اسلام آباد کا موسم اور سیاست کے رنگ

محمد عاصم  پير 30 نومبر 2015
شہرِ اقتدار میں بستے چند ایسے بھی چہرے ہیں جو اس بستی کا اثاثہ ہیں، یہاں کی مرتی تہذیب کو سنوارنے کی کوشش، جن کا آخری عزم ہے جو علامہ اقبال اور قائد اعظم کا پاکستان سنوارنا چاہتے ہیں۔  فوٹو :فائل

شہرِ اقتدار میں بستے چند ایسے بھی چہرے ہیں جو اس بستی کا اثاثہ ہیں، یہاں کی مرتی تہذیب کو سنوارنے کی کوشش، جن کا آخری عزم ہے جو علامہ اقبال اور قائد اعظم کا پاکستان سنوارنا چاہتے ہیں۔ فوٹو :فائل

میں جیسے ہی کراچی کمپنی سے بلیو ایریا جاتے مین روڈ پر پہنچا، ہوا کی خنکی میں اضافہ ہوچکا تھا۔ ابھی سردیوں کے باقاعدہ آغاز میں چند دن باقی ہیں لیکن اسلام آباد کا موسم کافی سرد ہوچکا ہے۔ بہترین منصوبہ بندی سے بنے شہر کا شمار دنیا کے چند خوبصورت شہروں میں ہوتا ہے۔ حسن کی دیوی بھی پوری جمالیاتی نزاکتوں کے ساتھ اس شہر پر مہربان ہے اور اس شہر کے طلسم میں جو کوئی بھی ایک بار کھوگیا پھر اپنے آپ کو بچا نہیں سکا۔ شاید درباری بستیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔

سن ٹو ریس کی دلکش عمارت کے سامنے سے گذرتے، بلیو ایریا کے مین چوک سے جیسے ہی آپ فیصل ایونیو کی طرف بڑھتے ہیں، سامنے دور تک سبزے کی قطار کے آخری نکڑ پر مارگلہ ہلز کی بانہوں میں سمٹی فیصل مسجد کسی پری کی صورت آپ کے استقبال کو دکھائی دیتی ہے۔ آدمی نا چاہتے ہوئے بھی ان دلفریب نظاروں میں محو ہوجاتا ہے۔ چند دن تک پتے جھڑ جائیں گے پھر خشک ہوتے پتے اور بے لباس ٹہنیاں ہی دیکھائی دیں گیں، لیکن اس بستی کا طلسم اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ پھر بھی زندہ رہے گا۔

یار لوگ جب دل لگی کے لئے دامنِ کوہ کی آغوش میں جا بیٹھتے ہیں تو ایسے میں طاقت کا نشہ اور حُسن کا خمار اور بھی اندھا کردیتا ہے۔ ویسے ہی جیسے کوئی اپنی محبوبہ کی یاد میں اپنی باقی ذمہ داریوں سے لاتعلق ہوجاتا ہے یوں ایوان میں عوام دوست قانون سازی کم اور بھائی چارہ کی فکر زیادہ نظر آتی ہے۔ ابھی 40 ارب کے نئے ٹیکس لگنے کو ہیں جبکہ 46 ارب کے نئے قرضوں کی تیاری بھی تقریباََ مکمل ہے۔ یار لوگوں سے یاد آیا، قائد اعظم یونیورسٹی کے سامنے ایسا ہی ایک پڑھا لکھا مجذوب اور دیوانہ نظر آتا تھا جس کی محبوبہ اُسے بہار کی جوبن راتوں میں چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ محبت اتنا بڑا روگ بن جاتی ہے اس کا اندازہ مجھے پہلی بار اُس کی حالتِ زار کو دیکھ کر ہوا تھا۔

رنگ اور مزاج بدلتے موسم اسلام آباد کی پہچان ہیں۔ اسلام آباد اتنا بے وفا کیوں ہے؟ شاید اس کا جواب میر ظفر اللہ جمالی ہی دے سکیں یا پھر چوہدری برادران، لیکن اب تو اس خاک نوردی میں عمران خان صاحب بھی شامل ہوچکے ہیں۔ بہرحال یہ بستی ہمیشہ سے ایسے ہی لوگوں کا مسکن رہی ہے جو ہوا کو دیکھ کر سمت کا تعین کرتے ہیں ایک سیاسی لیڈر نے کہا تھا  ’’میری تو ایک ہی پارٹی ہے، حکومتی پارٹی‘‘ بقول شاعر،

ہمیشہ اوج پر دیکھا، مقدر ان ادیبوں کا
جو ابن الوقت ہوتے ہیں، ہوا کے ساتھ چلتے ہیں

آپ نے خزان رسیدہ پتوں کا تو ضرور سنا ہوگا، لیکن خزان رسیدہ چہرے؟ یہ آپ کو اسی شہر میں نظر آئیں گے۔ کیوںکہ اپنے اپنے حلقوں سے عوامی مینڈیٹ لیکر آنے والے پنچھی، اپنی مدت کے آخری دنوں میں ایسے ہی دیکھائی دیتے ہیں۔

یہاں پر بستے چند ایسے بھی چہرے ہیں جو اس بستی کا اثاثہ ہیں، اس شہر کی مرتی تہذیب کو سنوارنے کی کوشش، جن کا آخری عزم ہے جو علامہ اقبال اور قائد اعظم کا پاکستان سنوارنا چاہتے ہیں۔ انور مسعود، ڈاکٹر جاوید الرحمٰن، میاں اسلم، مسعود انور، ڈاکٹر عبدالقدیر خان،  پھر ایک لمبی فہرست ۔۔۔۔ کسی روز ضرور آپ کو اسلام آباد میں بسنے والوں سے متعارف کروائیں گے یہاں کے سیر و سیاحت کے مقامات اور علمی، تہذیبی اور ثقافتی مراکز سے بھی۔

آج کل اسلام آباد میں مون سون کا، ری ٹریٹنگ موسم ہے یعنی پسپا ہوتا مون سون۔ دسمبر سے پہلے اپنی آخری رونقیں بکھیرتا جس کے بعد دسمبر کی طویل اُداس شامیں، جوانی کی نئی کہانیوں کا سبب بنں گی۔ یاسمین گارڈن کے بینچ پر بیٹھا کوئی شاعر نئی غزل تخلیق کریگا۔پرندے ہجرت کی نئی مسافتیں طے کریں گے، ساز نئے سوز بھرے راگ بکھریں گے۔ کوئی کنول اپنی آپ بیتی سنائے گی، یوں شہرِ خاص یعنی اسلام آباد گذرتی رُت کا نیا گیت گاتا نظر آئے گا۔

اس بار کچھ نئے چہرے جو عوامی مینڈیٹ لیکر، مسندِ اقتدار پر براجمان ہوں گے، جی ہاں کچھ نئے پنچھی، کیوںکہ پہلی بار یہاں بھی بلدیاتی انتخابات کا میدان سج چکا ہے۔ فتح یاب آزاد اُمیدواروں کی ٹولیاں ’’پھل‘‘ سے جُھکے درختوں کی چھاؤں میں پناہ لینے کے لئے تیار بیٹھی ہیں۔ اوکاڑہ کا پنچھی اپنی شاخ سنبھال چکا ہے، باقی بھی اپنی ’’باری‘‘ اور ’’وزن‘‘  کے حساب سے نواز دئیے جائیں گے یوں سیاسی مون سون بھی ختم ہوجائے گا۔

فیصل مسجد کے میناروں سے سنائی دیتی آذان کی آواز، مجھے بھی وقت کا احساس دلا رہی ہے۔ شاید ابن انشاء مجھ جیسے بالے لڑکوں کے لیے کہا تھا۔

انشاء جی اٹھو! اب کوچ کرو
اس شہرمیں جی کا لگانا کیا

نوٹ: یکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنک

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔