تجاوز

حمید احمد سیٹھی  اتوار 29 نومبر 2015
h.sethi@hotmail.com

[email protected]

اس روز جناح اسپتال کی جانب سے کلمہ چوک کی طرف جاتے ہوئے میری نظر عمارتوں میں چھپے ہوئے ایک قبرستان پر پڑی تو مجھے گل رُخ میاں کی یاد آ کر اداس کر گئی کہ وہاں مدفون ہے وہ نوجوان جس کا نام اس کے والدین نے اس لیے گلرخ رکھا ہو گا کہ انھیں اس کا چہرہ پھول جیسا خوبصورت لگا ہو گا جب وہ اس جہان فانی میں اتر کر ان کی گود میں پہلی بار کھکھلایا ہو گا۔ جب میں نے اسے پہلی بار دیکھا تو اس کی عمر تیس بتیس سال ہو گی لیکن وہ مسکرا کر لوگوں سے ملتا تو اس عمر میں بھی اس کا چہرہ کھلے گلاب جیسا ہوتا۔

نہ وہ میرا دوست تھا نہ ہم سروس نہ رشتہ دار لیکن اس سے مل کر اپنایت کا احساس ہوتا۔ وہ ہمیشہ خوش لباس ہوتا اور اسمارٹ نظر آتا۔ اپنے محکمے کے افسر اعلیٰ کے حکم پر وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ کچھ ناجائز بنے کچے مکان مسمار کرانے گیا تھا۔ ڈیوٹی سے واپس آیا تو اسے اطلاع ملی کہ ان لوگوں نے وہاں دوبارہ تعمیر کا کام شروع کر دیا ہے۔ اسے اپنے اعلیٰ افسر سے زیادہ وزیر اعلیٰ کا خوف تھا جس کے غصے کا اسے علم تھا اس لیے وہ اپنا Demolition Squad لے کر پھر ادھر روانہ ہو گیا۔

اس کے موقع پر پہنچتے ہی ایک سر پھرے نے سیدھا بندوق کا فائر کیا جو گل رخ کے چہرے اور چھاتی کو خون میں نہلا گیا۔ قبرستان کے سامنے سے میں گزر تو گیا لیکن مرحوم کا فرض شناس ہونا اور پھول جیسا چہرہ ابھی تک مجھے نہیں بھولا اور نہ بھولے گا۔ اور یوں ایک تجاوز گرانے والا نوجوان اپنے فرض کی ادائیگی کرتے ہوئے قربان ہو گیا۔

جس طرح عدل اور انصاف پر قائم ملک اور معاشرہ زندہ و پائندہ رہتا ہے اسی طرح اپنی قانونی اور اخلاقی حدود میں رہنے والے افراد اور حکمران امن و سلامتی کے ضامن ہوتے ہیں۔ اختیارات کی حدود سے تجاوز بھی بدامنی کو جنم دیتا ہے اور اگر اس کی ابتدا طاقتور اور بااختیار افراد کے ہاتھوں ہو تو اس کی انتہا ملک و معاشرے کے بے اختیار افراد کے ہاتھوں میں آ جانا لازمی امر ہے۔ پھر اس تباہی کو روکنا کسی کے بس میں نہیں رہتا تاآنکہ کوئی مسیحا صفت انسان بدی اور برائی کے پہیے کو روک کر الٹا نہ چلا دے۔

اگر اختیارات کے تجاوز کی مثالیں جنرل ایوب، جنرل ضیاء، جنرل یحییٰ اور پھر جنرل مشرف کے اقتدار و اختیارات پر قبضے میں تلاش کریں تو قانون دان جمہوری ادوار میں نظر آنے والے ون مین شوز کی مثال دیں گے اور اگرچہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بدترین جمہوریت بہترین ڈکٹیٹر شپ سے اچھی ہوتی ہے لیکن لوگ موازنہ کر کے یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ اب حالات اتنے دگرگوں ہوتے نظر آنے لگے ہیں کہ پنجابی کا محاورہ ہم پر صادق آتا ہے کہ ’’ڈنڈہ پیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا‘‘ اور یہ سچ ہے کہ ہمارے ہاں اوپر کی سطح ہو یا نچلی ترین، اصول قانون ضوابط پر لوگوں کا اعتقاد اٹھتا جا رہا ہے کیونکہ جس کے ہاتھ بھی لاٹھی آ جاتی ہے وہ بھینس کو اپنے ڈیرے پر ہانک کر لے جاتا دیکھا جا رہا ہے۔

عام لوگ تجاوز کا مطلب صرف دکان، مکان، دفتر وغیرہ یعنی عمارت میں یا اس کے ساتھ سرکاری یا غیر کی اراضی پر قبضہ یا استعمال کے معنوں تک کو سمجھتے ہیں جیسا کہ کسی مارکیٹ وغیرہ میں عموماً برابر والی جگہ کا غیر قانونی استعمال کرنا لیکن اس لفظ یعنی Encroachment کے ڈانڈے بہت دور تک جاتے ہیں اور بلاشبہ تجاوز چاہے وہ اراضی کے حوالے سے ہو یا اختیارات کے ناجائز استعمال کی صورت میں ہو ان کا حاصل وصول کرپشن ہی بنتا ہے جب کہ اختیارات کا جائز استعمال کبھی بھی ہدف تنقید نہیں بنتا۔ اس لیے کہ اس میں لکھے ہوئے الفاظ بولی ہوئی زبان اور کیے ہوئے کام ہمیشہ صاف اور شفاف ہوتے ہیں۔

ہمارے سیاسی دھڑے بڑے تسلسل سے اپنے مخالفین پر اختیارات سے تجاوز کرنے کے الزامات لگاتے بلکہ ان معاملات کی نشاندہی کر کے اخراجات میں ناجائز اضافے کی رقوم تک بتاتے ہیں اور جواباً الزام علیہ اسی طرح کی زبان میں الزامات کو پلٹتے ہیں لیکن یہ الزامات بڑھک سے آگے نہیں بڑھتے اور کچھ ہی دنوں میں کسی نئی واردات کی کہانی چھیڑ دی جاتی ہے۔

عمران خان ایسے شکوہ جواب شکوہ قسم کے الزامات کو نورا کشتی کا نام دیتے ہیں کیونکہ اگر حزب اقتدار اور حزب مخالف کے الزامات کو جمع کر کے کسی عدالت کے ذریعے ثابت کر دیا جا سکے تو دونوں دھڑے نااہل ہی قرار نہ پائیں بلکہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے دیکھے جائیں۔ کوئی بھی ذی شعور ایسے ہوائی دنگل سے محظوظ ہونے کے بجائے بیزار بلکہ سیاست ہی سے متنفر ہو جائے گا۔ ان دنوں نندی پور پاور پلانٹ میں اربوں کی خورد برد کا معاملہ موجود حکومت کے لیے اتنا سنگین ہے کہ حکومت الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے کروڑوں کی اشتہار بازی کر کے اپنا بچاؤ کرنے پر مجبور ہو رہی ہے۔

اگر موجودہ حکومت کے سابق حکمرانوں پر اور سابق حکمرانوں کے موجودہ حکمرانوں پر لگائے جانے والے کرپشن الزامات اور اختیارات میں تجاوزات پر کسی اکاؤنٹنٹ سے مدد لے کر مبینہ خورد برد رقوم کو جمع کر کے Recovery کی جا سکے تو ملک کے تمام قرضوں کی اسی رقم سے ادائیگی کی جا سکتی ہے۔

کس نے جائز ذرائع سے کتنی کمائی کی اور کس کس نے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے کتنی دولت اکٹھی کی اس کے لیے کسی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کسی کمیشن یا کسی نیشنل اکاؤنٹبیلٹی بیورو کی ضرورت نہیں صرف ایک آرڈر ایک قانون کی ضرورت ہے جس کے مطابق ہر شہری سے Declaration of Assets کا مفصل فارم پُر کروایا جائے اور اگر کسی نے اپنی منقولہ و غیر منقولہ، اندرون و بیرون ملک دولت ظاہر نہیں کی تو اس کی حلفاً اطلاع دینے والے کو حاصل کردہ چھپائی ہوئی دولت کا دس فیصد انعام کے طور پر دینے کی ترغیب دی جائے تو ایک سال کے اندر کرپٹ مافیا کا سراغ لگایا جا سکتا ہے لیکن یہ کام کون کرے گا۔ اگر اس سوال کا جواب کسی کے پاس ہو تو انتظار رہے گا البتہ قانون میں یہ شق لازمی ہو کہ صحیح ڈیکلریشن دینے والے سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہو گی سوائے اس کے کہ وہ دولت ٹیکس حکومت کے پاس جمع کرائے۔

بات چلی تھی کچی آبادی پر ناجائز قبضے اور تجاوز گرا کر اراضی واگزار کرانے کی اس کوشش سے جس کے نتیجے میں میاں گل رخ زندگی کی بازی ہار گیا۔ یہاں گولی چلانے والا بظاہر ایک غریب قبضہ گروپ کا فرد تھا لیکن میں نے تو تجویز دے دی اس مافیا کے تجاوزات کی بیخ کنی کی جو طاقتور بھی ہیں اور بااختیار بھی۔ ان کے ملکی اور عوامی دولت پر تجاوز ختم کرانے کے لیے تو کسی انقلابی سوچ رکھنے والے لیڈر کی ضرورت ہو گی جس کا اپنا دامن تجاوزات سے آلودہ نہ ہو۔ ہم کب تک اس مسیحا کا انتظار کرتے رہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔