کاش ’’پاکستان سپر لیگ‘‘پاکستان میں ہی ہوتی

سلیم خالق  ہفتہ 6 فروری 2016
نجم سیٹھی کو کریڈٹ ضرور دینا چاہیے کہ تمام تر مخالفتوں کے باوجود ایونٹ شروع کرا ہی دیا۔ فوٹو: سوشل میڈیا۔

نجم سیٹھی کو کریڈٹ ضرور دینا چاہیے کہ تمام تر مخالفتوں کے باوجود ایونٹ شروع کرا ہی دیا۔ فوٹو: سوشل میڈیا۔

پاکستان سپرلیگ کا خواب آخرکار سچ ثابت ہو گیا، 2 ناکام کوششوں کے بعد پی سی بی کو تیسری کوشش میں کامیابی نصیب ہوئی، دبئی میں افتتاحی تقریب بھی خاصی رنگارنگ رہی، البتہ آتشبازی، ملکی اور غیرملکی اسٹارز و ڈانسرز کو دیکھ کر یہ خیال آیا کہ اس پر کئی کروڑ روپے ضرور خرچ ہو گئے ہوں گے، کراؤڈ کی تعداد بہت زیادہ نہیں البتہ مناسب کہی جا سکتی تھی،ایونٹ کا پہلا میچ عجیب انداز سے شروع ہوا جب شین واٹسن جیسے جارح مزاج بیٹسمین نے اوسط درجے کے بولر انور علی کا پہلا اوور میڈن کھیلا، بہرحال یہی کرکٹ ہے، نجم سیٹھی کو کریڈٹ ضرور دینا چاہیے کہ تمام تر مخالفتوں کے باوجود ایونٹ شروع کرا ہی دیا۔

جس طرح انھوں نے پی ایس ایل کیلیے ضد پکڑ لی تھی، میری خواہش ہے کہ اب وہ پاکستان ٹیم کی پرفارمنس میں بہتری کو انا کا مسئلہ بنائیں، رینکنگ میں مسلسل تنزلی کو ترقی میں بدلنے کا ارادہ کریں، ان کی اصل کامیابی وہی ہو گی، سپر لیگ کا انعقاد گوکہ پاکستان میں نہیں ہو رہا مگر آغاز پاکستانی اسٹائل سے ضرور ہوا،پہلے میچ میں ایک گھنٹے سے زائد تاخیر کسی صورت قابل قبول نہیں، یہ کرکٹ ایونٹ ہے کوئی میوزیکل کنسرٹ نہیں تھا جس میں افتتاحی تقریب کی وجہ سے میچ دیر سے شروع کیا گیا، اس طرح کی غلطیوں سے ناقدین کو انگلیاں اٹھانے کا موقع ملا، اسٹیڈیم میں شائقین کو ایونٹ سے لطف اندوز ہوتے دیکھنا خوش آئند تھا۔

البتہ یہ ضرور محسوس ہوا کہ کاش انعقاد ملک میں ہی کرایا جاتا، گوکہ نجم سیٹھی آئندہ برس 1،2 میچز اور پھر پورا ٹورنامنٹ ہی پاکستان میںکرانے کا اعلان کر چکے، لیکن اس بار بھی اگر صرف افتتاحی میچ ہی قذافی اسٹیڈیم میں کرا لیا جاتا تو شائقین کی کچھ تسلی ہو جاتی، افسوس کہ سیکیورٹی مسائل کے سبب ہمارا ملک غیرملکی ٹیموں کیلیے نوگو ایریا بن گیا، گوکہ اب حالات میں بہتری آ گئی مگر اعتماد واپس پانے میں وقت لگے گا۔

یہ درست ہے کہ مکمل ایونٹ کیلیے غیرملکی کھلاڑیوں کو پاکستان لانا ممکن نہ تھا مگر 1،2میچز کیلیے قائل کرنے میں دشواری نہیں ہوتی، ابھی منتظمین نے پہلا قدم ہی آگے بڑھایا ہے اصل امتحان آگے آئے گا، شائقین کو گراؤنڈ میں لانا بڑا چیلنج ہے، ایم سی ایل نے بہت زیادہ پبلسٹی کی اس کے باوجود ایونٹ بدترین ناکامی کا شکار ہے، تمام میچز میں اسٹیڈیم تقریباً خالی  ہی نظر آ رہے ہیں، معاوضوں کے تنازع پر غیرملکی کھلاڑیوں نے واپس جانے کی دھمکی دی تو انھیں چیک دے کر روکا گیا، پی ایس ایل کا یہ پہلا ایڈیشن اور اسے بہترین تاثر چھوڑنا ہے،پہلے زیادہ اقدامات نہیں ہوئے اب کوشش کرنی چاہیے کہ لوگوں کو گھر سے نکال کر اسٹیڈیم آنے پر مجبور کیا جائے۔

ملازمت پیشہ افراد کیلیے یہ مشکل ضرور ہے لیکن ایم سی ایل کے مقابلے میں ہمیں یہ ایڈوانٹیج حاصل ہے کہ ایونٹ میں موجودہ کرکٹرز شریک ہیں، شاہد آفریدی، شعیب ملک، محمد حفیظ، احمد شہزاد، عمر اکمل و دیگر کو ایکشن میں دیکھنے کیلیے پرستار اسٹیڈیم آ سکتے ہیں، اسی کے ساتھ یہ بات یقینی بنانا ہو گی کہ کھلاڑیوں کو معاوضے وقت پر ادا کیے جائیں، تاخیر سے پی سی بی کی بدنامی اورآئندہ کیلیے بڑے ناموں کا حصول مشکل ہو جائے گا، ویسے جو صاحب سوشل میڈیا پر بڑھ چڑھ کر دعوے کر رہے تھے کہ فلاں پلیئر سے معاہدہ ہو گیا یہ بھی آئے گا وہ بھی آئے گا، ان سے پوچھنا چاہیے کہ بھائی کہاں گئے سب؟ البتہ کرس گیل اور کیون پیٹرسن کی صورت میں2بڑے نام پی ایس ایل کو ضرورمیسر آ گئے۔

یہ نہ آتے تو ایونٹ کی کامیابی پر سوالیہ نشان لگ جاتا، چلیں جو بھی ہے لیگ شروع تو ہوئی اب ہمیں توقع کرنی چاہیے کہ کامیاب ثابت ہو گی، البتہ اس کا اصل علم اختتام پرحساب کتاب کے بعد ہی ہو گا، ویسے بھارتی تو پی ایس ایل کے انعقاد پر جلے بھنے بیٹھے ہیں، پاکستان میں کوئی معمولی سی بھی منفی خبر ہو بھارت کا میڈیا بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے، پی سی ایل کی افتتاحی تقریب کے حوالے سے بہت کم کوریج نظر آئی، غیرملکی نیوز ایجنسیز نے بھی اسے اہمیت نہیں دی۔

ایسے میں پی سی بی کے ڈائریکٹر میڈیا امجد حسین بھٹی اور رضا راشد نے پاکستانی میڈیا تک افتتاحی تقریب کی تازہ تصاویر و دیگر تفصیلات بروقت پہنچانا یقینی بنایا، منتظمین کو آگے بہت احتیاط سے چلنا ہو گا خاص طور پر کرپشن کے حوالے سے سخت اقدامات کی ضرورت ہو گی، پاکستان کے دشمن نہیں چاہتے کہ اس کے حوالے سے اچھی خبریں سامنے آئیں،لہٰذا سازشی عناصر نے کوششیں شروع کر دی ہوں گی۔

ایک چھوٹا سا واقعہ بھی ایونٹ کی ساکھ کیلیے انتہائی ناخوشگوار ثابت ہو سکتا ہے، کرنل (ر) اعظم کو حد سے زیادہ چوکس رہنا چاہیے،افتتاحی تقریب میں چیئرمین پی سی بی شہریارخان کو دیکھ کر اچھا لگا، چاہے آئی سی سی اور دیگر بورڈ حکام کو دکھانے کیلیے ہی سہی کہیں تو وہ اورنجم سیٹھی ایک صفحے پر نظر آئے۔

پی ایس ایل کی رنگینیاں اپنی جگہ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پی سی بی کا اصل کام آتشبازی کا زبردست مظاہرہ یا گیل سے ڈانس کرانا نہیں ہے، ٹیم کی پرفارمنس اہمیت رکھتی ہے، بدقسمتی سے اس وقت ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی تینوں کی رینکنگ میں پاکستان روبہ زوال ہے، مسلسل شکستوں نے ورلڈٹوئنٹی 20کی مہم پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا، حکام کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ شہریارخان کسی فکر میں مبتلا نظر نہیں آتے، چیف سلیکٹر ہارون رشید اسکواڈ کی تشکیل کا سوچنے کے بجائے پی ایس ایل ٹیکنیکل کمیٹی میں شامل ہو کر دبئی پہنچ چکے۔

وہاں وہ کمنٹری سے بھی لطف اندوز ہو رہے ہیں، کوچ وقار یونس اپنے نئے ملک آسٹریلیا میں اہل خانہ کے ساتھ چھٹیاں منا رہے ہیں، ایسے میں کیسے متوازن اسکواڈ تشکیل پائے گا یہ شائقین باآسانی سمجھ سکتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ سب بخوبی جانتے ہیں کہ ٹیم میگا ایونٹ میں کچھ نہیں کرے گی اس لیے فکر میں دبلا ہونے کی کیا ضرورت ہے، فی الحال علی ظفر اور سین پال کے گانوں سے ہی لطف اندوز ہوتے ہیں، بعد کا بعد میں دیکھا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔