ایڈز سے نفرت کیجیے، مریضوں سے نہیں!

عارف جمیل  منگل 1 دسمبر 2015
ایڈز کو اچھوت سمجھ کر انسانی رویے میں ایک ایسی تبدیلی آجاتی ہے کہ مریض بیماری سے مرنے کے بجائے لوگوں کے رویوں کے سبب سسک سسک کر مرجاتا ہے۔ فوٹو:فائل

ایڈز کو اچھوت سمجھ کر انسانی رویے میں ایک ایسی تبدیلی آجاتی ہے کہ مریض بیماری سے مرنے کے بجائے لوگوں کے رویوں کے سبب سسک سسک کر مرجاتا ہے۔ فوٹو:فائل

دُنیا بھر میں یکم دسمبر کو ’’ایڈز‘‘ کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ لہذا دنیا بھر میں اس دن کی آگہی کیلئے پہلے ہی لوگوں کی ایک بڑی تعداد یکم دسمبر 2015ء کیلئے بہت سے پروگرام ترتیب دے چکی ہے اور اس دفعہ اسکا موضوع رکھا گیا ہے۔

The Time to Act Is Now،  اب وقت آگیا ہےعمل کا۔

یہ ایک ایسی بیماری ہے کہ جس کے بارے میں چاہے لوگ کچھ بھی نہ جانتے ہوں لیکن اُس کے باوجود جونہی کسی کی طرف یہ نشاندہی ہوجائے کہ وہ فرد، عورت یا بچہ ایڈز کا مریض ہے تو اُس کو اچھوت سمجھ کر انسانی رویے میں ایک ایسی تبدیلی نظر آنا شروع ہوجاتی ہے کہ مریض بیماری سے مرنے کے بجائے لوگوں کے رویوں کے سبب سسک سسک کر مرجاتا ہے۔

ایسا شاید اس لیے ہوتا ہے کہ اِس بیماری کی جو اہم وجہ ہے وہ اس کے لئے کلنک کا ٹیکہ بن جاتا ہے اور اُس سے متعلقہ بچے بھی انسانی ہمدردی سے دُور ہوجاتے ہیں۔ لیکن اب وقت کے ساتھ ساتھ اِس بیماری کے متعلق معلومات حاصل ہورہی ہیں اور انتہائی اہم سطح سے اس سے متاثرہ مریضوں سے تعاون کی اپیل کی جاتی رہی اور آج بھی کی جارہی ہے تاکہ موجودہ ترقی یافتہ دور میں اس بیماری کا مقابلہ کرکے اِس کو شکست دی جاسکے نہ کہ انسانی رویہ سے مریض شکست کھا جائے۔

بڑے لوگوں کے کلمات

ایڈز کی بیماری کا طائرانہ جائزہ لینے سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ دُنیا کی مشہور شخصیات کے اِس بیماری سے متاثرہ مریضوں کے بارے میں کیا خیالات تھے۔

  • لیڈی ڈیانا ایڈز ہرگز کوئی اچھوت کی بیماری نہیں ہے، لہذا مریض سے ہاتھ ملایا جائے اور گلے لگایا جائے، قدرت کی طرف سے یہ اُنکی حوصلہ افزائی ہوگی
  • الزبتھ ٹیلر – کوئی ایڈز کی بیماری کی وجہ سے مرجائے یہ کم دُکھ کی بات ہوگی لیکن اگر کوئی مریض صرف اِس لیے مرجائے کہ لوگوں نے اچھوت سمجھ کر اُسے چھوڑ دیا تو اِس سے زیادہ تکلیف دے بات کوئی ہو نہیں سکتی۔
  • نیلسن منڈیلا – بچے کو پیار، ہنسی اور امن دو، ایڈزکا احساس نہ دو۔
  • شکیرہ – میرا یقین ہے کہ تعلیم سب سے موثر آلہ ہے لوگوں کو آگاہ کرنے کا، اپنے بچوں میں اعتماد پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ اِس صدی کی بڑی لعنت ایڈز سے اُنہیں بچایا جاسکے۔
  • جیکی چن – دل دُکھتا ہے، ایڈز کی بیماری والے بچوں کو تنگ کرنے سے، اکیلا چھوڑ دینے سے اور اسکول سے نکال دینے کی وجہ سے، تعلیم سے محروم ہوجانے پر اور اُن کو ادویات کی بہتر فراہمی نہ ہونے پر۔ اسطرح بچے آپکے پیار، خیال و حفاظت کے خواہش مند ہی رہ جاتے ہیں۔ میرا ساتھ دیں اُن کے دُکھ کو دور کرنے میں، بچوں کیلئے اکٹھے ہوں، ایڈز کیلئے اکٹھے ہوں۔
  • ملکہ لٹیفا – میں اپنے قریبی رشتے داروں کو ایڈز کی وجہ سے کھو چکی ہوں۔ اپنے دوستوں کو بھی ایڈز کی وجہ سے اور ہائی اسکول کے اُن دوستوں کو بھی جو 80ء کی دہائی میں اپنی 21 ویں سالگرہ بھی نہ مناسکے۔ لہذا یہ غور طلب ہے کہ آپ اس سے انکار نہیں کرسکتے کہ جو آپ کے قریبی ہیں اُن سے اس بیماری کے دوران الگ رہا جاسکے۔
  • بل کلنٹن – ہم ایک آزاد دُنیا میں رہتے ہیں لہذا اگر آسان الفاظ میں بات سمجھانے کی کوشش کی جائے تو اِس حقیقت سے ہم ہرگز انکار نہیں کرسکتے کہ ہم ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اگر آپ بھی اِس کو حقیقت سمجھتے ہیں تو پھر ہم ایڈز کو یک طرفہ سمجھتے ہوئے مریض سے بے توجہی کیوں کرتے ہیں؟ جبکہ ہم آزادی کی اصطلاح کی اہمیت کو بھی جانتے ہیں۔ ایڈز کسی ایک کا مسئلہ نہیں ہے یہ ہم سب کا مسئلہ ہے۔

درحقیقت ایڈز کے معاملے میں حالات کی خرابی کی اصل وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت اِس بیماری کی اصل اور بڑی وجہ جسمانی تعلق کو ہی سمجھتی ہے، جسکو معاشرے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا لیکن معاملہ یہ ہے کہ اگرچہ وہ وجہ بھی ٹھیک ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اِس بیماری کی اور بھی وجوہات منظر عام پر آچکی ہیں۔

ایڈز کیسے؟

ایڈز کا مرض HIV وائرس کے ذریعے پھیلتا ہے اور انسانی مدافعتی نظام کو تباہ کرکے رکھ دیتا ہے۔ اِس کے حملے کے بعد جو بیماری انسانی جسم میں داخل ہوتی ہے وقت کے ساتھ نہایت سنگین و مہلک صورت اختیار کرلیتی ہے۔

وبائی یا چھوت کا مرض نہیں

ایڈز کا یہ وائرس زیادہ تر خون اور جنسی رطوبتوں میں پایا جاتا ہے لیکن اسکے علاوہ یہ جسم کی دوسری رطوبتوں تھوک، آنسو، پسینہ میں بھی پایا جاتا ہے لیکن یہ رطوبتیں بیماری پھیلانے کا باعث نہیں بنتی۔ لہذا اسطرح واضح ہوچکا ہے کہ اسکی وجہ خون اور جنسی رطوبتیں ہی ہیں اور یہ نہ کوئی وبائی بیماری ہے نہ ہی اچھوت۔

خون کی وجہ سے

خون سے بھی یہ اُس وقت دوسرے میں منتقل ہوتی ہے جس وقت کسی ایڈز کے مریض کا خون دوسرے تندرست شخص کو لگ جائے یا پھر مریض کی استعمال کی ہوئی سرنج، دوبارہ استعمال ناک میں چھید کرنے والا اوزار، دانتوں کے علاج کرنے والے آلات، حجام و جراحی کے آلات وغیرہ دوبارہ استعمال کی جائیں۔ یہ مرض حمل یا پیدائش کے وقت ایڈز سے متاثرہ ماں کے ذریعے بھی بچے میں منتقل ہوسکتا ہے کیونکہ اگر یہ کسی میں موجود ہو تو اس وائرس کو فعال ہونے میں دس سال کا عرصہ بھی لگ سکتا ہے۔

چند اہم علامات

  • زکام کا زیادہ ہونا۔
  • جسم کا وزن بلا وجہ %10 سے زائد کم ہوجانا۔
  • ایک مہینے سے زیادہ اسہال رہنا۔
  • بخار کا ایک مہینے سے زائد عرصہ رہنا۔
  • مسلسل تھکاوٹ
  • اسکے علاوہ ڈاکٹرز اگر شک کی بناء پر کچھ ٹیسٹ کروائیں تو اُنکے اشارات پر ایڈز کا وائرس فعال ہوتا ہوا نظر آجاتا ہے۔

چند اہم احتیاطی تدابیر

  • ہمیشہ اپنے جیون ساتھی تک محدود رہیں۔
  • جنسی بے راہ روی سے بچیں۔
  • ٹیکہ لگواتے وقت ہمیشہ نئی سرنج استعمال کریں۔
  • کسی کا خون لگوانے سے پہلے جانچ کرلیں کہ وہ ہر وائرس سے پاک ہے۔
  • حجام کے پاس جائیں تو زور دیکر نیا بلیڈ استعمال کرنے کا کہیں۔

چند اہم حقائق

  • افریقہ میں یہ بیماری سینکڑوں سال پہلے سے موجود تھی اور سبز بندروں کی وجہ سے پھیلی۔
  • ہالی ووڈ کے مشہور ہیرو ’’راک ہڈسن‘‘ ہہلی مشہور شخصیت تھے جو ایڈز سے متاثر ہوئے تھے اور جن کا انتقال اِسی بیماری کی وجہ سے 1985ء میں ہوا تھا۔
  • ہر 2 ماہ بعد ایڈز کے مریضوں کی تعداد دُنیا بھر میں دُوگنی ہوجاتی ہے۔
  • اس وقت بھی دُنیا بھر میں افراد کی ایک بڑی تعداد HIV وائرس سے متاثر ہے۔
  • یکم دسمبر کو ہر سال ایڈز کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔
  • ہر سال دنیا بھر میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد ایڈز کے باعث انتقال کر جاتے ہیں۔

ادویات

اگرچہ پہلے 1989ء میں سان فرانسسکو کے ڈاکٹرز نے اور پھر 1995ء میں امریکن یونیورسٹی آف میری لینڈ کے سائنس دانوں نے ایڈز سے نمٹنے کے لیے کچھ ادویات تو تیار کیں ہیں لیکن ابھی تک اُنکے بہت مثبت نتائج سامنے نہیں آئے۔ ماہرین کے مطابق امریکہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں ’’اینٹی ریٹرو وائرل‘‘ ادویات کے استعمال کے ذریعے ایڈز کے مریضوں میں زندہ رہنے کا امکان %81 تک بڑھ گیا ہے۔

کیا آپ بھی ایڈز کو اچھوت کی بیماری سمجھ کر مریضوں سے دور بھاگتے ہیں؟

نوٹ: یکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔