ہندو انتہا پسند ’’اب یا کبھی نہیں‘‘ کے راستے پرچل پڑے ہیں،رومیلا تھاپر

سید عاصم محمود  اتوار 29 نومبر 2015
بھارت میں انتہا پسندی کے خلاف توانا آواز‘ تاریخ دان اور محقق رومیلا تھاپر کی چونکا دینے والی باتیں ۔  فوٹو : فائل

بھارت میں انتہا پسندی کے خلاف توانا آواز‘ تاریخ دان اور محقق رومیلا تھاپر کی چونکا دینے والی باتیں ۔ فوٹو : فائل

مائیکل کرایٹون امریکا کا ممتاز ادیب گزرا ہے۔ اس کے ناولوں کی بنیاد پر جراسک پارک، دی لاسٹ ورلڈ اور کانگو جیسی مشہور فلمیں بنائی گئیں۔ کرایٹون کا خوبصورت قول ہے:’’ اگر آپ تاریخ سے واقف نہیں، تو کچھ بھی نہیں جانتے۔ تب آپ ایسے پتّے کی مانند ہیں جو یہی نہیں جانتا کہ وہ ایک درخت کا حصہ ہے۔‘‘ یہ قول علمِ تاریخ کی اہمیت واضح کرتا ہے۔ ہمارے پڑوس میں قوم پرست ہندو لیڈر اسی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ مقصد بھارت کو ہندو راشٹریہ (مملکت) میں تبدیل کرنا ہے۔

بھارت میں مسلمان بہت بڑی اقلیت ہیں۔ وہ پھر ماضی میں حکمران بھی رہے لہٰذا قوم پرست ہندو مسلمانوں کو اپنی راشٹریہ کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ اب ان کی بھر پور سعی ہے کہ بھارت سے مسلمانوں کا وجود ختم کردیا جائے یا کم از کم وہ اپنے مذہب اور تہذیب و ثقافت سے ناآشنا ہوجائیں۔ مسلمانوں کو ملیامیٹ کرنے کی اس تحریک کے کئی روپ ہیں۔

مثال کے طور پر آر ایس ایس نے ہزارہا سکول کھول رکھے ہیں جہاں پڑھائی جانے والی نصابی کتب میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا ہوتا ہے۔ اب مودی حکومت قومی سطح کے نصاب میں تبدیلیاں چاہتی ہے تاکہ مسلم حکمرانوں کے کارنامے اور ان کی خوبیاں نصابی کتاب سے حذف کردی جائیں۔ یہی نہیں، انہیں ’’ولن‘‘ کے طور پر پیش کیا جائے۔نصابی کتب میں مسلمانوں کو ’’دشمن‘‘ بنا دینے کا نتیجہ ہے کہ آج بھارت میں خصوصاً ناخواندہ اور بے شعور ہندو عوام میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیل چکی ہے۔ یہ ہندو اب بہانے بہانے سے مسلمانوں پر دھاوا بولتے اور انہیں زندہ جلا دینے پر بھی ضمیر پہ کوئی بوجھ محسوس نہیں کرتے۔

یہ امر خوش آئند ہے کہ مودی حکومت کی انتہا پسندی کو سیکڑوں بھارتی دانشوروں نے ناپسندیدہ نظروں سے دیکھا۔ بہت سوں نے اپنے ایوارڈ واپس کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا اور دیگر نے انٹرویو دے کر اپنا غم و غصہ عیاں کیا۔ انہی دلیر بھارتی دانشوروں میں پروفیسر رومیلا تھاپر بھی شامل ہیں۔ انہوں نے ممتاز بھارتی اخبارات کو انٹرویو دیئے اور انتہا پسندی کی سرپرستی کرنے پر مودی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ان انٹرویوز کے چیدہ سوال پیش خدمت ہیں۔
٭٭
سوال: بھارت میں بڑھتی شدت پسندی کو آپ کس نظر سے دیکھتی ہیں؟
جواب: آج کا بھارتی معاشرہ انتہا پسندوں کی وجہ سے خوف و دہشت کا شکار ہوچکا۔ ماضی میں انھیں’’غیر اہم‘‘ قرار دے کر مسترد کردیا جاتا تھا مگر اب یہ ممکن نہیں۔ یہ دہشت گرد گروہ ہیں، وہ انسانوں کو قتل کرکے خوف پھیلاتے اور عوام میں مذہبی، نسلی و لسانی اختلافات پیدا کرتے ہیں۔ انہیں حکومت اور انتظامیہ میں براجمان بااثر شخصیات کی سرپرستی حاصل ہے جو ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ان سبھی انتہا پسند تنظیموں، جماعتوں اور گروہوں کا آپس میںربط ضبط ہے۔ یہ نمونہ دنیا کی تمام انتہا پسندانہ تنظیموں میں پایا جاتا ہے۔

پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران یہ چرچا رہا کہ مودی حکومت معاشی انقلاب لے آئے گی اور بھارت ترقی کی راہ پر چل پڑے گا۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوابلکہ انتہا پسندی میں اضافہ ہوگیا۔ لگتا ہے، ہندو انتہا پسند ’’اب یا پھر کبھی نہیں‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ وہ اپنے اقدامات سے معاشرے کو اپنی مٹھی میں لینا چاہتے ہیں۔

سوال: ’’دادری حادثے‘‘ کے کئی دن بعد وزیراعظم مودی نے اسے ’’افسوس ناک‘‘ قرار دیا۔ آپ اس ردعمل سے مطمئن ہیں؟
جواب: بالکل نہیں، انہیں غم و غصّے کا اظہار کرنا چاہیے تھا۔ اسی دوران ان کے وزیر مشیر یہ تاثر دیتے رہے کہ قتل ہونے والا مسلمان مجرم تھا۔ انتہا پسندی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ہمارے دانش وروں، ادیبوں وغیرہ نے سرکاری ایوارڈ واپس کیے تو ان پر الزام لگ گیا کہ وہ معاشرے میں انتشار پھیلا رہے ہیں۔ بہرحال مجھے خوشی ہے کہ انتہا پسندی کے خلاف بڑی تعداد میں لوگ سامنے آئے اور اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

سوال: وزیر خزانہ ارون جیٹلی کا کہنا ہے، ادیبوں اور دانش وروں نے ایمرجنسی (1977-75ء)، سکھوں کے خلاف ہنگامے (1984ء) اور بھاگل پور ہندو مسلم فساد (1989ء) کے وقت کیوں احتجاج نہیں کیا؟
جواب: یہ بات غلط ہے۔ جب اندرا گاندھی نے ایمرجنسی لگائی، تو کئی ادیبوں اور دانش وروں نے احتجاج کیا تھا۔ ہم نے پلے کارڈ نہیں اٹھائے اور نہ جنتر منتر (چوک) پر دھرنے دیئے۔ مگر اس موقع پر بھی احتجاج ہوا تھا۔ ویسے بھی ایمرجنسی ایک مختلف معاملہ تھا۔ اس کے ذریعے ہندو راشٹریہ قائم کرنا مقصود نہیں تھا۔ایمرجنسی کے وقت شہری حقوق سلب کرلیے گئے اور شہریوں پر پابندیاں لگ گئی۔ مودی حکومت بھی آزادی رائے پر پابندیاں لگا رہی ہے، ساتھ ساتھ وہ یہ بھی چاہتی ہے کہ ہندو تنظیمیں سول سوسائٹی (معاشرے) پر حاوی ہوجائیں۔ اسی لیے مودی حکومت پر بہت حد تک فرقہ وارانہ رنگ چڑھ چکا۔

سوال: آپ نے اپنی تازہ کتاب ’’The Public Intellectual in India‘‘ میں لکھا ہے، آج بھارت میں صرف انتہا پسند سیاست داں ہی ایک معاشرہ تخلیق کرنے کا وژن رکھتے ہیں… اور وہ یہ کہ وہاں ہندو شدت پسندی کا دور دورہ ہوجائے۔ اس تصّور کی تشریح کیجیے۔
جواب: میں 1960ء کے عشرے میں دہلی یونیورسٹی سے منسلک تھی۔ وہاں کافی ہاؤس میں بیٹھ کر اساتذہ اور طلبہ اس موضوع پر گفتگو کرتے کہ ہمارا معاشرہ کس قسم کا ہونا چاہیے۔ اس زمانے میں بیشتر باشعور اور تعلیم یافتہ بھارتی اپنے ذہن میں آئیڈیل معاشرے کا تصّور رکھتے تھے جو خیرونیکی کی بنیادوں پر استوار ہو۔آج ہماری یونیورسٹیوں میں اس موضوع پر کوئی بحث نہیں ہوتی۔ دو اساتذہ مل بیٹھیں، تو موضوع گفتگو یہ ہوتا ہے کہ مزید پیسا کیسے کمایا جائے اور پروموشن کب ہوگی۔ ان کے نزدیک اصل مسائل یہی بن چکے۔

ماضی میں انتہا پسند لیفٹسٹ موجود تھے۔ وہ ایسا معاشرہ تخلیق کرنا چاہتے تھے جہاں تمام شہری ہر لحاظ سے برابر ہوں اور انہیں انصاف آسانی سے میّسر آئے۔ آج بھارت میں انتہا پسندوں کا دور دورہ ہے۔ وہ ہندو راشٹریہ کا قیام چاہتے ہیں، مذہبی بنیادوں پر بننے والی حکومت جس میں سبھی شہریوں کو یکساں حقوق نہیں ملیں گے۔ وہ ایسا معاشرہ بنانے کا تہیہ کرچکے، جبکہ دیگر سیاست داں گومگو کی حالت میں ہیں۔

سوال: ہندو راشٹریہ کے حامی سیاست داں ثابت قدم کیوں رہے؟
جواب: وجہ یہ کہ انتہا پسند ہندو اپنے ہم مذہبوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ ہندو مملکت وجود میں آنے سے وہ معاشی ترقی کریں گے اور خوشحال ہوجائیں گے۔ میں بھارتی تاریخ میں 1991ء کو نہایت اہم سال گردانتی ہوں۔ اسی برس حکومت نے معیشت کو آزاد کیا، بین الاقوامی منڈی میں داخل ہوئی اور سرمایہ داری کو اپنا لیا۔سیکولر، لبرل اور جمہوریت پسند لیڈروں پر مشتمل حکومت کو یقین تھا کہ یوں ملک میں
معاشی ترقی ہوگی مگر مختلف وجوہ کی بنا پر ان کے خواب پورے نہ ہوسکے۔ دوسری طرف نریندر مودی ریاست گجرات میں معاشی ترقی بڑھانے میں کامیاب رہے۔ یوں انتہا پسندوں کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ وہی بھارت میں معاشی ترقی لاسکتے ہیں۔ اسی نعرے کی بنیاد پر وہ حالیہ انتخابات جیتنے میں کامیاب رہے۔ تاہم بی جے پی بھی معاشی ترقی کا سپنا عمل میں ڈھالنے میں ناکام رہی۔ اسی لیے رفتہ رفتہ اس کا سحر دم توڑ رہا ہے۔

سوال: ایک خیال یہ ہے کہ بھارت میں لبرل و سیکولر دانش وروں نے مذہبی شعبہ خالی چھوڑ دیا۔ یوں انتہا پسند دانشوروں کو یہ موقع ملا کہ وہ ہندومت کی من مانی تشریح کرسکیں۔ آپ اس بات سے اتفاق کرتی ہیں؟
جواب: کسی حد تک! دراصل ہمارے بیشتر دانشور ہم وطنوں کو یہی سمجھاتے رہے کہ حکومت اور سوسائٹی کی تشکیل میں مذہب صرف ایک پہلو ہے کیونکہ یہ ہر کسی کا ذاتی معاملہ ہے۔ میں نے اپنی کتابوں اور لیکچروں کے ذریعے عیاں کیا کہ سکیولرازم مذہب کا مخالف نہیں۔مسئلہ یہ ہے کہ عوام کی سماجی زندگی میں مذہبی تنظیموں کا بڑا اثرو رسوخ ہے اور وہ اس سے بھر پور فائدہ اٹھاتی ہیں۔ ہم سیکولر و لبرل دانشوروں نے بہ حیثیت ماہرین عمرانیات اسی عجوبے کا مطالعہ نہیں کیا۔

سوال: مثال دے کر اپنی بات واضح کرنا چاہیں گی؟
جواب: نظام تعلیم کی مثال لیجیے۔ ہماری سعی رہی ہے کہ قومی اور ریاستی سطح پر بھارتی نصاب تعلیم سیکولر ہو جائے۔ وہ کٹر مذہبی نہ ہو اور تمام مذاہب سے یکساں سلوک کرے۔اس سعی میں ہمیں کامیابی بھی ملی۔ مگر بھارت میں مذہبی تنظیموں کے زیراہتمام ہزارہا سکول چل رہے ہیں۔ ان سکولوں کے نصاب تعلیم میں اپنے مذہب کی تبلیغ ہوتی اور معاصر مذاہب عموماً زبر و توبیغ کا نشانہ بنتے ہیں۔
علم اور تعلیم کی بنیادی ذمے داری یہ ہے کہ وہ ایک انسان کو باشعور اور مثبت خصوصیات رکھنے والا شہری بنادے۔ مگر کٹر مذہبی بنیاد پر مرتب ہونے والا نصاب طالب علم میں عموماً دیگر مذاہب کے خلاف نفرت ابھارتا ہے۔مثلاً انتہا پسند ہندو تنظیم، آر ایس ایس پچھلے چالیس برس سے اپنے ہزارہا اسکولوں میں ایسی نصابی کتب پڑھا رہی ہے جن میں مسلمانوں کے خلاف زہریلا مواد موجود ہے۔ چناںچہ ایسی ہندو نوجوان نسل جنم لے چکی جو مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھتی ہے۔ معاشرے پر اپنے کٹر مذہبی نظریات ٹھونسنے کے لیے نصاب تعلیم بطور اہم ہتھیار استعمال ہوتا ہے۔ ماہرین عمرانیات اسی عجوبے کا گہرائی میںمطالعہ نہ کر پائے اور اس کا ادراک نہیں کر سکے۔

سوال: آپ جمہوریت اور عقل پر مبنی سوچ کو لازم و ملزوم سمجھتی ہیں۔ اس سے آپ کی کیا مراد ہے؟
جواب: ایک جمہوری مملکت میں حکومت انتظامیہ، پارلیمان اور عدلیہ پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ حکومت جب کوئی قانون بنائے، یا فیصلہ کرے،تو شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ فیصلے کی خوبیوں اور خامیوں پر بحث مباحثہ کریں۔ اگر فیصلہ یا قانون معاشرے کے لیے مفید ہے، تو اسے اپنالیں، ورنہ رد کردیں۔ جمہوریت کا حقیقی حسن یہی ہے۔
بھارت بھی جمہوری مملکت کہلاتا ہے مگر یہاں جمہوریت صحیح طور پر رائج نہیں۔ وجہ یہ کہ ہمارے ہاں ہندو اکثریت اور اقلیتیں وجود میں آچکیں۔ لہٰذا جو قانون یا فیصلہ اکثریت کے مفادات پورے کرے، اسے تو اپنالیا جاتا ہے۔ اقلیت کے حق میں جانے والے فیصلے متنازع ہوجاتے ہیں۔ حقیقی جمہوری مملکت میں ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں کوئی قانون یا فیصلہ اس بنیاد پہ پرکھا جاتا ہے کہ وہ بہ حیثیت مجموعی معاشرے کے لیے مفید ہے یا نہیں۔

سوال: بھارت کے فرقہ وارانہ اختلافات کی بنیادیں کیا تاریخ میں پوشیدہ ہیں؟
جواب: جی بالکل۔ یہ برطانوی مورخ، جیمز مل ہے جس نے اپنی کتاب ’’تاریخ ہندوستان‘‘ میں ہندوستانی تاریخ کو ہندو، مسلمان اور عیسائی میں تقسیم کیا اور یوں ’’دو قومی نظریہ‘‘ متعارف کرایا۔ اسی نظریے کے بطن سے نظریہ ’’ہندتوا‘‘ نے بھی جنم لیا۔ اسی نظریے کے حامی بھارت میں ہندو راشٹریہ کا قیام چاہتے ہیں۔آر ایس ایس اور دیگر انتہا پسند تنظیمیں آج ہندو عوام کو ہندوتوا کی جانب راغب کررہی ہیں۔ ہندومت کی طرف ان کا زور کم ہے اور یہ دونوں مختلف عنصر ہیں۔ ہندومت ایک مذہب ہے جبکہ ہندوتوا سیاسی نظریہ جو اس پر انحصار کرتا ہے۔ ہندومت نے کبھی مذہبی ریاست کی تشکیل کا مطالبہ نہیں کیا، مگر ہندتوا کے حامی اس کی مدد سے ہندو راشٹریہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔

سوال: قدیم ہندوستان میں بھی انتہا پسندی کے خلاف تحریکیں چلیں اور اختلافات نے جنم لیا۔ وہ اختلافات کیسے دور ہوئے؟
جواب: ایک متحرک معاشرے میں انتہا پسندوں اور اعتدال پسندوں کے مابین اختلافات رہتے ہیں، وہ کبھی ختم نہیں ہوتے۔ اور آپ نے صحیح کہا کہ ماضی میں شدت پسندی کے خلاف ردعمل ہوا۔ مثلاً بدھ مت اور جین مت نے برہمن ازم کا مقابلہ کیا۔ اس دوران برہمنوں نے مخالفین کا خون بھی بہایا۔
تاہم قدیم ہندوستان میں دونوں قوتوں کے مابین جنگ زور دار نہیں رہی جبکہ یورپ میں تو سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑا۔ اس طرح قرون وسطیٰ میں کیتھولک چرچ نے آزادی رائے پر بے پناہ پابندیاں لگائے رکھیں، حتیٰ کہ مصنفین کو زندہ جلایا گیا۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آج بھارت میں ترقی پسند دانشوروں اور عقل پسندوں کے ساتھ جو اذیت ناک سلوک ہورہا ہے، قرون وسطیٰ میں ویسا ہی خوفناک سلوک وٹیکن نے ان کے ساتھ روا رکھا تھا۔

سوال: ہندو قوم پرستوں نے اپنا ایجنڈا آگے بڑھانے کے لیے کیا تاریخ سے مدد لی؟
جواب: بہت زیادہ! نظریہ ہندتوا کا ایک اہم پہلو ہندو قوم کو عظیم قرار دینا ہے۔ یہ مقصد حاصل کرنے کی خاطر نظریے سے متفق ماہرین تاریخ نے غیر ہندوؤں کو قابل نفرت اور گھٹیا قرار دے ڈالا۔ انہوں نے ہی یہ پروپیگنڈا کیا کہ مسلمانوں کے دور میں ہندوؤں کے ساتھ ذلت آمیز سلوک ہوا اور انہیں دانستہ پس ماندہ رکھا گیا۔ لیکن ہندوستان میں مسلمانوںکا ہزار سالہ دور حکومت کچھ اور منکشف کرتا ہے۔
تاریخ کی رو سے اس ہزار سال میں ہندو فلسفے کے مختلف مکتب فکر پیدا ہوئے۔ مذہب، فلسفے،ادب سے متعلق بہترین کتب تخلیق ہوئیں۔سنسکرت، پراکرت اور دیگر مقامی زبانوں کا شاہکار ادب مسلم دور حکومت ہی میں سامنے آیا۔فلکیات، ریاضی، موسیقی، تصوف غرض اس دور میں ہر شعبے نے ترقی کی۔ اس سے ثابت ہے کہ مسلمان حکمرانوں نے اپنے غیر مسلم عوام کو غلام بناکر نہیں رکھا، بلکہ انہیں ہر جائز کام کرنے کی پوری آزادی حاصل تھی۔ ظاہر ہے، اس دوران ناخوشگوار واقعات بھی پیش آئے، مگر ان کی تعداد بہت کم ہے۔
نظریہ ہندتوا کے حامی مورخین اپنی کتب میں مسلم حکمرانوں کے خلاف پروپیگنڈا کرتے اور جھوٹے سچے واقعات بڑھا چڑھا کر لکھتے ہیں۔ ان میں سے کئی واقعات انیسویں صدی میں انگریز مورخین نے اپنی کتب میں بیان کیے جن کے ماخذ مبہم ہیں۔ تب انگریز مورخین ہندو مسلم فساد چاہتے تھے، اس لیے بھی ان واقعات کی سچائی پر شک ہوتا ہے۔ مگر ہندتوا کے حامی مورخین انھیں مسلسل اپنی کتابوں میں بیان کر رہے ہیں۔

سوال: آپ اپنے زمانے اور آج کے اسکول کالجوں میں کوئی فرق پاتی ہیں؟
جواب: میرے والد فوجی ڈاکٹر تھے اور ان کا تبادلہ ہوتا رہتا۔ اسی لیے میں تھل، راولپنڈی، کوہاٹ، رزمک، پشاور، پونہ اور دہلی کے اسکولوں میں زیر تعلیم رہی اور جی ہاں، پچھلے اور آج کے تعلیمی اداروں میں نمایاں فرق ہے۔پہلے اساتذہ طلبہ و طالبات کو دنیا جہاں کی معلومات سے آگاہ کرتے تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ جماعت میں ہر کسی کو یہ آزادی حاصل تھی کہ وہ کوئی بھی سوال پوچھ لے۔ طلبہ و طالبات کو ابھارا جاتا کہ وہ سوچ بچار اور غور و فکر کریں۔افسوس، آج یہ عمل کافور ہوچکا۔
اس خرابی کی وجہ استاد کی عدم تربیت ہے۔ استاد غور و فکر نہیں کرتا، اسی لیے وہ طلبہ کو بھی سوچ بچار کرنا نہیں سکھاتا۔ لہٰذا ہمارے تعلیمی ادارے ایسے انسان پیدا کررہے ہیں جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اسی روش نے بھی معاشرے میں عدم برداشت اور انتہا پسندی کو رواج دیا۔اب حال یہ ہے کہ میں قدیم ہندو دیومالا پر معمولی سا اعتراض بھی کردوں تو مجھے قتل کی دھمکیاں ملنے لگتی ہیں۔ جو مصنف آزادی سے لکھے، اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ محض چالیس، پچاس سال قبل بھارتی معاشرہ ایسا نہیں تھا۔ تب لوگوں کو بولنے و لکھنے کی آزادی حاصل تھی۔ اب تو گولی کا راج ہے۔ میں یہ سوچ کر تھّرا جاتی ہوں کہ ہماری اگلی نسل کیا کرے گی جس کی فکر پر سیکڑوں پابندیاں بٹھادی گئی ہیں!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔