ایسے تھے ہمارے عالی جی

زاہدہ حنا  اتوار 29 نومبر 2015
zahedahina@gmail.com

[email protected]

جمیل الدین عالی انگریز کی راج دھانی دلی میں پیدا ہوئے اور دولخت پاکستان کے سابق دارالحکومت کراچی میں اس جہان سے گزرے۔ یوں کہہ لیجیے کہ وہ غیر منقسم ہندوستان کے رہنے والے تھے اور منقسم پاکستان میں دل پر بہت سے داغ لے کر زندہ رہے اور پھر دوسرے بجھے ہوئے چراغوں کے طرح خود بھی بجھ گئے۔

وہ ایک ہشت پہلو شخصیت تھے، مشاعروں میں ان کے لحن کے سامنے کسی کا چراغ نہ جلتا، دانشوری کی بحثوں میں الجھتے تو بڑے بڑوں کو چت کر دیتے۔ لوہارو خاندان کے بیٹے، نوابزادوں والا طنطنہ لیکن نوابی تو کب کی ختم ہو چکی تھی۔ وہ پاکستان آئے اور یہاں کے رنگ میں یوں رنگے گئے کہ جیتے جی کوئی دوسرا رنگ ان پر نہ چڑھ سکا۔ ان کے ملی نغمے آج بھی زباں زدِ خاص و عام ہیں۔ ان کے سفید کفن پر پاکستان کا پرچم بہار دے رہا تھا۔

وہ غزل کے شاعر تھے، انھوں نے دوہے کہنے شروع کیے تو دوسرے بہت سے شاعروں نے ان کی پیروی کی لیکن ان کا نام سب سے بالا اور ان کی آواز سب سے بلند رہی۔ سفرنامے لکھے تو آئس لینڈ تک کا سفرنامہ لکھ گئے۔ لگ بھگ 50 برس انھوں نے اخبار میں ہفتہ وار کالم لکھا۔ بے شمار لوگ ان کی اس تحریر کا انتظار کرتے تھے۔ اس میں وہ سیاست، سیاحت، معاشرت اور معیشت کا ہر رنگ سے احاطہ کرتے تھے۔ بزرگوں کا چلن اختیار کیا اور ہر مضمون کو سو رنگ سے باندھا۔

انھوں نے انجمن ترقی اردو کے لیے کیا کچھ نہیں کیا، جاتے جاتے اسے ذوالقرنین جمیل اور ڈاکٹر فاطمہ حسن کے سپرد کر گئے۔ اردو کالج اور پھر اردو یونیورسٹی کے لیے کیسے پاپڑ بیلے۔ رائٹرز گلڈ قائم کی، اس کے پرچم تلے پاکستان کی تمام زبانوں کے ادیبوں کو اکٹھا کیا۔ کوشش ان کی یہی رہی کہ اردو اور بنگلہ کے ادیب ایک دوسرے سے شیر و شکر ہو جائیں لیکن ایوان اقتدار میں کچھ اور ہی منصوبے تھے۔ کوی جسیم الدین اور کوی جمیل الدین بھلا کیا کر سکتے تھے۔ آگ اور خون کے دریا کی شناوری 1947ء میں اور پھر 1970ء، 1971ء میں مجبور محض انسانوں کے مقدر میں لکھ دی گئی تھی اور تقدیر کا لکھا بھلا کون مٹا سکا ہے۔

طیبہ بھابھی اور ان سے میرے ذاتی مراسم تھے۔ وہ دونوں میری والدہ کے پُرسے میں آئے اور میری بڑی بیٹی فینی کو رخصت کرنے کے لیے بھی دونوں موجود تھے۔ ان سے بحث مباحثے کو شاید میں اپنا فرض سمجھتی تھی۔ عصمت آپا کراچی آئی ہوئی تھیں۔ برادرم شکیل عادل زادہ کے گھر پر ان کی شاندار ضیافت ہوئی جس میں شہر بھر کے عمائدین موجود تھے۔ جانے کس لہر بہر میں عالی بھائی یہ کہہ گئے کہ ہم تو واہگہ پر ثقافتی دیوار اٹھائیں گے۔

نہ اُدھر کا ادب اِدھر آئے اور نہ اِدھر کی شاعری اور افسانہ اُدھر جائے۔ عصمت آپا نے چمک کر کچھ کہنا چاہا لیکن میں جانتی تھی کہ خواہش کے باوجود وہ بہت مروت سے کام لیں گی۔ اُدھر سے آئی ہیں اور اپنے میزبانوں کو کسی مشکل میں ڈالنا نہیں چاہیں گی۔ دیوار چین ہو یا دیوار برلن یا دوسری دیواریں، میں کسی کے بھی حق میں نہیں تھی تو پھر واہگہ پر ثقافتی دیوار کا نسخہ کیسے ہضم کر لیتی۔ عالی بھائی سے میں نے بحث کی اور ڈٹ کر بحث کی۔ اس کی وجہ سے ہمارے درمیان ہفتوں سلام کلام بند رہا لیکن پھر ایک دن ان کا فون آیا۔ ’’تم واقعی بہاری ہو۔ آخری درجے کی احمق۔ ارے تمہارے خیال میں کیا میں اینٹ گارا لے کر سرحد پر پہنچنے والا تھا؟‘‘

انھیں انفرادی اور اجتماعی مستقبل کی بہت فکر رہتی تھی۔ اپنے کالموں میں انھوں نے مستقبلیات کے موضوع پر لکھنا شروع کیا جو مجھ سمیت ان کے ان گنت پڑھنے والوں کو بہت محبوب تھا۔ میں امریکا کے سفر سے واپس آئی تو اس موضوع پر چند کتابیں ساتھ لائی اور عزیز دوست ڈاکٹر عذرا رضا نے اس موضوع پر ایک رسالے کا زرسالانہ ادا کر کے اسے میرے نام جاری کرا دیا۔

میں نے مستقبلیات پر قلم اٹھانے سے پہلے عالی بھائی کو فون کیا اور کہا کہ میں اس موضوع پر لکھنا چاہتی ہوں، اگر آپ کی اجازت ہو۔ ناراض ہوئے کہ ارے بی بی، میرا کوئی اجارہ ہے کہ اس موضوع پر کوئی اور نہ لکھے۔ پھر بہت ہنسے اور طیبہ بھابھی کو آواز دے کر پوچھا طیبہ بیگم اس احمق کا کیا علاج ہے؟

ان کے ساتھ میں نے ایک گستاخی کی اور وہ یہ کہ ان کے ساتھ شہر کے ایک بڑے ہوٹل میں شام منائی جا رہی تھی، ان لوگوں نے مجھ سے رابطہ کیا تو میں نے معذرت کر لی۔ میرا عذر سن کر عالی صاحب نے مجھے فون کیا۔ ارے بی بی میں نے ان لوگوں کو تمہارا نام دیا تھا۔ تم نے معذرت کیوں کی؟ میں نے عرض کیا کہ عالی بھائی آپ سے چند سیاسی اور نظریاتی اختلافات ہیں، اس لیے میں نے اس موقع پر کچھ نہ کہنا ہی مناسب سمجھا۔ عالی بھائی نے زور سے ڈانٹا۔ افوہ آپ اور آپ کے اختلافات۔ اتنی بقراط کب سے ہو گئیں آپ۔ میں آگے کچھ نہ سنوں، چپکے سے آ جاؤ اور اپنی بقراطی جھاڑ جاؤ، میں جلاد کو تمہارا سر قلم کرنے کا حکم ہرگز نہ دوں گا۔ یعنی جان کی امان ہے تمہیں۔ یہ کہتے ہوئے انھوں نے دھڑ سے فون بند کر دیا۔

دو دن بعد منتظمین دعوت نامہ لے کر آئے جس میں اس حقیر فقیر کا نام چھپا ہوا تھا۔ میں گئی اور میں نے صرف یہ کہا کہ عالی صاحب اپنے مغل بچہ ہونے پر بہت اصرار کرتے ہیں۔ میں سوچتی ہوں کہ اگر یہ سامو گڑھ میں ہوتے تو داراشکوہ کے لشکر سے کاوا کاٹ کر کب اورنگ زیب کی فوجوں میں شامل ہو جاتے۔

یہ یقیناً عالی صاحب کے بعض معاملات پر چوٹ تھی لیکن کیا بات تھی ان کی۔ وہ روسٹرم پر آئے اور انھوں نے کہا کہ ان بی بی کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ اگر میں ساموگڑھ کے میدان میں ہوتا تو نہ داراشکوہ کے ساتھ ہوتا، نہ اورنگ زیب کے، میں تو خود تخت پر قبضے کی جنگ لڑتا‘‘۔ یوں انھوں نے میری گستاخی کو ہنسی میں اڑا دیا۔ تو صاحبو ایسے تھے ہمارے عالی جی۔

انھوں نے بلامبالغہ ہزاروں کالم لکھے لیکن ان میں سے ایک دل پر نقش ہو گیا۔ آج جب ان کی رخصت پر لکھنے بیٹھی تو وہ بہت یاد آیا۔ میں نے ان کے دونوں مجموعوں ’’صدا کر چلے‘‘ ’’دعا کر چلے‘‘ کی ورق گردانی کی اور آخرکار عالی جی کی وہ تحریر ڈھونڈ نکالی۔ آپ بھی پڑھیے۔ یہ 27 مارچ 1972ء کی تحریر ہے۔ لکھتے ہیں:

’’آج کل ہمارے دل و دماغ پر وہ لڑکی چھائی ہوئی ہے جو تقریباً ہر روز ہمارے پاس آتی ہے۔ اس کا برقعہ میلا ہے۔ اس کا رنگ اس سے بھی میلا ہے۔ وہ صاف کپڑے پہننے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ مسکرانے کی بھی کوشش کرتی ہے۔ اس کی آنکھوں سے جنس کی نہیں خالص پیٹ کی بھوک جھلکتی ہے۔ وہ پڑھی لکھی ہے، وہ ہنرمند ہے، وہ شریف ہے، وہ یتیم ہے اور زندہ رہنا چاہتی ہے، وہ لڑکی ہر محلے سے آتی ہے۔

لیاری سے بھی اور نیو کراچی سے بھی اور چاکیواڑہ سے بھی اور کسی بھی شہر کے کسی بھی محلے سے اور وہ صرف ایک ہی بات کہتی ہے۔ وہ بات یہ ہے کہ وہ کوئی کام کرنا چاہتی ہے اور وہ بھوکی ہے اور اس کی ماں بھوکی ہے۔ اس کا بھائی تپ وق میں مبتلا ہے یا اسے کوئی اور موذی بیماری ہو گئی ہے اور پھر وہ تنگ آ کر کہتی ہے، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے کہتی ہے عالی جی میں طوائف بننا نہیں چاہتی، میں طوائف بننا نہیں چاہتی، اور ہم اسے دیکھتے رہتے ہیں اور سنتے رہتے ہیں اور سفارشی چٹھیاں لکھتے ہیں اور دوستوں کو فون کرتے ہیں۔ پھر وہ لڑکی چند پھیرے لگاتی ہے۔ کبھی ٹیلی فون بھی کرتی ہے۔ مختلف دروازوں سے ناکام واپسی کی تفصیل سناتی ہے اور پھر معدوم ہو جاتی ہے اور پھر وہی لڑکی کوئی دوسرا نام رکھ کر آ جاتی ہے‘‘۔

اس تحریر کا درد آنکھوں کو نم کر دیتا ہے۔ مجھے خیال آتا ہے کہ ان کا مشہور دوہا کہ ہم تو گئے تھے چھیلا بن کر بھیا کہہ گئی نار، جیسے پُر لطف اور چٹکی لپٹے والے دوہے یا شعر تو ان کی ذات کا ایک رخ تھے، ورنہ اصل جمیل الدین عالی تو وہ تھا جو ’’وہ ایک لڑکی‘‘ لکھتا تھا اور جس نے 500 صفحات پر پھیلی ہوئی طویل نظم انسان لکھی اور جس میں لکھا:

’’تمہیں کیا خبر کیسی کیسی جہالت، ارادت، تعصب، تغلّب کا… ہر جھوٹ کا قرّنا کیسے بجتا چلا جائے ہے صدیوں… حقائق کی لاشیں کہاں کھپ گئیں، اور صداقت کی معدوم ہوتی ہوئی چیخ کیا ہے‘‘۔

وہ ایک شجر سایہ دار اور وضع دار انسان تھے۔ عالی جیسے لوگ جس سانچے میں ڈھلتے تھے، وہ کب کا ٹوٹ چکا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔