کراچی عالمی کتب میلہ

عندیل علی  بدھ 25 نومبر 2015
کراچی بک فئیر میں  دائیں، بائیں، بنیاد پرست، اشتراکی یا آزاد خیال کے درمیان فرق نہیں برتا جاتا ہے۔ فوٹو :فائل

کراچی بک فئیر میں دائیں، بائیں، بنیاد پرست، اشتراکی یا آزاد خیال کے درمیان فرق نہیں برتا جاتا ہے۔ فوٹو :فائل

استادِ محترم مبشر علی زیدی، جو سو لفظوں کی کہانیاں لکھتے ہیں، انہوں نے پچھلے سال اُن افراد کی اچھی خاصی طبیعت صاف کی تھی جو ادبی محافل میں علم حاصل کرنے نہیں بلکہ سیلفیاں لینے جاتے ہیں۔ کراچی میں ہونے والے کراچی لٹریچر فیسٹول عُرف کے ایل ایف میں علم، حکمت، علم و دانش کم اور سیلفیاں رے سیلفیاں ہائے رے میری سیلفیاں والا ماحول زیادہ گرم تھا۔ منٹو اور فیض بطور بوورژوا برینڈ ’’ڈسکس‘‘ ہورہے تھے، نہ تِل دھرنے کی جگہ تھی اور نہ ہی گاڑی پارک کرنے کی۔ جی ہاں گاڑی پارک کرنے کی، وہ کیا ہے ناں، بابو لوگ گاڑیوں میں ہی آتے ہیں، میں بھی گاڑیوں میں ہی گیا تھا لیکن دوستوں کی، متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے اسی لئے ایک کی گاڑی بندر روڈ پر بند ہوگئی تھی اور دوسرے بے چارے کی گاڑی کا ایکسیلیٹر وائر ٹوٹ گیا تھا، شاید یہ سزا برگرانہ منجن میں گھُسنے کی پاداش میں ملی تھی۔

کافی سالوں سے کراچی لٹریچر فیسٹول ہوتا چلا آرہا ہے، ویسے تو اس کا نام کراچی جشنِ ادب ہونا چاہیئے تھا، لیکن برگروں کو یہ نام سوٹ نہ کرتا، کچھ سال یہ ایونٹ کارلٹن ہوٹل میں ہوتا رہا، جہاں میں رکشے میں بیٹھ کر جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا، کیونکہ چلا تو جاتا، آتا کیسے؟ کے ایل ایف کی ہی طرز پر اسلام آباد لٹریچر فیسٹول اور لاہور لٹریچر فیسٹول بھی منعقد ہونا شروع ہوگئے ہیں، لیکن اسٹائل سب کا ایک ہی ہے، انگلش!

یہ فیسٹول ہائی کلاس جینٹری سے منصوب ہوگئے ہیں، یا امراء کے طبقے تک محدود کردیئے گئے ہیں، ان لٹریچز فیسٹولز میں لٹریچر تو ہوتا ہے لیکن بہت مہنگا۔ ایک مخصوص، معروف اور پوش ایریا میں قائم اسٹور انتہائی مہنگی کتب پر برائے نام رعایت دے کر کتابیں فروخت کر رہا ہوتا ہے، دیگر کتب گھر بھی ہوتے ہیں، لیکن مزہ نہیں آتا ہے۔ منٹو، فیض اور جالب پر بات تو ہوتی ہے لیکن انگریزی میں، غالباً ابنِ صفی پر تو کبھی بات ہوئی ہی نہیں ہوگی۔ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ بھی انکی فہرست سے باہر معلوم ہوتے ہیں، عمیرہ احمد اور نسیم حجازی پر تو شاید پابندی عائد ہوگی۔

مندرجہ بالا مصنفین عام لٹریچر لکھتے ہیں، عوام کے لیئے۔ ان کے قاری ان پڑھ بھی ہیں، (ابنِ صفی کے قارئین دوسروں سے کہانیاں پڑھوایا کرتے تھے، اردو میں چھپنے والی عمران سیریز کا ترجمہ اپنی مادری زبان میں سنا کرتے تھے)۔ ان کی رائے سے ہمیں اختلاف تو ہوسکتا ہے، لیکن طرزِ تحریر سے نہیں، بھئی کچھ تو بات ہے جو انکی کتب کی مانگ کم نہیں ہوتی ہے۔ یہ عوام کے دلوں میں بستے ہیں، اور ضروری نہیں کہ ان کو پڑھنے والا بالکل ویسا ہی ہوجائے جیسا ان کی کہانیوں میں بیان کیا گیا ہے۔ بقول فیصل سبزواری صاحب (سابق وزیر برائے امورِ نوجوانان، سندھ) کہ،

’’پڑھیں سب کو لیکن اثر نہ لیں۔‘‘

مطلب یہ کہ متبادل بیانیہ اور سوچ کو پروان چڑھانے کے لئے ہر طرح کی کتب کا مطالعہ کیجئے اور پھر عقل و منطق کی کسوٹی پر اسکو پرکھیں۔ اپنے آپ ہی صحیح و غلط کا فرق سمجھ آجائے گا اور طبیعت میں ٹھہراؤ بھی، نیز اگر کسی پر نکتہ چینی کرنی ہے تب بھی پہلے اسکو پڑھیں پھر رائے قائم کریں، دوسروں کے کہنے پر رائے قائم نہ کریں۔ چلیں چھوڑیں کام کی بات کرتے ہیں۔

کراچی میں ادب سے متعلق ایک اور جشن بھی منعقد ہوتا ہے جس کا نام، کراچی انٹرنیشل بک فیئر ہے۔ یہ تہوار بھی کئی سال سے منایا جارہا ہے اور خوشی کی بات یہ ہے کہ یہاں بھی تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی ہے، لیکن لوگ یہاں سیلفی لینے نہیں بلکہ منٹو کے افسانے، مبارک علی صاحب کی تاریخ سیریز، نسیم حجازی کے افسانے، عامر لیاقت کی لاؤڈ اسپیکر، جاوید چوہدری کی زیرو پوائنٹ، عکسی مفتی کی کاغذ کا گھوڑا ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ یہاں دائیں، بائیں، بنیاد پرست، اشتراکی یا آزاد خیال کے درمیان فرق نہیں برتا جاتا ہے۔ اردو، عربی، فارسی، انگریزی، فرانسیسی، جرمن سب زبانوں کی کتب میسر ہوتی ہیں۔

لوگ زیادہ سے زیادہ رعایت کے متقاضی ہوتے ہیں، دکاندار رعایت دے بھی رہے ہوتے ہیں۔ عوام دل کھول کر کتب پر تبصرے کر رہے ہوتے ہیں۔ ہر دفعہ کتاب کی فروخت پر دکاندار و خریدار دونوں ہی سرشار ہوجاتے ہیں۔ بچے، بزرگ، خواتین و حضرات سب ہی اپنی اپنی پسند کی کتب ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ تو اب اس تہوار کا باقاعدہ انتظار کرتے ہیں کہ کون جائے اردو بازار گرمی میں، کم از کم میں تو منتظر رہتا ہوں، ماحول ٹھنڈا ہوتا ہے، اسٹال ترتیب وار ہوتے ہیں اور بہت سے محبانِ کتب چلتے پھرتے ٹکراتے رہتے ہیں۔

کے ایل ایف کی طرح یہاں بھی فکری نشستوں کا انعقاد کیا جاتا ہے لیکن ذرا چھوٹے پیمانے پر، کیا ہی بہتر ہو کہ اس تہوار میں بلاگنگ، کالم نگاری، افسانہ نگاری اور دیگر ادبی موضوعات پر باقاعدہ تربیتی نشستیں منعقد ہونا شروع ہوجائیں۔ کراچی ایکسپو سینٹر میں کافی جگہ موجود ہے، اس کا استعمال ہونا چاہیئے، نیز حکومت کو بھی چاہیئے کہ یہاں پبلشرز اور کتب گھروں کو سبسڈی دیں تاکہ کتابوں پر مزید رعایت کی گنجائش نکل سکے اور کتب بینی کا شوق پروان چڑھے۔

کتب میلے کا سب سے دلنواز موقع آخری دن آیا تھا، جب تمام ناشرین نے لوٹ سیل لگا دی تھی! میں نے نکلتے نکلتے دو کتابیں کرائے کے لئے بچائے ہوئے پیسوں سے خرید لی تھیں کیونکہ پانچ سو اور تین سو کی کتب سو، سو روپے میں بکنا شروع ہوگئی تھیں۔

کیا آپ بھی کتب میلے کا باقاعدگی سے انتظار کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔