نیپال کا محاصرہ

اسلم خان  بدھ 14 اکتوبر 2015
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

نیپال کا محاصرہ جاری ہے لیکن کھٹمنڈومیں زندگی رواں دواں ہے۔ بھارت نے 23ستمبر سے نیپال کو جانے والے تمام راستے بند کررکھے ہیں۔ خشکی سے گھرے نیپال کی تمام تردرآمدات کا انحصار بھارت پر ہے۔ نیپال نے ستمبر کے آخری ہفتے میں 70سال کے طویل انتظار کے بعد متفقہ آئین منظور کرلیا، جمہوری اور پارلیمانی اُصولوں پر مبنی آئین کا اسمبلی سے منظورہونا تھا کہ قیامت آگئی ۔

جی ہاں دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار میدان میں آگئے، نئی دہلی میں نیپال کے سفیر کوطلب کرکے7آئینی ترامیم پر مشتمل مسودہ ان کے حوالے کیا گیا۔ نادر شاہی حکم یہ تھا کہ فوری طور پر آئین میں یہ ترامیم کی جائیںورنہ ہم آپ کا ناطقہ بندکردیں گے۔ بھارتی مجوزہ ترامیم کے بعد نیپالی آئین کا پارلیمانی اور سیکولرچہرہ مسخ ہوجاتا اور نیپال ہندو ریاست میں بدل جاتا۔نیپال کی سیاسی قیادت نے ایسا کرنے سے انکار کردیا، پھربھارت سے نیپال کو جانے والے تمام راستے بند کردیے گئے ۔کرائے کے مظاہرین میدان میں آئے، اس ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ میں 40افراد مارے جاچکے ہیں۔ بھارتی حکمت کار 40سال بعد مرحوم مشرقی پاکستان میں دہرایا جانے والا مکتی باہنی کا ڈراما اب نیپال میں دہرارہے ہیں ۔

’تم کون ہوتے ہو ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے والے ‘ ہم آزاد اورخود مختار ہیں، ہمارے آئین سے تمہارا کیا لینا دینا۔نیپال کے نومنتخب وزیراعظم کھاد گا پرشاد اولی (Khadga Parsad Oli)نے مودی سرکار کے جنگل کے قانون کوکٹھمنڈو کے گلی کوچوں میں روند دیا ۔

نیپال کے داخلی راستے بھارت نواز مہادیسی شرپسندوں نے بند کردیے۔ گز شتہ 3ہفتوں سے یہ ناکہ بندی مسلسل جاری ہے۔ بھارت کاموقف ہے کہ نیپال کی حدود میں جاری کشیدگی کی وجہ سے درآمدات اور راستے بند ہیں۔ 26سال پہلے 1989میںبھی بھارت نیپال کی باضابطہ ناکہ بندی کرچکا ہے جو 15ماہ جاری رہی تھی ، اس وقت تنازع یہ تھا کہ نیپال نے چین سے ہتھیار کیوں خریدے ہیں۔

مودی سرکارنے نیپال کی غیر اعلانیہ ناکہ بندی کے لیے وقت کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ نیپال گزشتہ اپریل کے ہولناک زلزلے کی وجہ سے نڈھال ہے جس میں 9ہزار افراد مارے گئے اور مجموعی طور پر 8ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا جب کہ چین کے ساتھ زمینی رابطہ تودے گرنے کی وجہ سے مکمل بند ہوچکا ہے جس کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے کم از کم ایک سال کا عرصہ درکار ہوگا۔ بھارت نے اس نازک صورتحال سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے نیپال کو سزا دینے کا فیصلہ کیا۔ اس غیر اعلانیہ محاصرے کی وجہ سے نیپال کو 2ارب ڈالر کانقصان ہوچکا ہے جوکہ خشکی سے گھرے ہوئے ممالک کو راہداری کی سہولتوں کے حوالے سے 8عالمی معاہدوں کی صریحاًخلاف ورزی ہے لیکن مودی سرکاری کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔

نیپالی وزیراعظم نے اس گھمبیر صورت حال پر تبصرہ کرکے کہا کہ پہلے نیپال خشکی سے گھرا ہوا ملک (Land Locked Country) تھا لیکن بھارت کے محاصرے کے بعد نیپال بھارت کے گھیرے میں (India Locked) ملک بن چکا ہے۔نیپال نے یکم اکتوبر کو بھارتی محاصرے کا معاملہ اقوام متحدہ میں بھی اُٹھایا۔ نیپالی مندوب نے اقوام عالم سے مطالبہ کیا کہ خشکی میں گھرے نیپال جیسے ترقی پذیر ممالک کو سمندر تک رسائی کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ جس کی ویاناکنونشن میں ضمانت دی گئی ہے ۔

نیپال کا آئین ایک دن میں منظور نہیں ہوا، کئی دہائیوں پر محیط  خانہ جنگی اور معاہدہ امن کے بعد 8سال کے طویل مذاکرات اور بحث مباحثے کے بعد نیپالی قوم اس پر متفق ہوئی ہے جسے بھارت نیتاؤں نے مسترد کردیا ہے جوکہ ہمسایہ ممالک کے اندرونی معاملات میں صریحاًجارحانہ مداخلت اور جنگ عائد کرنے کے مترادف ہے۔ نیپالی آئین کو 601ارکان پر مشتمل آئین ساز اسمبلی میں90فیصد ارکان کی بھاری اکثریت نے منظور کیا ہے ۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون کا رویہ بڑا مضحکہ خیز ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ فریقین کو میز پر بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے معاملات حل کرنے چاہیے لیکن  بھارتی جارحیت،نیپال کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور آئین سازی کو اپنی پسند کے مطابق ڈھالنے کے بارے میں بانکی مون خاموش ہیں۔ ہمارا دفتر خارجہ بھی خاموش اور غیر جانبدار ہے۔ نیپال سارک میں ہمارا شریک کار ہے، ہم سارک کا ہنگامی اجلاس بلانے کے بجائے خاموش ہیں۔

کہتے ہیں کہ آئین کے ساتھ ساتھ بھارت کو نومنتخب نیپالی وزیر اعظم کھاد گا پرشاد اولی (Khadga Parsad Oli)کی شکل بھی پسند نہیں ،بھارت نہیں چاہتا کہ جدید نیپال عالمی برداری میں اس کی ہمسری کرے اور وہ نیپال کو باج گزار ریاست سے زیادہ کوئی حیثیت دینے کو تیار نہیں ۔

نیپالی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ مقامی سول سوسائٹی نے بھی بھارت کے خلاف ڈٹ کر مورچہ لگایا ہواہے۔ دنیا کے تمام ممالک میں نیپالی شہری تیل کے عطیات ،شرم دلانے کے لیے علامتی طور پربھارتی سفارت خانوں میں جمع کرارہے ہیں۔تیل کے بحران پر قابو پانے کے لیے نیپال نے زندہ قوم کا ثبوت دیا ہے، طویل قطاروں میں بڑے صبر وتحمل سے کھڑے رہے، حکومت نے نجی گاڑیوں کو تیل کی فروخت بند کردی تو لوگ خاموشی سے اپنے گھروں کو چلے گئے۔

ہوائی جہازوں کے لیے تیل کی فراہمی ہنگامی بنیادوں پر کی گئی۔ آدھے خالی جہازوں میں تیل بھروا کر لایاجا رہا ہے۔ غیر ملکی فضائی کمپنیوں کوبتایا گیا کہ واپسی کا تیل لے کر کھٹمنڈوآئیں ۔بھارت کے خلاف شدید عوامی رد عمل کے پیش نظر بھارتی چینلز کی نشریات کوبند کرنا پڑا جواباًچھچھورے بھارتی نیپالی اخبار نویسوںپر حملہ آورہوئے ۔

سب سے حیران کن رد عمل پاکستان کا ہے۔نیپال کے محاصرے پر حکومت اور سول سوسائٹی میں خاموش رہنے پر مکمل یگانگت پائی جاتی ہے، اسی طرح ذرایع ابلاغ بھی خاموش رہے، صرف ایک استثناء محترمہ ماریانہ بابر کو حاصل ہے جنہوں نے نیپال کو اندھیروں میں دھکیلنے اور زلزلے کے زخموں سے چور چور نیپالی بھائیوں کی حالت زار ،درد ناک انداز میں بیان کی لیکن تمام چینلز اوران کے نیم خواندہ اینکر خاموش رہے کہ بھارت نے پاکستانی میڈیا کو رام کرنے کے لیے کروڑوں ڈالرکی سرمایہ کاری کررکھی ہے۔

جنگل کا قانون ،جس کی لاٹھی اُس کی بھینس والا فارمولا آج کی مہذب دُنیا میں پوری طرح بروئے کار ہے اگر یقین نہ آئے تو ایک نظر بھارت نیپال سرحد پر ڈال لیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔