دُھول چہرے پر تھی

میرشاہد حسین  جمعـء 27 نومبر 2015
والدین کا پیار بچوں کے لئے بالکل فطری ہے لیکن کسی بھی وجہ سے کچھ بچے اس پیار سے محروم رہ جاتے ہیں یا انہیں ویسا نہیں مل پاتا، جیسا ہر بچے کو ملنا چاہیئے۔ فوٹو:فائل

والدین کا پیار بچوں کے لئے بالکل فطری ہے لیکن کسی بھی وجہ سے کچھ بچے اس پیار سے محروم رہ جاتے ہیں یا انہیں ویسا نہیں مل پاتا، جیسا ہر بچے کو ملنا چاہیئے۔ فوٹو:فائل

آپ میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جو آئینہ نہ دیکھتا ہو۔ کوئی اسے روز دیکھتا ہے اور کوئی اسے بار بار دیکھتا ہے، ہم اس میں کیا دیکھنا چاہتے ہیں؟ یہی کہ ہم کیسے لگ رہے ہیں! یہ ہمیں ایسا ہی دکھاتا ہے جیسا ہم نظر آتے ہیں۔ ہم اپنے آپ کو خود نہیں دیکھ سکتے اسی لئے آئینہ کی ضرورت پیش آتی ہے، لیکن یہ آئینہ ہمیں صرف ہماری شکل کے خدوخال ہی دکھا سکتا ہے۔ آپ کی شخصیت میں چھپے خدوخال کو یہ نہیں دکھا سکتا۔

کتنی حیرت کی بات ہے کہ ہمیں اپنی شکل و صورت کو ٹھیک کرنے کی فکر تو لگی رہتی ہے مگر اپنی شخصیت کو نکھارنے کی فکر ہمیں نہیں ہوتی یا ہوتی بھی ہے تو اس کے لئے ہم کچھ نہیں کرتے۔ کوئی ہماری شخصیت میں چھپے منفی پہلوؤں کو آئینہ دکھائے تو ہم بُرا مان جاتے ہیں۔ ہم اپنے آپ کو ہیرو یا ہیروئن ہی سمجھتے ہیں اور دوسروں کو ہم ولن سمجھتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی شخصیت کو آئینہ میں نہیں دیکھتے۔ آئیے آج ہم اپنی شخصیت کو بھی آئینہ میں دیکھنے کی کوشش کریں، اس سے قبل کہ کوئی ہمیں آئینہ دکھائے اور ہم بُرا مان جائیں۔

آپ میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جس کا دل محبت سے خالی ہو، انسان اس دنیا میں آتے ہی جس جذبہ سے مانوس ہوتا ہے وہ جذبہ محبت کا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہ جذبہ کسی کو کم اور کسی کو زیادہ ملتا ہے جس کے باعث شخصیتیں بنتی اور بگڑتی ہیں۔ والدین کا پیار بچوں کے لئے بالکل فطری ہے لیکن کسی بھی وجہ سے کچھ بچے اس پیار سے محروم رہ جاتے ہیں یا انہیں ویسا نہیں مل پاتا، جیسا ہر بچے کو ملنا چاہیئے۔ نتیجہ بڑے ہو کر وہ بچہ دنیا سے پیار چھینتا ہے یا پیار کرنا نہیں جانتا۔ آپ نیچے دیئے گئے آئینہ میں اپنی شکل تلاش کریں۔

میں اپنی اولاد سے بہت محبت کرتا ہوں، لیکن میرے پاس وقت نہیں ہے ان کے لئے۔ میں انہیں پیار سے نہیں چومتا کیونکہ مجھے یہ بات معیوب محسوس ہوتی ہے یا مشکل محسوس ہوتی ہے۔ البتہ ان کی غلط حرکتوں یا شرارتوں پر انہیں مارنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ بچوں کو ڈانٹنا بہت ضروری ہوتا ہے ورنہ وہ بگڑ جاتے ہیں۔

آپ کے ساتھ اگر آپ کے ماں یا باپ نے پیار محبت میں کمی رکھی ہے تو آپ اپنی اولاد کو یہ دیں ورنہ وہ بھی آپ کو بڑھاپے میں وقت نہیں دیں گے۔ آج میں آپ کو خبردار کر رہا ہوں، یہ مکافاتِ عمل کہیں تو رُکے گا اور اسے آپ نے ہی روکنا ہے۔

مشہور ادیب وکالم نگار جاوید چوھدری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں،

شہر میں کوئی دکان نہیں کھلی تھی، گلیوں میں کوئی ذی روح نہیں تھا، بس ہم دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے دانتوں پر دانت جمائے چلتے جارہے تھے، چلتے جارہے تھے یہاں تک کہ ریلوے اسٹیشن آگیا، ہم پلیٹ فارم پر آگئے، جہاں زندگی کے کچھ آثار تھے، ہم سب سے پہلے چائے کے کھوکھے پر گئے اور ہاتھی کا پتا پوچھا، جواب میں چائے والے نے قہقہہ لگا کر ہمیں آگے بھیج دیا- ہم پان سگریٹ کی ریڑھی پر گئے اور ہاتھی طلب کیا اس نے قہقہہ لگایا اور ہاتھ سے ٹکٹ گھر کی طرف اشارہ کردیا، ہم بکنگ کلرک کے پاس گئے، اس نے کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا تو میرے بیٹے نے ہاتھی کا مطالبہ کردیا، یہاں بھی نتیجہ نانبائی کی دکان سے مختلف نہ نکلا- یہاں پہنچ کر علی زچ ہوگیا، اس نے منہ بسورتے ہوئے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے کھینچ کر ریلوے اسٹیشن سے باہر لے آیا، ہم عین چوراہے میں کھڑے ہوگئے۔ میں نے شفقت سے اس کے سرد ہوتے ہوئے گالوں پر ہاتھ پھیرا اور پھر ہوا میں بوسہ دے کر پوچھا، ’’بیٹا اب بتاؤ کہاں جائیں؟‘‘ علی نے اوپر میری طرف دیکھا اور پھر روہانسا ہو کر بولا، ابو میرا خیال ہے ہاتھی دکانوں پر نہیں ملتے، میں نے نیچے جھک کر اس کا مفلر درست کیا اور پھر اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا، ہاں یار میرا بھی ایسا ہی خیال ہے اگر تم کہو تو کل چڑیا گھر والوں سے پوچھ لیتے ہیں، اگر کہیں سے ہاتھی ملتا ہوگا تو جاکر خرید لیں گے کیوں؟
ہاں یہ ٹھیک ہے، علی نے پر جوش لہجے میں کہا اور ہم دونوں واپس گھر کی طرف چل پڑے، میری بیوی اور میرے والد گھر کے باہر ہمارا انتظار کر رہے تھے، علی نے میرا ہاتھ چھڑایا اور بھاگ کر میرے والد کی ٹانگوں سے لپٹ گیا، میرے والد نیچے جھکے اور اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر بولے، ’’کیوں پھر ہو آئے بازار سے؟‘‘ علی نے سر اوپر اٹھایا اور چلا کر بولا، دادا ابو، دادا ابو، ہاتھی دکانوں پر نہیں ملتے، اگر ملتے ہوتے تو میرے ابو مجھے ضرور خرید کر دیتے۔

ننھے علی کے یہ الفاظ میرے والد پر بم کی طرح گرے۔ اُن کے منہ سے چیخ نکل گئی اور میں اپنے آنسو چھپاتا ہوا اندر چلا گیا۔ دانشور نے روک کر آنکھوں پر رومال رکھ لیا، جب خاموشی کا وقفہ نا قابل برداشت ہوگیا تو ہم میں سے ایک نے آنسوؤں کا گھونٹ بھرتے ہوئے پوچھا، ’’یار آپ کے والد کے منہ سے چیخ کیوں نکلی تھی؟‘‘ دانشور نے دبیز شیشوں والا چشمہ گود سے اٹھایا اور اسے اپنی ناک پر جما کر بولا، ’’اس لئے کہ بچپن میں جب ایک بار میں نے ہاتھی خریدنے کی ضد کی تھی تو میرے والد نے تھپڑ مار مار کر میرے گال سرخ کر دئیے تھے‘‘۔
ہم تینوں خاموش تھے، ہم تینوں اپنے اپنے بچپن کے ہاتھی تلاش کر رہے تھے، ہم تینوں اپنے اپنے گال سہلا رہے تھے، ہم تینوں اپنے اپنے بچوں کو یاد کر رہے تھے-

ایک 85 سالہ عمر رسیدہ باپ اپنے 45 سالہ بیٹے کے ساتھ گھر کے ہال نما کمرے میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک کوّے نے کھڑکی کے قریب آ کر شور مچایا، باپ کو نجانے کیا سوجھی، اْٹھ کر بیٹے کے پاس آیا اور پوچھا، بیٹے یہ کیا چیز ہے؟ بیٹے نے جواب دیا، یہ کوّا ہے، یہ سْن کر باپ اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر کے بعد وہ پھر اُٹھ کر اپنے بیٹے کے پاس آیا اور دوبارہ اُس سے پوچھا، بیٹے، یہ کیا ہے؟ بیٹے نے حیرت کے ساتھ باپ کی طرف دیکھا ور پھر اپنا جواب دُہرایا، یہ کوّا ہے، کچھ دیر کے بعد باپ پھر اُٹھ کر آیا اور تیسری بار پوچھا، بیٹے یہ کیا ہے؟ بیٹے نے اپنی آواز کو اُونچا کرتے ہوئے کہا، ابا جی یہ کوّا ہے، یہ کوّا ہے، تھوڑی دیر کے بعد باپ پھر اُٹھ کر آیا اور چوتھی بار بیٹے سے مخاطب ہوکر پوچھا، بیٹے یہ کیا ہے؟ اس بار بیٹے کا صبر جواب دے چکا تھا، نہایت ہی اُکتاہٹ اور ناگواری سے اپنی آواز کو مزید بلند کرتے ہوئے باپ سے کہا، کیا بات ہے؟ آج آپ کو سْنائی نہیں دے رہا کیا؟ ایک ہی سوال کو بار بار دْہرائے جارہے ہیں۔

میں کتنی بار بتا چکا ہوں کہ یہ کوّا ہے، یہ کوّا ہے۔ کیا میں کسی مشکل زبان میں آپکو یہ سب کچھ بتا رہا ہوں جو اتنا سادہ سا جواب بھی نہ تو آپ کو سنائی دے رہا ہے اور نہ ہی سمجھ آرہا ہے۔ اِس مرتبہ باپ یہ سب کچھ سننے کے بعد اپنے کمرے کی طرف چلا گیا، تھوڑی دیر کے بعد واپس باہر آیا تو ہاتھ میں کچھ بوسیدہ سے کاغذ تھے۔ کاغذوں سے لگ رہا تھا کہ کبھی کسی ڈائری کا حصہ رہے ہونگے، کاغذ بیٹے کو دیتے ہوئے بولا، بیٹے دیکھو ان کاغذوں پر کیا لکھا ہے؟

بیٹے نے پڑھنا شروع کیا، لکھا تھا، آج میرے بیٹے کی عمر 3 سال ہوگئی ہے۔ اسے کھیلتے کودتے اور بھاگتے دوڑتے دیکھ دیکھ کر دِل خوشی سے پاگل ہوا جا رہا ہے۔ اچانک ہی اُسکی نظر باغیچے میں کائیں کائیں کرتے ایک کوّے پر پڑی ہے تو بھاگتا ہوا میرے پاس آیا ہے اور پوچھتا ہے، یہ کیا ہے؟ میں نے اسے بتایا ہے کہ یہ کوّا ہے مگر اُسکی تسلی نہیں ہورہی یا شاید میرے منہ سے سن کر اُسے اچھا لگ رہا ہے۔ ہر تھوڑی دیر کے بعد آ کر پھر پوچھتا ہے یہ کیا ہے اور میں ہر بار اُسے کہتا ہوں یہ کوّا ہے۔ اس نے مجھ سے یہ سوال 32 بار پوچھا ہے اور میں نے بھی اْسے 32 بار ہی جواب دیا ہے۔ اُسکی معصومیت سے میرا دِل اتنا خوش ہو رہا ہے کہ کئی بار تو میں جواب دینے کے ساتھ ساتھ اُسے گلے سے لگا کر پیار بھی کرچکا ہوں۔ خود ہی پوچھ پوچھ کر تھکا ہے تو آکر میرے پاس بیٹھا ہے اور میں اُسے دیکھ دیکھ کر فدا اور قربان ہو رہا ہوں۔

ایک اور واقعہ اس سے ملتا جلتا بھی دیکھ لیں۔ باپ اپنے کاروبار کی وجہ سے بے حد مصروف تھا اور اس کے پاس وقت نہ تھا کہ وہ اپنے بچے کو دے سکے یا اس کے پاس بیٹھ کر باتیں کرسکے، لیکن اس نے ہر وہ چیز اس کو لے کردی جس کی اس نے خواہش کی۔ ایک دن بیٹے نے ناجانے کیا سوچا اور باپ کے پاس گیا۔ باپ اپنے کاروبار کی فائلیں کھول کر بیٹھا ہوا تھا۔ ’’اباجان ایک بات پوچھنی تھی‘‘ بیٹے نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ اس کا باپ جواب کی جگہ ڈانٹ نہ دے‘‘۔

’’میں بہت مصروف ہوں لیکن جلدی پوچھو کیا بات ہے؟‘‘ باپ نے فائلوں سے نظر اٹھا کر ایک نظر بیٹے کو دیکھ کر کہا۔

’’اباجان آپ اتنے مصروف رہتے ہیں، یقیناً آپ کا ہر لمحہ بہت قیمتی ہوگا۔ میں جاننا چاہ رہا تھا کہ آپ اگر کاروبار کے سلسلے میں کسی کو ایک گھنٹہ دیں تو اس کی کتنی قیمت لیں گے؟‘‘ سوال چونکہ عجیب اور غیر متوقع تھا اس لیے باپ نے کچھ دیر فائلوں سے نظر اٹھا کر پہلے سوچا اور پھر فخر سے کہا، ہاں میرا وقت واقعی بہت قیمتی ہے، میں اگر ایک گھنٹہ کسی کو دوں تو کم از کم ایک ہزار روپیہ لوں گا۔

’’تو ابا جان یہ ایک 5 سو روپے کا نوٹ ہے جو آپ نے مجھے دیا تھا، یہ آپ لے لیں اور مجھے اپنا آدھا گھنٹہ دے دیں‘‘۔

یقیناً ایسا سوال آپ کے بچے نے آپ سے نہیں کیا ہوگا، ورنہ آپ بیدار ہوجاتے، لیکن سوچیں کہیں وہ آپ سے بات کرنا بھی پسند کرتا ہے یا نہیں اور اگر کرتا ہے یا کرنا چاہتا ہے تو تب تو معاملہ ہاتھ میں ہے لیکن اگر وہ آپ سے دور رہتا ہے یا آپ کی طرف متوجہ نہیں ہوتا، آپ کے گھر آنے پر وہ آپ سے دور رہتا ہے تو پھر ابھی سے فکر کریں اور اس سے بیٹھ کر باتیں کریں۔ روزانہ کوئی وقت مقرر کرکے اس کی دلچسپی کے موضوع پر گفتگو کریں۔ امید ہے ابھی بھی دیر نہیں ہوئی۔ آپ باپ ہیں اور وہ آپ ہی کا بیٹا، محبت موجود ہے لیکن محبت کو راستہ آپ نے دینا ہے۔ باپ کی محبت میں کمی بچے کی شخصیت کو بگاڑتی ہے لیکن ماں کی محبت میں کمی بچے کو مجرم اور نفسیاتی مریض بناتی ہے۔

آپ نے یہ واقعہ تو سنا ہوگا کہ ایک شخص نے اپنے باپ کی بیماری سے تنگ آکر اُسے ایک دن اٹھایا اور لے کر دریا کے کنارے پہنچ گیا۔ جب وہ اسے پھینکنے لگا تو باپ نے کہا، بیٹے مجھے تھوڑا آگے کرکے پھینکو، بیٹے نے وجہ پوچھی تو باپ بولا کہ اس جگہ میں نے اپنے باپ کو پھینکا تھا۔

ایک ماں 4 بچوں کو پالتی ہے لیکن 4 بچے مل کر بھی ایک ماں کو نہیں پال سکتے۔ یہ سلسلہ اُس وقت رُکے گا جب آپ آئینہ دیکھیں گے۔ آئیے اپنے کل کی فکر چھوڑیں اور اپنے آج کو بہتر کریں۔ ہمارا آج ہی ہمارا کل ہے، اگر آج ہم نے بہتر کرلیا تو ہمارا کل خود بخود بہتر ہوجائے گا۔ اسی امید و دعا کے ساتھ کہ آئینہ دیکھتے رہیں گے اور بُرا نہیں مانیں گے۔

عمر بھر ہم یونہی غلطی کرتے رہے غالبؔ
دُھول چہرے پر تھی، ہم آئینہ صاف کرتے رہے

تو پھر آپ بھی آئینہ دیکھنے کا عہد کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

میرشاہد حسین

میرشاہد حسین

میر شاہد حسین نے اپنے قلمی سفر کا آغاز بچوں کے معروف رسالہ سے 1995ء میں کیا۔ بعد ازاں آپ اسی رسالے کے مدیر بھی رہے۔ آپ کو بچوں کے ادب میں بہترین ادیب کا ایوارڈ نیشنل بک فاؤنڈیشن کی طرف سے دیا گیا۔ آج کل بچوں کے بڑوں پر بھی اپنے قلم کے جوہر دکھانے کی کوشش کررہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔