- ججز کے خط کی انکوائری، وفاقی کابینہ کا اجلاس ہفتے کو طلب
- امریکا میں آہنی پل گرنے کا واقعہ، سمندر سے دو لاشیں نکال لی گئیں
- خواجہ سراؤں نے اوباش لڑکوں کے گروہ کے رکن کو پکڑ کر درگت بنادی، ویڈیو وائرل
- پی ٹی آئی نے ججز کے خط پر انکوائری کمیشن کو مسترد کردیا
- عدالتی امور میں ایگزیکٹیو کی مداخلت کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی، چیف جسٹس
- وفاقی حکومت نے کابینہ کی ای سی ایل کمیٹی کی تشکیل نو کردی
- نوڈیرو ہاؤس عارضی طور پر صدرِ مملکت کی سرکاری رہائش گاہ قرار
- یوٹیوبر شیراز کی وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات
- حکومت کا بجلی کی پیداواری کمپنیوں کی نجکاری کا فیصلہ
- بونیر میں مسافر گاڑی کھائی میں گرنے سے ایک ہی خاندان کے 8 افراد جاں بحق
- بجلی 2 روپے 75 پیسے فی یونٹ مہنگی کردی گئی
- انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی نسبت روپیہ تگڑا
- حکومت نے 2000 کلومیٹر تک استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دیدی
- کراچی: ڈی آئی جی کے بیٹے کی ہوائی فائرنگ، اسلحے کی نمائش کی ویڈیوز وائرل
- انوار الحق کاکڑ، ایمل ولی بلوچستان سے بلامقابلہ سینیٹر منتخب
- جناح اسپتال میں خواتین ڈاکٹروں کو بطور سزا کمرے میں بند کرنے کا انکشاف
- کولیسٹرول قابو کرنیوالی ادویات مسوڑھوں کی بیماری میں مفید قرار
- تکلیف میں مبتلا شہری کے پیٹ سے زندہ بام مچھلی برآمد
- ماہرین کا اینڈرائیڈ صارفین کو 28 خطرناک ایپس ڈیلیٹ کرنے کا مشورہ
- اسرائیل نے امن کا پرچم لہرانے والے 2 فلسطینی نوجوانوں کو قتل کردیا
’مبارک ہو، مبارک ہو، کشمیر آزاد ہوگیا‘
کشمیر کی سینٹرل جیل میں قید عارف احمد کی صبح جب آنکھ کھلی تو اُسے ماحول کچھ بدلا بدلا سا محسوس ہوا۔ حیرت ہے، آج کوئی ٹھوکریں مار کر جگانے نہیں آیا، اُس نے زخم سہلاتے ہوئے اپنے آپ سے سرگوشی کی۔ اُسے انتہائی خطرناک قیدی تصور کرتے ہوئے باقی قیدیوں سے بالکل الگ تھلگ رکھا گیا تھا، جہاں اُس پر آئے روز تشدد کیا جاتا تھا۔
’’کیا آپ ڈاکٹر عارف احمد ہیں؟‘‘ کچھ دیر بعد ایک سپاہی نے آکر بڑی نرمی سے پوچھا۔
’’ج جی ج جی! میں ہی عارف ہوں۔ میرا نام ہی ڈاکٹر عارف احمد ہے۔‘‘ مردہ جسم میں ایک دم جیسے جان آگئی تھی اور وہ ایک دم سے کھڑا ہوگیا، برسوں بعد کسی نے اُسے اُس کے اصلی نام سے پکارا تھا۔ ’’مگر یہاں کوئی نہیں مانتا، یہ سب مجھے دہشت گرد کہتے ہیں مگر میں کوئی دہشت گرد نہیں ہوں، میں تو ڈاکٹر ہوں، سری نگر کے ایک اسپتال میں پریکٹس کرتا تھا، جب یہ مجھے گرفتار کرکے لے آئے، میں کوئی دہشت گرد نہیں ہوں۔ مجھے بس’’ کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کا نعرہ لگانے کی سزا دی جارہی ہے، میں برسوں سے یہاں قید ہوں، نہ جانے میرے بعد میرے گھر والوں پر کیا بیتی ہوگی؟ وہ تو شاید جانتے بھی نہیں ہیں کہ میں یہاں قید ہوں‘‘۔ عارف احمد کی آواز بھر آئی تھی۔
’’بس اب کی سب تکلیفیں ختم ہونے جا رہی ہیں، آپ کو آزاد کیا جارہا ہے۔‘‘ سپاہی نے عارف کو سہارا دے کر اُٹھاتے ہوئے خوشخبری سنائی۔
’’آزادی کا سن کر عارف نے سپاہی پر ایک طنزیہ نگاہ ڈالی، ’’ہاں! جیسی زندگی میں یہاں گزار رہا تھا، اس کے بعد تم یہ کہہ سکتے ہو، مگر مجھے مار دینے کے بعد میرے گھر پرمیری موت کی اطلاع تو کر دو گے ناں؟ بے چاروں کو صبر آ جائے گا۔‘‘
’’آپ کوشاید یقین نہیں آ رہا مگر آپ کو واقعی آزاد کیا جا رہا ہے۔ آپ کو بہت بہت مبارک ہو کشمیر آزاد ہوگیا ہے، اور میں ایک پاکستانی سپاہی ہوں۔‘‘ سپاہی نے اپنے بازو پر لگا پاکستانی جھنڈا دکھاتے ہوئے کہا، ’’ہم نے آج ہی اس جیل کا کنٹرول سنبھالا ہے۔‘‘
’’تم سچ کہہ رہے ہو ناں بیٹا؟‘‘ عارف نے روتے ہوئے پوچھا اور سپاہی نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا۔ ’’یا اللہ! تیرا شکر ہے، تونے مجھے زندگی میں یہ مبارک دن دکھا دیا،‘‘ وہ خدا کے حضور سجدہ ریز ہوگیا۔
پاکستان کی شہہ رگ کو اپنا اٹوٹ انگ کہنے والے بھارت کو آخر کار سرِ تسلیم خم کرنا پڑا تھا، اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں ہونے والے غیر جانبدار ریفرنڈم میں کشمیری عوام نے اپنا فیصلہ پاکستان کے حق میں سنا دیا تھا، دشمنوں کی تمام سازشیں ناکام ہوچکی تھیں، بے مثال قربانیوں کے بعد آخرکار کشمیر پاکستان بن گیا تھا۔ جن جلسے جلوسوں میں کبھی ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کی صدائیں بلند ہوتی تھیں، آج اُنہی جلوسوں میں ’’پاکستان زندہ باد‘‘ اور ’’کشمیر بن گیا پاکستان‘‘ کے نعروں کی گونج تھی۔ ہر طرف پاکستانی پرچم لہرائے جا رہے تھے، جن ہندوؤں کو بھارتی حکومت نے ایک سازش کے تحت بھارت سے لاکر کشمیرمیں آباد کیا تھا، وہ اب اپنے ’’ملک‘‘ واپس جارہے تھے اور جو کشمیری بھارتی فوج کے ظلم وستم سے تنگ ہو کر کشمیر چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے، جوق در جوق واپس آ رہے تھے۔
وہ آج تقریباََ 12 سال بعد رہا ہوکر اپنے گھر واپس جا رہا تھا۔ جیل سے نکلا تو باہر کا منظر ہی اور تھا، عوام کا ایک جم غفیر اپنے آزادی کے ہیروز کوخراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے اُمڈ آیا تھا۔ ہر طرف ’’مبارک ہو، مبارک ہو، ہم آزاد ہوگئے، کشمیر آزاد ہوگیا‘‘ کی صدائیں تھیں۔ بریکنگ نیوز سے اُکتائی ہوئی پاکستانی عوام آج نیوز چینلز ٹیون کئے، ٹی وی اسکرینوں کے ساتھ چپکی بیٹھی تھی۔ ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں تھیں، مٹھائیاں تقسیم کی جا رہی تھیں، شکرانے کے نوافل ادا کئے جا رہے تھے۔
’’آج 12 سال بعد اپنی ماں سے ملوں گا، میرے بچے تو ماشاء اللہ اب جوان ہوگئے ہوں گے، کتنے خوش ہوں گے مجھے زندہ دیکھ کر‘‘
وہ گھر کے دروازے پر کھڑا اپنے آپ سے مخاطب تھا، دروازہ کھولا تو سامنے چارپائی پر بوڑھی ماں بیٹھی تھی، ’’امّاں!‘‘ اُس نے زاروقطار روتے ہوئے ایک چھوٹے بچے کی مانند پکارا، مگر ماں سے لپٹنے کے لیے ابھی اُس کی جانب دوڑا ہی تھا کہ ٹھوکر کھا کر گر پڑا۔
’’اُٹھو!‘‘ ایک آواز سنائی دی۔
’’اُٹھو! یہ جیل ہے، تمہارے باپ کا گھر نہیں جو ابھی تک سو رہے ہو‘‘۔ کوئی مسلسل ٹھوکریں مارتے ہوئے کہہ رہا تھا اور وہ ہڑ بڑا کر اُٹھ گیا۔
’’کشمیر تو آزاد ہوگیا ہے۔۔۔ ت ت تو پھر تم کون ہو؟‘‘ اُس نے بوکھلائے ہوئے پوچھا۔
’’لگتا ہے رات کی مار نے سیدھا دماغ پر اثر کیا ہے،‘‘ سپاہی نے حقارت سے کہا اور ایک سوکھی ہوئی روٹی اُس کے آگے پھینک کر چلا گیا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔