افغانستان ٹی ٹی پی کی پناہ گاہ بن گیا

سید عاصم محمود  اتوار 7 فروری 2016
پاکستان کی مغربی سرحد کے پار بھارت اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیاں پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے طالبان کو استعمال کررہی ہیں فوٹو: فائل

پاکستان کی مغربی سرحد کے پار بھارت اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیاں پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے طالبان کو استعمال کررہی ہیں فوٹو: فائل

یہ 18 جنوری 2015ء کی صبح تھی جب چارسدہ کے نزدیک واقع باچا خان یونیورسٹی کے اردگرد چھ سات آدمی منڈلاتے دیکھے گئے۔ کسی نے اِس امر پر توجہ نہ دی کہ یہ آدمی یونیورسٹی کی ’’ریکی‘‘ کرنے آئے ہیں تاکہ اُس پر موثر حملہ کر سکیں۔ ان آدمیوں میں حاجی اکبر عرف عادل بھی شامل تھا۔ پیشے کے لحاظ سے یہ مستری باچا خان یونیورسٹی میںکام کر چکا تھا۔

اسی نے افغانستان سے آنے والے چار حملہ آوروں کو یونیورسٹی کا نقشہ بنا کر دیا۔اس نقشے کی مدد سے اور ریکی کے ذریعے جب حملہ آوروں کو خاصی معلومات حاصل ہو گئیں‘ تو انہوں نے دو دن بعد یونیورسٹی پر دھاوا بول دیا۔ اس حملے میں 25 طلبہ اور اساتذہ شہید جبکہ 60سے زائد زخمی ہوئے۔ حملے کی ذمہ داری ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) کے رہنما‘ عمر منصور نے قبول کر لی۔ اسی نے افغانستان سے حملہ آور بھجوائے تھے تاکہ وہ یونیورسٹی پر دھاوا بول سکیں۔

ٹی ٹی پی کے دیگر رہنماؤں کی طرح عمر منصور بھی پاکستان کی جمہوری حکومت کو غیر شرعی اور مغرب کی کٹھ پتلی سمجھتا ہے۔ چناں چہ وہ پاکستان پر قبضہ کر کے شریعت نافذ کرنا چاہتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ لاکھوں پاکستانی ٹی ٹی پی کی شریعت کو اسلامی نہیں خود ساختہ قرار دیتے اور اسے تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ ان کے نزدیک ٹی ٹی پی دور جدید کا خارجی فتنہ ہے جس نے نہ صرف مسلمانوں کو تقسیم کر دیا بلکہ وہ پاکستان کو بھی کمزور کرنا چاہتی ہے۔

ٹی ٹی پی ہم خیال تنظیموں کا اتحاد ہے جس کی بنیاد 2007ء میں رکھی گئی۔ تاہم نومبر 2013ء میں اس کا تیسرا امیر‘ حکیم اللہ محسود مارا گیا‘ تو تب سے یہ اتحاد شکست و ریخت کا شکار ہے۔

فی الوقت سوات سے تعلق رکھنے والا مولانا فضل اللہ ٹی ٹی پی کا رسمی سربراہ ہے،گو بہت سے رہنما اس کی قیادت تسلیم نہیں کرتے۔حکومت پاکستان کی طویل عرصہ سعی رہی کہ ٹی ٹی پی سے گفت و شنید کرکے جنگجو رہنماؤں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا جائے۔ تاہم یہ حکمت عملی کامیاب نہیں ہو سکی بلکہ اتحاد نے اسے حکومت کی بزدلی سے تعبیر کیا ۔ 2012ء تک بہت سے پاکستانی بھی ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو ’’مجاہد‘ ‘ سمجھتے تھے جو عیش و عشرت میں گرفتار حکمران طبقے سے نبرد آزما ہیں۔

اکتوبر 2012ء میں ٹی ٹی پی نے سوات کی ایک لڑکی‘ ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملہ کرایا۔ ایک نہتی لڑکی پر حملے کے بعد قومی سطح پر اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور پہلی بار عوام یکجا ہو کر اس اتحادکی مذمت کرتے نظر آئے۔جب نواز شریف حکومت برسراقتدار آئی ‘ تو اس نے نئے سرے سے کوششیں کیں کہ ٹی ٹی پی ہتھیار ڈال دے‘ مگر اتحاد نے جون 2014ء میں کراچی ہوائی اڈے پر حملہ کر کے سخت جواب دیا۔

چناںچہ اسی مہینے اتحاد کے خلاف پاک فوج نے ’’آپریشن ضرب عضب‘‘ کا آغاز کیا۔ یہ آپریشن نتیجہ خیز ثابت ہوا۔ پاک فوج نے جنوبی وزیرستان میں ٹی ٹی پی کے کئی ٹھکانے تباہ کر دیئے اور اس کا تنظیمی ڈھانچا روند ڈالا۔ مولانا فضل اللہ اور عمر منصور سمیت ٹی ٹی پی کے بیشتر رہنما اپنی جانیں بچانے کی خاطر افغانستان فرار ہو گئے۔

جب ٹی ٹی پی کا قیام عمل میں آیا‘ تو جلد ہی بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور افغان خفیہ ایجنسی کے مقامی ایجنٹ اس اتحاد میں داخل ہو گئے۔ انہوں نے ٹی ٹی پی کو اسلحہ اور سرمایہ فراہم کیا تاکہ پاکستان کو بہ حیثیت ریاست کمزور کیا جا سکے۔ یہ بھارتی حکمران طبقے کا خفیہ منصوبہ ہے جسے 1971ء میں پہلی بار مشرقی پاکستان میں عمل میں لایا گیا۔ اسی منصوبے نے مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان کے خلاف بغاوت کرانے میںاہم کردار ادا کیا تھا۔

پاکستان کے انٹیلی جنس اداروں نے ہمیشہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی سازشوں کا بھرپور انداز میں جواب دیا ہے۔ اس صورتحال کا جواب بھارت نے یوں دیا کہ  بھارتی خفیہ ایجنسیاں مقبوضہ کشمیر میں عام لوگوں کو قتل کرنے لگیں تاکہ جدوجہد آزادی کو دہشت گردی کا روپ دیا جاسکے ۔ملک کے اندر موجود علیحدگی پسند عناصر کو کھل کر امداد دینے لگا۔

بھارتی اور افغان خفیہ ایجنسیوں نے اپنے اپنے مفادات کی خاطر ٹی ٹی پی کو سپورٹ کیا۔ مختلف حملوں میں ملنے والا بھارتی اسلحہ‘ ادویہ اور دیگر سامان اس امر کا ثبوت ہے کہ اتحاد میں شامل مختلف تنظیموں کو بھارتی خفیہ ایجنسی را اسلحہ اور سرمایہ فراہم کرتی ہے تاکہ وہ مملکت پاکستان پر حملے کر سکیں۔ سابق امریکی وزیر دفاع‘ چک ہیگل اور موجودہ بھارتی مشیر قومی سلامتی‘ اجیت دوال پاکستان کے خلاف جاری خفیہ بھارتی جنگ کی تصدیق کر چکے۔

اس ضمن میں ٹی ٹی پی کے گرفتار شدہ اہم رہنما،لطیف محسود کا حالیہ بیان بھی چشم کشا ہے۔چند ہفتے قبل نامعلوم افراد نے بھارتی فضائیہ کے پٹھان کوٹ ہوائی اڈے پر حملہ کیا ۔ بعدازاں بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر نے پاکستان کو یہ کہہ کر دھمکی دی ’’جنہوں نے ہم پر حملہ کیا ہے‘ وہ خود بھی جلد درد محسوس کریں گے۔ جگہ اور حملے کی نوعیت کا چناؤ ہم کریں گے۔‘‘ اس دھمکی کے چند دن بعد ہی ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے باچا خان یونیورسٹی پر حملہ کر دیا۔

آپریشن ضرب عضب سے شکست کھا کر ٹی ٹی پی پسپا ہوئی‘ تو اس کے رہنما پاکستان سے فرار ہو کر تین افغان صوبوں… ننگرہار‘ کنڑ اور نورستان میں مقیم ہو گئے۔ ان رہنماؤں میں مولانا فضل اللہ‘عمر منصور‘ منگل باغ‘ شیخ خالد حقانی‘ عمر خالد خراسانی‘ شہر یار محسود‘ عدنان رشید وغیرہ شامل ہیں۔ ماہرین کی رو سے ٹی ٹی پی کی چار پانچ بڑی تنظیمیں اب آزادانہ طور پر کام کر رہی ہیں اور کسی ایک شخصیت کو اپنا امیر تسلیم نہیں کرتیں۔

ٹی ٹی پی سے وابستہ تین عوامل
باچا خان یونیورسٹی پر حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ٹی ٹی پی کو ابھی تک مکمل طور پر شکست نہیں ہوئی اور وہ مستقبل میں بھی پاکستانی عوام یا سکیورٹی فورسز پر حملے کر سکتی ہے۔ دراصل اس کی بقا کے ذمے دار تین اہم عوامل اب بھی برقرار ہیں۔

جب تک ان تین عوامل کا خاتمہ نہیں ہوتا‘ ٹی ٹی پی کو اپنی دہشت گردانہ سرگرمیاں انجام دینے کے لیے آکسیجن ملتی رہے گی۔متذکرہ بالا عوامل میں سب سے پہلا یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کو افغانستان کی صورت ایک پناہ گاہ مل چکی۔ کنڑ‘ ننگرہار‘ نورستان اور دیگر افغان اضلاع میں پشتونوںکی کثرت ہے۔ لہٰذاٹی ٹی پی کو وہاں بھی ہم خیال مل گئے جو پاکستانیوں کو مغرب کا پٹھو اور کافر سمجھتے ہیں۔

دوسرا یہ کہ ٹی ٹی پی کو بھارت کی صورت مالیاتی پائپ لائن ملی ہوئی ہے۔ اس پائپ لائن کے ذریعے اتحاد کی مختلف تنظیموں کو مسلسل سرمایہ مل رہا ہے۔ تنظیمیں اسی سرمائے کے ذریعے اسلحہ خریدتی ہیں۔ اگرچہ اب ’’را ‘‘یہ احتیاط ضرور کر رہی ہے کہ ٹی ٹی پی کو بھارتی اسلحہ اور دیگر سامان نہ دیا جائے۔

مثال کے طور پر باچا خان یونیورسٹی میں جواسلحہ استعمال ہوا‘ وہ دہشت گردوں نے درہ آدم خیل سے خریدا۔ٹی ٹی پی کی بقا کا ذمے دار تیسرا عمل یہ ہے کہ پاکستان میں اب بھی اسے اپنے نظریات سے اتفاق کرنے والے پاکستانی مل جاتے ہیں۔ مثلاً باچا خان یونیورسٹی حملے میں پانچ چھ پاکستانی افغانستان سے آنے والے دہشت گردوںکی معاونت کرتے رہے۔ ان کی مدد ہی سے یہ حملہ انجام پایا ۔

حملوں کا ماسٹر مائنڈ
ماضی میں افغان طالبان کئی بار ٹی ٹی پی سے اظہار لا تعلقی کر چکے ۔ دسمبر 2014ء میں جب ٹی ٹی پی نے آرمی پبلک اسکول‘ پشاور پر حملہ کیا‘ تو افغان طالبان نے اسے ’’غیر اسلامی‘‘ قرار دے کر اس کی مذمت کی تھی۔ تاہم افغان طالبان اپنی حکومت کے علاوہ داعش سے بھی نبر دآزما ہیں۔ لہٰذاوہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائیاں کرنے سے نیا محاذ جنگ نہیں کھولنا چاہتے۔ اسی لیے اتحاد کے رہنما افغان صوبوں میں فی الوقت آرام و سکون سے رہ رہے ہیں۔

ٹی ٹی پی کے رہنماؤں میں مولانا فضل اللہ کے بعد عمر منصور سخت گیر اور جنگجو رہنما ثابت ہوا ہے۔ ماہرین کے نزدیک یہی آرمی پبلک سکول اور باچا خان یونیورسٹی پر خوفناک حملوں کا ’’ماسٹر مائنڈ‘‘ ہے۔ 37 سالہ عمر منصور پشاور کے مضافات میں واقع ایک گاؤں ادیزی میں پیدا ہوا۔ اسلام آباد میں سکول اور مدرسے میں زیر تعلیم رہا۔ تعلیم مکمل کر نے کے بعد کراچی چلا گیا اور وہاں بہ حیثیت مزدور کام کرتا رہا۔2007ء میں ٹی ٹی پی کا حصہ بن گیا اور اپنی بہادری و شدت پسندی کی وجہ سے جلد اہم کارکنوں میں شمار ہونے لگا۔ حکیم اللہ محسود نے آخر کار اسے علاقہ پشاور کاامیر بنا دیا۔

2013ء میں درہ آدم خیل کا ٹی ٹی پی کمانڈر طارق منصور مخالف گروہ، لشکر اسلام (منگل باغ) کے ہاتھوں مارا گیا۔ تب عمر منصور کو درہ آدم خیل‘ نوشہرہ اور اردگرد کے علاقوں کا بھی امیر مقرر کیا گیا۔ٹی ٹی پی کے اندرونی حلقوں میں عمر منصور ’’خلیفہ‘‘ کہلاتا ہے۔ اس کا شمار مولانا فضل اللہ کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ مولانافضل اللہ ہی نے عمر منصور کو باچا خان یونیورسٹی پر حملے کی اجازت دی تھی۔ اسی لیے حکومت پاکستان نے امریکا پر زور دیا کہ وہ کنٹر میں چھپے فضل اللہ پر ڈرون حملہ کر دے۔ 25 جنوری کو آخر ڈرون حملہ ہو گیا جس میں فضل اللہ کے ساتھی مارے گئے تاہم وہ خود محفوظ رہا۔

قلع قمع کرنے کے اقدام
تحریک طالبان پاکستان کوئی بھاری اسلحہ مثلاً توپیں‘ ٹینک‘ ہوائی جہاز وغیرہ نہیں رکھتی‘ خودکش حملے اور بم دھماکے اس کا بنیادی ہتھیار ہے۔ وہ اسی طریقے سے پاکستانی حکومت اور قوم کو خوفزدہ کرنا چاہتی ہے تاکہ پاکستان پر قبضے کے اپنے مقصد کو عملی جامہ پہنا سکے۔باچا خان یونیورسٹی پر حملہ اس امر کا ثبوت ہے کہ ٹی ٹی پی اب بھی اتنی طاقتور ہے کہ کم از کم ’’سافٹ ٹارگٹ‘‘ کو نشانہ بنا سکے۔

ان ٹارگٹوں میں تعلیمی ادارے اور میڈیا کے دفاتر شامل ہیں۔ عمر منصور تو اپنی ہر وڈیو میں دھمکی دیتا ہے کہ اسکولوں‘ کالجوں‘ اور یونیورسٹیوں پر مزید حملے کیے جائیں گے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ آپریشن ضرب عضب میںان کے بال بچے مارے گئے ہیں اور پاکستانی تعلیمی اداروں پر دھاوا بول کر وہ بدلہ لینا چاہتا ہے۔

صورت حال سے واضح ہے کہ ٹی ٹی پی کا قلع قمع کرنے کے لئے ابھی بہت سے اقدامات کرنا ضروری ہیں۔ مثال کے طور پر اس کی مالیاتی پائپ لائن کو ختم کرنا اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ ٹی ٹی پی بھارت ہی نہیں مجرمانہ سرگرمیوں سے بھی بھاری رقوم حاصل کرتی ہے۔ پچھلے دنوںانکشاف ہوا کہ کراچی میں ٹی ٹی پی سے منسلک بھتا لینے والا گینگ کام کر رہا ہے۔ اتحاد کے کارندے بینک ڈکیتیوں اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں بھی ملوث ہیں۔

عدالتی نظام کی اصلاح بھی وقت کی پکار ہے تاکہ عوام الناس کو انصاف فوری مہیا ہو سکے۔ یاد رہے شمالی علاقہ جات میں ٹی ٹی پی کو شروع میں اسی لیے پذیرائی ملی کہ وہ لوگوں کو فوری انصاف دیتے تھے اور انہوں نے قانون کے سامنے امیر و غریب کی کوئی تمیز نہیں رکھی ۔ مگر جلد ہی ٹی ٹی پی سزائیں دینے میں بہت زیادہ شدت پسند ہو گئی اور توازن کھو بیٹھی۔اس امر نے علاقے کے لوگوں کو اس سے برگشتہ کر دیا۔

دنیا بھر میں حکومتیں جنگجو تنظیموں کے خلاف تین نکاتی منصوبہ … صفائی کرنا‘ قائم رہنا اور تعمیر نو اپناتی ہیں۔ پاک فوج شورش زدہ علاقوں سے جنگجو ؤں کی صفائی کرچکی۔ اب حکومت کا فرض ہے کہ وہ صاف شدہ علاقوں میں حکومتی رٹ قائم کرے۔ یہ اسی صورت ممکن ہے کہ وہاں کے باشندوںکو معاشرتی انصاف اور زندگی کی بنیادی سہولیات مثلاً بجلی ‘ پینے کا صاف پانی‘ گیس‘ ٹرانسپورٹ وغیرہ مہیا کی جائیں۔سڑکیں اور شاہراہیں تعمیر کرنا اپنی جگہ اہم لیکن وقت کی ضرورت یہ ہے کہ’’نیشنل ایکشن پلان‘‘ پر سرمایہ خرچ کیا جائے تاکہ وطن عزیز سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو سکے اور ملک میں امن و امان جنم لے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔