خود اعتمادی بڑھائیں اور کامیاب ہو جائیں

رشید حیات  اتوار 7 فروری 2016
’’ خوداعتمادی ہمیشہ درست اور صحیح ہونے سے نہیں آتی بلکہ اپنی غلطیوں سے نہ گھبرانے سے آتی ہے‘‘  ۔  فوٹو : فائل

’’ خوداعتمادی ہمیشہ درست اور صحیح ہونے سے نہیں آتی بلکہ اپنی غلطیوں سے نہ گھبرانے سے آتی ہے‘‘ ۔ فوٹو : فائل

ہیلن کیلر نے کہا تھا ’’ہمیشہ اپنا سر اْونچا رکھیں، اسے کبھی نہ جھکائیں اور دنیا کو اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھیں۔ ‘‘ آپ نے اکثر دوستوں کو یہ کہتے سنا ہوگا’’ یار ہمیشہ پْر اعتماد رہو،کبھی نہ گھبراؤ‘‘ لیکن جو شخص اپنے آپ کو زیادہ پْر اعتماد محسوس نہیں کرتا اْس کیلئے یہ مشورہ کافی نہیں ہوتا۔ ان سطور میں چند نہایت آزمودہ اور مددگار تجاویز بیان کی جا رہی ہیں جن کی مدد سے آپ اپنی خود اعتمادی کو نہ صرف بحال کرسکتے ہیں بلکہ اسے قائم بھی رکھ سکتے ہیں۔

۱۔ فوری عمل کرنا اور کام کو مکمَل کرنا:جب آپ کسی کام کو کرنے کا اِرادہ کریں تو اسے ہر صورت تمام مشکلات اور بیزاری کے باوجود مکمَل کریں۔ ایک محنت طلب کام کو مکمَل کرنے کی خوشی آپ میں بے اِنتہا خود اعتمادی پیدا کرے گی۔ مشہور امریکی موٹی ویشنل ٹرینر ڈیل کارنیگی فوری عمل کرنے کے تین آسان طریقے بتاتے ہیں۔ا)لمحۂ موجودمیں رہنا: یہ آپ کو زیادہ سوچنے سے نکالے گاتاکہ آپ اس کام کی طرف راغب ہوں جو آپ کرنا چاہ رہے ہیں۔

لمحۂ موجودمیں رہنے کیلئے ایک آسان طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ اپنی توجہ ایک سے دومنٹ کیلئے اپنے سانس پر مرکوز کرلیں۔ب) پْرسکون اور ہلکا محسوس کرنا: ایک اور اہم چیز جو آپ کو فوری عمل کرنے سے روکتی ہے وہ چیزوں کو بہت مشکل تصوَر کرنا اور اْن کو بہت زیادہ اہمیت دینا ہے ۔ اس کے برعکس اگر آپ پْرسکون رہیں اور اپنے آپ کو اس بوجھل پن سے نکال لیں تو آپ کو احساس ہوگا کہ یہ سب آپ کے ذہن کی اختراع ہے جبکہ پْرسکون اور ہلکی حالت میں آنے سے آپ کو یہی کام آسانی سے کرنے کی ترغیب ملے گی۔ج) کام کرنے کی شدَت کو محسوس کرنا: اس شدَت کو محسوس کرنے سے آپ کو یہ کام بوجھ محسوس ہونے کے بجائے ایک قدرتی ترغیب ملے گی جس کیلئے آپ مزید انتظار نہیں کرسکتے۔

۲۔ اپنے خوف پر قابو پانا: خود اعتمادی بحال کرنے کیلئے آپ اس کام کو ضرور کریں جس سے آپ خوف محسوس کرتے ہیں۔ایک اور فلسفی ایسنر روزویلٹ کہتا ہے’’ہر اس تجربے میں جس میں آپ رْک جائیں اور خوف محسوس کریں اْس کو سرانجام دینے کے بعدآپ ہمیشہ ایک طاقت،ہمَت اور اعتماد محسوس کریں گے کیونکہ آپ خود سے کہنے کے قابل ہوجاتے ہیں کہ میں یہ مشکل اور خوفناک کام کرسکتا ہوں تو میں باقی تمام کام بھی کرسکتا ہوں۔‘‘

آپ مندرجہ ذیل چند طریقوں کو اپناکر اپنے خوف اور ذہنی رکاوٹوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں

ا)اپنے تجسس کو بڑھائیں: یہ ایک قدرتی عمل ہے کہ جونہی خوف کی وجہ سے کوئی رْکاوٹ آتی ہے تو آپ اپنے ذہن اور اپنی دنیا میں تفریق کرنے لگتے ہیں اور آپ کا ذہن آپ میں اور دوسرے لوگوں میں رْکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کر دیتا ہے۔لیکن جونہی آپ اپنے تجسس کو بڑھائیں گے اور اپنی چاہت سے معلومات حاصل کرنا شروع کر دیں گے تو یہ تمام تصوَرات ہوا میں تحلیل ہونے لگیں گے اور آپ کی دنیا آپ پر واضح ہونا شروع ہو جائے گی۔ آپ کا تجسس آپ کے جوش ، ولولے اور آگے بڑھنے کے جذبے کو بڑھائے گااورآپ اپنے خوف سے نکل کر بہت کچھ سوچنے کے قابل ہوجائیں گے۔

ب) خوف کو سمجھنے میں دھوکہ نہ کھایئے: انسان ہونے کے ناطے ہماری سوچ کی ایک ترتیب ہوتی ہے جو کہ عموماً منفی ہوتی ہے جو زیادہ تر ہمارے ماضی کے ایک دو تجربات پر مبنی ہوتی ہے ۔ آپ اپنے ایسے منفی خیالات کو بہت زیادہ اہمیت نہ دیں کیونکہ یہ اکثر حقیقت پر مبنی نہیں ہوتے۔

۳۔ چیزوں کے رونما ہونے کی ترتیب کو سمجھیئے:اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ جس کام کو کرنے سے آپ خوفزدہ ہوتے ہیں اْس کام کے کرنے کی ہمَت اس کام کے سرانجام دینے کے بعد ہی آتی ہے۔ مثال کے طور پر لوگوں کے ہجوم سے خطاب کرنا، دوستوں کے ساتھ گھومنا پھرنا اور گپ شپ لگانا، اپنے جوتوں کے تسمے باندھنا یا پھر پانی کے شاور کے نیچے نہانا۔ یہ تمام کام ابتداء میں مشکل اور خوفناک لگتے ہیں لیکن جیسے جیسے آپ ان کاموں کو کرتے چلے جائیں تو یہ آسان ہوتے چلے جاتے ہیں اور بعض دفعہ آپ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ’’میں بھی کتنا بیوقوف ہوں کہ بِلا وجہ اس کام کو کرنے سے خوفزدہ رہا‘‘ اور بعض دفعہ اس کاپچھتاوا بھی ہوتا ہے کہ میں نے اس تجربے کو پہلے کیوں نہ کرلیا۔

۴۔ کام کو کرنے سے پہلے اْس کی تیَاری:ایک فلسفی آرتھر کہتا ہے کہ ’’کامیابی کیلئے ایک ضروری چیز خوداعتمادی ہے اور خوداعتمادی کی کنجی کام کے کرنے کی تیَاری میں ہے‘‘ جب آپ کسی کام کے متعلق کچھ نہیں جانتے تو آپ بڑی آسانی سے مبہم چیزوں میں کھو جاتے ہیں، خوف کی دْھند آپ کے ذہن پر چھا جاتی ہے اور آپ اپنے ذہن میں ایک خوفناک منظر بنالیتے ہیں کہ اگر آپ نے یہ کام کیا تو یہ خوفناک واقع رونما ہو جائے گا۔ لہٰذا اس موقع پر اپنے آپ کو تیَار کرنا اور اپنے علم میں اضافہ کرنا آپ کیلئے بہت مددگار ہوگا۔

۵۔ ناکامی کو موت اور زندگی کا مسئلہ نہ بنائیں:پیٹر میکنٹائر نے کہا کہ ’’خوداعتمادی ہمیشہ دْرست اور صحیح ہونے سے نہیں آتی بلکہ اپنی غلطیوں سے نہ گھبرانے سے آتی ہے‘‘ لہٰذا اس بات کو سمجھیں کہ آپ کو اپنے خوف پر قابو پانا ہے تبھی آپ پر یہ حقیقت آشکار ہوگی جیسے کہ آپ سے پہلے لاکھوں کامیاب لوگوں پر منکشف ہوئی یعنی غلطی اور ناکامی نہ تو آپ کو مار دیتی ہے اور نہ کوئی آسمان سر پر ٹوٹتا ہے۔

اب یہ سمجھئے کہ ناکامی آپ کے لئے کس طرح مددگار ہوتی ہے۔

ا)آپ سیکھتے ہیں: آئندہ سے ناکامی کو ایک خوفناک چیز سمجھنے کے بجائے ایک سبق آموز تجربہ سمجھیں۔ جب بھی آپ ناکامی کے قریب ہوں تو ہمیشہ اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ اس تجربے کی اچھی بات کیا ہے یا میں اس تجربے سے کیا کچھ سیکھ سکتا ہوں/سکتی ہوں۔

ب) آپ وہ کچھ حاصل کر رہے ہیں جو کسی اور ذریعہ سے حاصل نہیں کر سکتے: اصولی طور پر تو آپ یہ چاہیں گے کہ آپ دوسروں کی غلطیوں سے سیکھیں اور سبق حاصل کریں لیکن ہمیشہ ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ بعض اوقات آپ کو خود ہی ناکام ہونا پڑتا ہے تاکہ آپ سیکھ سکیں اور وہ تجربہ حاصل کریں جو کسی اور کے الفاظ سے ممکن نہیں۔

ج) آپ طاقتور ہوتے چلے جاتے ہیں: جب بھی آپ ناکام ہوتے ہیں تو ایک تو ناکامی کے بارے میں آپ کی حسَاسیت کم ہوتی ہے اور دوسرے آپ کا اس بارے میں احساس بڑھتا ہے کہ اس مقام پر دنیا ختم نہیں ہوجاتی اور آپ اْن معاملات سے نمٹنے کے قابل ہو جاتے ہیں جنہیں آپ کچھ عرصہ قبل نہیں نمٹ پاتے تھے۔ اس کے علاوہ آپ میں یہ اعتماد بڑھتا ہے کہ اگرچہ آپ کو ناکامی ہوئی لیکن گھر کے ایک کونے میں بیٹھنے کے بجائے آپ نے اس کام کو کرنے کی ہمَت کی جس کیلئے یقیناً بڑے جگرے کی ضرورت ہوتی ہے۔

د) آپ کی کامیابی کے اِمکانات بڑھ جاتے ہیں: آپ جب بھی ناکام ہوتے ہیں آپ کی اندرونی طاقت بڑھ جاتی ہے اور اس طرح آپ کے کامیابی کے اِمکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ایک چیز یاد رکھیں کہ دنیا آپ کے گرد نہیں گھومتی۔ لوگوں کو اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ آپ کیا کرتے ہیں۔ وہ آپ کے متعلق اتنا نہیں سوچتے کہ آپ ناکام ہونے میں کیا کیا غلطیاں کر رہے ہیں۔ اگرچہ یہ سوچ مایوس کن ہے لیکن یہ آپ کو آزاد اور مطمئن کر دیتی ہے کہ ہر شخص آپ کو دیکھ نہیں رہا اور نہ نگرانی کر رہا ہے۔

۶۔ خود کو پہچانیے:معروف لکھاری اور فلسفی نپولین ہِل نے کہا ’’دنیا کی یہ عادت ہے کہ وہ اْس شخص کیلئے جگہ بناتی ہے جس کے قول و فعل سے یہ معلوم ہو سکے کہ اس شخص کو اپنی منزل کی سمت کا پتہ ہے۔‘‘ ایک اور فلسفی ڈوگلس بارڈر کا یہ کہنا ہے کہ ’’یہ بہت بڑی بیوقوفی ہوگی اگر آپ اْن لوگوں کی ماننا شروع کردیں جو آپ کو بتاتے ہوں کہ کون سا کام آپ کیلئے مشکل ہے اور کون سا نہیں کر سکتے۔

خود کو پہچاننے کے بعد آپ کو کوئی بھی فیصلہ کرنے کیلئے کبھی بھی کسی بیساکھی کی ضرورت نہیں رہے گی۔ آپ اپنے تمام خوفوں کا سامنا کریں۔مختلف تجربات کے ذریعے اپنے آپ کو مضبوط بنائیں اور اپنا اندرونی اطمینان حاصل کریں اور یہ معلوم کریں کہ کیا چیز آپ کو اندرونی خوشی دیتی ہے اور جوش دلاتی ہے اور جب آپ کو معلوم ہوجائے کہ آپ کون ہیں اور دنیا میں کیا کرنا چاہتے ہیں تو پھر بجائے اس کے کہ کوئی اور آپ کو بتائے کہ آپ کو کیا کرنا چاہیئے آپ خو اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔