ترکی کے ساحل پر مزید 6 مہاجر بچے سمندری لہروں کی نذر ہوگئے

نیٹ نیوز / اے ایف پی  ہفتہ 28 نومبر 2015
آسٹریلیا سے واپس بھجوائی گئی کشتی انڈونیشیا پہنچ گئی، کینیڈا کا مہاجرین کیلیے ساڑھے 7کروڑ ڈالر عطیہ۔ فوٹو: فائل

آسٹریلیا سے واپس بھجوائی گئی کشتی انڈونیشیا پہنچ گئی، کینیڈا کا مہاجرین کیلیے ساڑھے 7کروڑ ڈالر عطیہ۔ فوٹو: فائل

انقرہ / جکارتہ / واشنگٹن: بحیرہ ایجیئن کے خطرناک سمندری سفر کے ذریعے ترکی سے یونان پہنچنے کی کوشش کرنے والے مہاجرین کی کشتیاں ڈوبنے کے 2 مختلف حادثات میں کم از کم 6 مزید بچے سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہوگئے۔

ترکی کی اناطولیہ خبر ایجنسی کے مطابق جمعے کو کشتی ڈوبنے کا پہلا واقعہ اس وقت پیش آیا جب تیز ہوا اور بلند لہروں کے باعث تارکین وطن کی ایک کشتی الٹ گئی، یہ کشتی ترکی کے ساحلی شہر آیواجیک سے پناہ کے متلاشی 55 شامی اور افغانی شہریوں کو لیکر یونانی جزیرے لیسبوس کے سفر پر روانہ ہوئی تھی، ترک ساحلی محافظوں کے مطابق اب تک اس حادثے میں ہلاک ہونیوالے 4 بچوں کی لاشیں سمندر سے نکالی جا چکی ہیں، چاروں بچوں کا تعلق افغانستان سے ہے۔

دوسری کشتی ترکی سے یونانی جزیرے کوس کے سفر پر روانہ تھی لیکن شدید بارش اور طوفانی موسم کے باعث یہ کشتی ترکی کے شمال مشرق میں واقع شہر بودروم کے ساحلوں کے قریب ہی ڈوب گئی، رپورٹوں کے مطابق اس حادثے میں 2 بچوں کے ڈوبنے کی اطلاعات ہیں، اب تک سیکڑوں تارکین وطن سمندری راستہ اختیار کرتے ہوئے چھوٹی کشتیوں کے ذریعے ترکی سے یونان پہنچنے کی کوشش میں ہلاک ہو چکے ہیں۔

آسٹریلیا سے واپس کی جانے والی پناہ گزینوں کی کشتی انڈونیشیا کے ساحل پر پہنچ گئی، مقامی پولیس حکام نے کہا ہے کہ تیمور کے جزیرے کے ساحل پر پہنچنے والی کشتی میں13بھارتی،2 نیپالی اور بنگلہ دیشی پناہ گزین شامل ہیں، کشتی کے کپتان کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے، دریں اثنا امریکی وفاقی حکومت نے ریاستوں کے اہلکاروں کو متنبہ کیا ہے کہ انھیں شام کے مہاجرین کو قبول نہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

پروگرام کے سربراہ رابرٹ کیری نے کہا کہ کوئی بھی ریاست جو احکام کی پاسداری نہیں کرے گی وہ دراصل قانون کی انحرافی کی مرتکب ہوگی جس کے خلاف انضباطی اقدام ہو سکتا ہے، علاوہ ازیں کینیڈا نے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی جانب سے مختص کردہ فنڈ کے لیے ساڑھے 7 کروڑ امریکی ڈالر کے عطیے کا اعلان کیا ہے، یہ فنڈ شامی مہاجرین کی بحالی کے کام میں مدد دینے کیلیے قائم کیا گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔