرأت کے ساتھ انسانیت کے ان قاتلوں کی سرکوبی کا بیڑہ اٹھائے ہوئے عوامی شعور بیدار کرنے والے ایسے خصوصی پروگراموں کے ذریعے ان کا پول کھولنے اور انھیں بے نقاب کرنے میں پیش پیش ہے۔ عوام کو کتوں اور گدھوں کا مردار اور حرام گوشت کھلانے والوں کو بھی ہمارے میڈیا نے ہی ایکسپوز کیا ہے ورنہ تو معلوم نہیں یہ غلیظ کاروباری سلسلہ کب تک عوام کی آنکھوں سے اوجھل رہ کر یوں ہی چلتا رہتا۔ ایسے ضمیر فروش لوگوں کو مسلمان کہنا لفظ ’’مسلمان‘‘ کی توہین ہے۔ یہی وہ ظالم ہیں جن کی جانب اشارہ کرتے ہوئے علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ:

یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود

اسلامی جمہوریہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے مسلمان اس حد تک بھی گر سکتے ہیں اس کا کبھی تصور بھی ہمارے ذہن میں نہیں آیا تھا۔ خوف خدا سے عاری دولت کے یہ پجاری اللہ تعالیٰ کے دربار میں بھلا کیا منہ لے کر جائیں گے؟ غالب نے اسی قبیل کے مسلمانوں کے بارے میں کہا تھا:

کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی

جعلی دواؤں کی تیاری اور فروخت کا کاروبار بھی اسی زمرے میں آتا ہے کیونکہ اس میں ملوث لوگ بھی انسانی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کے سفاک مجرم ہیں۔ جعلی دوائیں استعمال کرنے والے معصوم اور بھولے بھالے عوام شفا یابی حاصل کرنے کے بجائے بیٹھے بٹھائے نئی نئی اور لاعلاج بیماریوں کے نرغے میں آجاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ:

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حفظان صحت کے معاملے میں وطن عزیز پاکستان اپنے پڑوسی ممالک بھارت اور بنگلہ دیش سے بھی پیچھے ہے جس کی بنیادی ذمے داری ہماری ماضی اور حال کی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔ ہمارے سیاسی قائدین انتخابات اور ضمنی انتخابات کے موقعے پر اپنا پورا زور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور کردارکشی پر تو صرف کردیتے ہیں لیکن ان میں سے کسی کو بھی عوام کی صحت پر توجہ مرکوز کرنے کی کبھی بھی توفیق نہیں ہوتی۔

ان میں سے کسی بھی سیاسی جماعت کے منشور میں ہیلتھ کوریج، غذائیت کی کمی، بریسٹ فیڈنگ میں اضافے اور Immunisation کو بڑھاوا دینے جیسے اہم ایشوز کو کوئی اہمیت اور فوقیت نہیں دی جاتی۔ بس زیادہ سے زیادہ ان موضوعات پر سیمینارز اور کانفرنسوں کا انعقاد کردیا جاتا ہے اور سارا قصہ اسی پر تمام ہوجاتا ہے۔ صحت کے حوالے سے ملک کی صورت حال کتنی گمبھیر ہے اس کا اندازہ آپ اس حقیقت سے باآسانی کرسکتے ہیں کہ ہماری دیہی آبادی کا 40 فیصد حصہ صحت کی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہے جس میں زچہ بچہ کی صحت سرفہرست ہے۔

پاکستان میں ہر سال پانچ سال سے کم عمر کے ایک لاکھ بچے نمونیا کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں جب کہ بدہضمی کے نتیجے میں مرنے والے بچوں کی تعداد آٹھ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اسی عمر کے 50 فیصد بچے غذائیت کی کمی کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

بچوں کے علاوہ بڑوں کی صحت کا حال بھی کچھ کم تشویشناک نہیں ہے۔ مثال کے طور پر رعشہ ہی کے مرض کو لے لیجیے جس میں مبتلا مریضوں کی بالکل صحیح تعداد کے حوالے سے کوئی حتمی اعدادوشمار دستیاب نہیں ہیں۔

تاہم ایک اندازے کے مطابق ایسے مریضوں کی تعداد 6 لاکھ سے زائد ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ان بے چاروں کی غالب اکثریت کو اس مرض کے اسباب کے بارے میں کوئی آگہی ہی نہیں ہے۔ وطن عزیز میں رعشہ کے مرض میں مبتلا افراد 60 سال یا اس سے زائد عمر کے ہیں لیکن 40 سے 50 سال کی عمر کے لوگ بھی اس بیماری کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اندیشہ یہ ہے کہ آنے والے 15 برسوں میں پاکستان میں رعشہ (Parkinson’s Disease) کے مرض میں مبتلا افراد کی تعداد دگنی ہوجائے گی۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس مرض کی تشخیص نہ ہوپانے کی وجہ سے اکثر و بیشتر اسے بڑھاپے کا مسئلہ سمجھ لیا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔