علم کے دیار کو ایک لیڈران چاہیئے

سید امجد حسین بخاری  بدھ 25 نومبر 2015
یکساں نظام تعلیم قوم کو تسبیح کے دانوں کی مانند جوڑ کر رکھتا ہے، پیار بانٹتا ہے، خوشیاں تقسم کرتا ہے، برادشت، امن، خوشی اور محبت کا موجب بنتا ہے۔  فوٹو :فائل

یکساں نظام تعلیم قوم کو تسبیح کے دانوں کی مانند جوڑ کر رکھتا ہے، پیار بانٹتا ہے، خوشیاں تقسم کرتا ہے، برادشت، امن، خوشی اور محبت کا موجب بنتا ہے۔ فوٹو :فائل

قوموں کی ترقی اور خوشحالی، اتحاد و اتفاق اور باہمی پیار و محبت تعلیم کے مرہون منت ہے، معاشرے مثالی تب بنتے ہیں جب ان میں برابری کی بنیاد پر تقسیم ہو۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ اس میں رہنے والوں کے رنگ و زباں، اقدار و روایات ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔ اس کے شہریوں کو برابر بنانے کے لئے قومی اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے۔ مگر قومی اتحاد و اتفاق تو درکنار قومیت اور نسل کے یہاں پر بلند و بانگ نعرے بلند ہوتے ہیں، سندھی، بلوچی، پنجابی، پختون اور مہاجر میں ساری قوم بٹی ہوئی ہے۔ اس میں ستم بالائے ستم یہ لوگ بھی مزید تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں۔ تعلیم ہی ایک ایسا شعبہ ہے جو قوم کو متحد کر سکتی ہے۔ مگر افسوس کہ اس وقت ملک میں 26 قسم کے نظام ہائے تعلیم رائج ہیں۔

پاکستان میں رائج نظام میں 3 نظام قابل ذکر ہیں۔

سرکاری تعلیمی ادارے ، نجی تعلیمی ادارے، مدارس

ان 3 اداروں کی بھی آگے مزید تقسیم ہے۔ ملک میں تقسیم کے در تقسیم کے عمل نے قوم کو عجب کشمکش میں مبتلا کردیا ہے۔ قوم کو یک جان کرنے کے لئے ہمیں نظام تعلیم کو یکساں کرنا ہوگا اور اِس حوالے سے چند تجاویز پر عمل کیا جائے تو یکساں نظام تعلیم رائج ہوسکتا ہے۔

نصاب

نظام تعلیم کی بہتری اس کے نصاب کے مرہون منت ہوتا ہے، اس کے ذریعے سے قوم کو مطلوبہ رنگ میں رنگا اور اسے بنایا اور بگاڑا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پورے ملک میں قوم عرصہ دراز سے یہ مطالبہ کرتی آئی ہے کہ پورے ملک میں گوادر سے کشمیر تک ایک ہی نظام تعلیم ہو۔ اِس میں سب سے اہم شرط نصاب کی ہے کہ پورے ملک میں ایک ہی تعلیمی نصاب ہو۔ یہ نصاب قومی نظریہ، اقدار اور تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔ آئینی ترمیم کے ذریعے تعلیم کا شعبہ مکمل طور پر صوبوں کے حوالے کردیا تھا اور حکومت کے اس اقدام کی وجہ سے صوبے شطرِ بے مہار کی طرح بے قابو ہوگئے۔

غیر ملکی این جی اوز کے اشارے پر تعلیم کو این جی اوز کے حوالے کردیا اور ان این جی اوز نے اپنی مرضی سے نصاب میں تبدیلیاں کرنا شروع کردی جس کی وجہ سے بہت سارے اختلافی مضامین کتابوں میں شامل کئے گئے۔ اگر نصاب سازی کا اختیار صرف وفاق کے پاس ہو اور ایک ہی ادارہ اس کی نگرانی کرے تو قوم کو یکساں نصاب دیا جاسکتا ہے جو معاشرتی اقدار اور جدید نظام کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ ہو، تمام نجی تعلیمی اداروں، مدارس اور سرکاری تعلیمی اداروں میں وہی نصاب رائج کیا جائے۔

قومی زبان

قوموں میں قومی جذبہ پروان چڑھانے کے لئے قومی زبان بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے امریکہ میں 82 بڑی قومیں اور زبانیں ہیں، لیکن سب کو متحد کرنے کے لیے ایک قومی زبان، انگلش کو قومی درجہ دیا گیا ہے اور اسی میں تعلیم دی جاتی ہے یا اسی طرح جیسے فرانس، جرمنی، جاپان، روس، چین اور سری لنکا وغیرہ میں تعلیم قومی زبان میں دی جاتی ہے۔ ہماری بھی اپنی قومی زبان ہے جسے شمال سے جنوب تک تمام علاقائی زبانوں کے لوگ سمجھتے اور بولتے ہیں، لیکن ہماری قوم کا بچہ کوئی بھی نصاب پڑھتا انگریزی میں ہے پھر اسے اردو میں ترجمہ کرتا ہے جبکہ سمجھتا وہ اپنی علاقائی زبان ہی میں ہے۔

قوم کو تقسیم کرنے میں اور نظام تعلیم کی تباہی میں زبان کا بنیادی کردار ہے۔ انگریزی کے حامیوں کا ماننا ہے کہ ہم انگریزی کے بنا ترقی کے مدارج طے نہیں کرسکتے مگر ان عقل سے بیزار لوگوں کو کون سمجھائے کہ چین، جاپان اور دیگر ترقی یافتہ ممالک نے اپنی ہی زبان میں تعلیم دے کر ترقی کی ہے۔ انگریزی کی اہمیت کو اگر مان بھی لیا جائے تو اسے تعلیمی اداروں میں بطور اختیاری مضمون پڑھایا جائے۔ قومی زبان چونکہ قومی رابطے کا ذریعہ ہے اس لئے اس میں تعلیم دینے کے اقدامات کئے جائیں۔

یکساں سہولیات

یکساں نظام تعلیم سے مراد یہ بھی ہے کہ تمام تعلیمی اداروں کو یکساں سہولیات فراہم کی جائیں۔ دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ انتہائی کسمپرسی اور لاچاری میں علم کی پیاس بجھا رہے ہوتے ہیں، جبکہ ان مدارس کی حالت حکومت کے زیر اہتمام چلنے والے اداروں کی حالت سے بھی قطعًا مختلف نہیں۔ عمارتوں کا فقدان ہونے کے باعث اساتذہ قبرستانوں اور کھلے آسمانوں تلے ساقیانِ علم کی تشنگی کم کر رہے ہوتے ہیں جہاں عمارت ہے وہاں کمروں کا فقدان ہے، بجلی پنکھے نہیں ہیں، فرنیچر کی کمی ہے، واش رومز اور پینے کے پانی جیسی بنیادی سہولیات ناپید ہیں، اس حوالے سے این جی اوز اور سرکاری سطح پر جاری کی گئی رپورٹس معاون حکومتی کارکردگی کا پول کھول رہی ہیں۔

پنجاب حکومت کی جانب سے دانش اسکولوں کو کروڑوں کی گرانٹ دی جارہی ہے، جبکہ لاہور جیسے شہر میں بھی ایسے پرائمری اسکول موجود ہیں جنہیں 3 سو سے 5 سو بچوں کو پڑھانے کے لئے ایک یا دو اساتذہ میسر ہیں۔ اِس کے برعکس نجی تعلیمی ادارے جہاں والدین کی جیبوں پر چھریاں چلاتے ہیں وہیں انہیں بہتر تعلیمی سہولیات دینے کی کوشش کرتے ہیں، ایسی صورت حال اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی ہے۔ نجی تعلیمی ادارے پیسہ کمانے والی فیکٹریاں بن گئے ہیں جبکہ سرکاری جامعات بھی صوبوں کے حوالے کردینے سے خسارے سے دو چار ہیں جس کو پورا کرنے کے لئے فیسوں میں ہر سال بے تحاشہ اضافہ کیا جاتا ہے۔ حکومت کے لئے لازمی ہے کہ وہ تعلیم کی سرپرستی کرے اور غریب اور امیر سب کے لئے یکساں تعلیمی سہولیات دے۔

مخلوط تعلیم کا خاتمہ

پاکستان میں مذہبی رجحانات کے حامل افراد کی اکثریت ہے، جب کہ سرکاری اور نجی سطح پر مخلوط تعلیمی ادارے قائم کئے جا رہے ہیں۔ اِس وقت حکومت پنجاب ساڑھے 5 ہزاربچوں اور بچیوں کے اسکولوں کو ضم کرچکی ہے اور مزید اسکول ضم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ علیحدہ تعلیم حاصل کرنا خواتین کا حق ہے اور انہیں اپنی مرضی کے آزادانہ ماحول میں  فطری انداز کے مواقع فراہم کئے جائیں تو زیادہ بہتر نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ بھارت میں خواتین کے لئے الگ جامعات کی وجہ سے ان کی کارکردگی بہت بہتر ہے اور پاکستان میں خواتین کے کالجز کی کارکردگی بوائز کالجز سے بہتر ہے۔ خواتین کے لئے الگ تعلیمی ادارے نہ ہونے کی وجہ سے خواتین کے تعلیم حاصل کرنے کے رجحان میں کمی واقع ہوئی ہے۔ والدین ایک انجانے خوف میں مبتلا ہوکر اپنی بیٹیوں کو مخلوط تعلیمی اداروں میں نہیں بھیجتے، اس لئے میری ذاتی رائے ہے کہ تعلیمی نظام کی بہتری کے لئے مخلوط نظام تعلیم کا خاتمہ کیا جانا چاہئیے۔

یکساں نظام

ملک میں اِس وقت ہر طبقے کے لئے الگ الگ تعلیمی ادارے قائم ہیں، مدارس میں پڑھنے والے طلبہ ساری عمر احساسِ کمتری میں مبتلا رہتے ہیں، معاشرے میں انہیں عزت کا مقام نہیں دیا جاتا جبکہ سرکاری تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو معاشرے میں مناسب مقام نہیں مل پاتا۔ بیورو کریسی، عدلیہ اور اسمبلی میں نجی اور مہنگے تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والے افراد کو ہی جگہ ملتی ہے۔ غریب اور متوسط طبقہ ساری زندگی معاشرتی عدم توازن کی اس چکی میں پستا رہتا ہے جس کی وجہ سے نفرتیں بیج پکڑتی ہیں۔ ظلم راج کرتا ہے، بدامنی کو فروغ ملتا ہے اور عدم برادشت کا کلچر پروان چڑھتا ہے۔

یکساں نظام تعلیم قوم کو تسبیح کے دانوں کی مانند جوڑ کر رکھتا ہے، پیار بانٹتا ہے، خوشیاں تقسم کرتا ہے، برادشت، امن، خوشی اور محبت کا موجب بنتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں نظریہ پاکستان سے آہنگ نظام تعلیم نافذ کیا جائے اور ایک مستقل قومی تعلیمی پالیسی کے ذریعہ سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کے لئے یکساں نظام تعلیم رائج کیا جائے۔ انٹرمیڈیٹ تک دینی و دنیاوی تعلیم کے امتزاج سے ایسا نصاب تعلیم تشکیل دیا جائے کہ جس کے تحت قرآن و حدیث کی تعلیم ہر طالب علم کے لئے لازمی ہو اور دینی مدارس کے طلبہ کو انگریزی، ریاضی و دیگر علوم کی تعلیم دی جائے۔ اْردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کے ساتھ ساتھ تمام صوبائی اور علاقائی زبانوں کو ترقی کے بھرپور مواقع فراہم کئے جائیں۔ فنی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائے۔ اعلیٰ و پیشہ ورانہ تعلیم کے اداروں میں غریب گھرانوں کے میرٹ پر آنے والے طلبہ و طالبات کے تمام اخراجات حکومت برداشت کرے، شرح خواندگی کو 5 سال میں 100 فیصد کرنے کے لئے میٹرک تک تعلیم مفت اور لازمی کی جائے۔ قوم کے اس مطالبے پر حکومت کو بھی کان دھرنے چاہیں۔

علم کے دیار کو ایک لیڈران چاہیے
اک نظام، ایک نصاب اک زبان چاہیئے

کیا آپ بھی اِس حق میں ہیں کہ ملک میں تعلیم کے لیے ایک ہی نصاب ہونا چاہیے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

سید امجد حسین بخاری

سید امجد حسین بخاری

بلاگر میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ نجی ٹی وی چینل سے بطور سینئر ریسرچ آفیسر وابستہ ہیں۔ سیاسی، سماجی اور معاشرتی موضوعات پر قلم اٹھانے کی سعی کرتے ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر Amjadhbokhari پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔