انتظار حسین: پنچھی اڑ گیا

زاہدہ حنا  اتوار 7 فروری 2016
zahedahina@gmail.com

[email protected]

اردو افسانے کی منڈیرے کا چہکتا ہوا پنچھی پکھیرو اڑ گیا۔ اکیسویں صدی کا آغاز اردو ادب پر کچھ بھاری پڑا ہے۔ 2007ء میں اردو ناول اور افسانے کی ملکہ عالیہ قرۃالعین حیدر نے آگ کا دریا ڈوب کر پار کیا اور آنکھوں سے اوجھل ہو گئیں اور اب 2016ء میں جاتک کہانیوں کے جنگل کی سیر کرنے اور کرانے والے انتظار حسین مہاتما بدھ کے قدموں پر چلتے ہوئے جانے کدھر نکل گئے۔ ان لوگوں کے لیے تلاش گمشدہ کا اشتہار بھی نہیں دیا جا سکتا۔ بس یہ احساس سینہ کھرچتا ہے کہ ہم تہی دست ہو گئے۔

انتظار صاحب سے تعلق کا رشتہ نصف صدی پر پھیلا ہوا ہے۔ 1966ء اور 67 ء کا زمانہ یاد آتا ہے جب وہ روزنامہ ’’مشرق‘‘ میں کالم لکھ رہے تھے۔ یہ اخبار کراچی سے نکلنا شروع ہوا تو مرحوم عنایت اللہ اور فرہاد زیدی صاحبان کی فرمائش پر میں نے ’اخبار خواتین‘ سے علیحدگی اختیار کی۔ عنایت اللہ کا خیال تھا کہ میں روزنامہ ’مشرق‘ کے لیے کالم لکھ سکتی ہوں۔ 20 برس کی عمر میں روزانہ کالم لکھنا کوئی آسان بات تو نہ تھی لیکن مزاج مہمُ جو تھا، سو میں نے حامی بھر لی۔

روزانہ کالم لکھنے کا نشہ اور اس کا بھی کہ انتظار صاحب کے ساتھ چھپ رہے ہیں۔ اس وقت تک ان کے دو افسانوی مجموعے شایع ہو چکے تھے۔ اب جب کہ وہ رخصت ہوئے ہیں تو یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ ہم ایک ہی اخبار کے ایک ہی صفحے پر شایع ہو رہے تھے۔ اس درمیان 80ء کی دہائی میں وہ دن بھی گزرے جب میں ’عالمی ڈائجسٹ‘ کی مدیر تھی اور انتظار صاحب ہماری فرمائش پر ہر مہینے ایک نبی کا واقعہ لکھتے تھے۔ یہ سلسلہ حضرت آدم ؑ سے شروع ہوا اور مہینوں چلتا رہا۔ کچھ عرصے بعد انتظار صاحب نے معذرت کر لی شاید اس لیے کہ ان کا مزاج تحقیقی نہیں تخلیقی تھا۔ کچھ یہ سبب بھی تھا کہ ضیاء الحق کا زمانہ تھا، معاملہ نبیوں کی زندگیوں کا تھا۔ ایک لفظ ادھر سے اُدھر ہوا اور جلاد نے شاتم رسول کا تیغہ لہرایا۔

انتظار صاحب ان لوگوں میں سے تھے جو قدامت پسندوں کے قہر سے گھبراتے تھے، اس کے باوجود یہ کہے بغیر بھی نہیں رہتے تھے کہ اسلام اگر ہندوستان میں اترتا تو اللہ تعالیٰ نے انجیر کے بجائے آم کی قسم کھائی ہوتی۔ اس واقعے کا ذکر آصف فرخی نے ’سفر کے خوش نصیب میں‘ کیا ہے۔ آصف سے انھیں گہرا تعلق تھا۔ یہ دونوں ساتھ ہوتے تو وہ جس طرح انتظار صاحب کے ناز اٹھاتے اسے دیکھ کر لوگ انھیں آصف کا ڈیڈ سمجھتے تھے۔

محبت اور خدمت کا کچھ یہی عالم فاطمہ حسن کا تھا۔ وہ کراچی آتے تو خود کو ان دونوں کی تحویل میں دے دیتے۔ مجھے بھی یہ شرف حاصل ہوا کہ ان کے ساتھ دلی اور لاہور کا سفر کروں۔ انڈیا انٹرنیشنل سینٹر دلی میں وہ صبح کی سیر سے پلٹتے تو ہم ساتھ ناشتا کرتے اور وہ پرندوں کی آوازوں پر اور پیڑ پودوں کے پتوں کے رنگ پر باتیں کرتے۔ ان سے آخری دو ملاقاتیں کراچی کے آرٹس کونسل کے ادبی سیمینار میں اور پھر فیض لٹریری فیسٹیول میں ہوئی جو الحمرا میں ہو رہا تھا اور جس میں وہ نوجوانوں کے ہجوم میں بانکے سجیلے نوجوان نظر آ رہے تھے۔

میرے افسانے انتظار صاحب کی نظروں سے گزرے تو انھوں نے ’’قیدی سانس لیتا ہے‘‘ کے بارے میں لکھا کہ:

’’میں نے زاہدہ حنا کے افسانے پڑھے اور بے کل ہو کر سوچا کہ یہ بی بی افسانہ لکھتی کس طرح سے ہے، رفتہ رفتہ معلوم ہوا کہ یہ بی بی افسانہ لکھتی نہیں، پورتی ہے، افسانے کی شکل کچھ اس قسم کی نکلتی ہے جیسے مکڑی نے جالا پور دیا ہو، یہ تاریخ کے پورے ہوئے جالے کا عکس ہے، ان افسانوں کے کردار تاریخ کے جالے میں پھنسے ہوئے کردار ہیں اور ایک کرب سے دوچار ہیں۔ ہجرت، پھر ہجرت اور پھر ہجرت۔ اس ہجرتی عمل کے واسطے سے تاریخ کتنی جابر نظر آتی ہے اور وقت کتنا سنگدل دکھائی دیتا ہے، تاریخ اور وقت کے اس شعور کے ساتھ کہانی کا کینوس کتنا پھیل گیا ہے۔

کہانی اپنے عہد کے تجربے سے پھوٹتی ہے مگر اپنے عہد کی صورتحال سے نکل کر زمانوں اور مہینوں میں تاریخ کی وسعتوں میں پھیلتی چلی جاتی ہے۔ زاہدہ حنا اپنے خانہ برباد کرداروں کے ساتھ تاریخ میں کرب ناک سفر سے واپس آنے کے بعد یہ دیکھنے کی کوشش کرتی ہیں کہ آج اس وقت ارد گرد کیا ہو رہا ہے لیکن اس سفر کا تجربہ ان کے ساتھ رہتا ہے، اسی لیے ان کی نظر کچھ زیادہ گہرائی میں جاتی نظر آتی ہے‘‘۔ انتظار صاحب کی لکھی ہوئی یہ سطریں یاد آتی ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنے بعد آنے والوں کے لیے کیسے دریا دل تھے۔

وہ اپنے آبائی قصبے ڈبائی سے لاہور پہنچے اور پھر انھوں نے رام جی کے بیٹوں کے آباد کیے ہوئے اس شہر میں اپنے آپ کو اس طرح کاشت کیا کہ وہ لاہور کے ہوئے اور لاہور ان کا۔ اس شہر اور اس کے آس پاس اور دور دراز کی بستیوں نے انتظار صاحب کو جس دلداری سے رخصت کیا ہے، اس کا تصور پنجاب کے بیشتر جدی پشتی ادیبوں کے ذہن میں نہیں آ سکتا۔

وہ مہاجرت اور ناسٹلجیا کے ادیب کہے جاتے تھے، پھر جانے کون سی گھڑی تھی کہ وہ جاتک کہانیوں کی طرف نکل گئے۔ اس کھوج میں انھوں نے مہاتما بدھ کی زندگیوں کی شناوری خوب کی۔ داستان گو تھے تو ہزاروں برس پرانی یہ داستانیں دوسروں کو سنانے سے کیسے باز رہتے۔ بقول انتظار صاحب:

’’ اواگون میں ایمان رکھنے والے کہتے ہیں کہ انسانوں میں بس ایک ہی انسان ایسا گزرا ہے جسے اپنے اگلے پچھلے سارے جنم یاد تھے۔ وہ مہاتما بدھ تھے۔ بس سوچتے جایئے اور معنی کے اندر سے معنی نکلتے چلے آئیں گے۔ یہ کہانیاں الگ الگ بھی ہیں، ایک دوسرے سے جڑی ہوئی بھی۔ الگ الگ حیثیت میں ان کی حیثیت ایک Circular Novel کی بن جاتی ہے۔ ہر کہانی کا اپنا ایک مطلب ہے۔

اپنے مختلف جنموں کی بات کرتے ہوئے مہاتما بدھ یہاں خالص کہانی کار ہیں۔ کہانی کے بہانے وہ کوئی وعظ نہیں دیتے۔ وہ تو بس کہانی سنا رہے ہیں۔ یا اپنے کسی جنم کی کوئی واردات جو اچھی بھلی ایک کہانی ہے۔ مہاتما بدھ سچے کہانی کار ہیں۔ کہانی سناتے ہوئے وہ اپنے اندر کے مبلغ یا اپدیشک کو قریب نہیں پھٹکنے دیتے۔

یہ الگ بات ہے کہ کوئی کوئی جاتک آج کی ہماری صورت حال پر تبصرہ کرتی نظر آتی ہے۔ مثلاً وہ جاتک جس میں مہاتما بدھ ایک راجہ کے روپ میں جنم لیتے ہیں۔ راجہ کی ایک بیٹی ہے جو باپ کی مرضی کے خلاف اپنے ہی خاندان کے ایک نوجوان سے عشق کرتی ہے اور اس کے ساتھ فرار ہو جاتی ہے۔ جب کہانی ختم ہوتی ہے تو بھکشوؤں نے کہا، یہ تو عجیب و غریب واقعہ ہے کہ راجہ کی بیٹی اس طریقہ سے بھاگ گئی یا اس کا اغوا ہو گیا۔

’’معلوم ہے وہ راجہ کون تھا، وہ میں تھا۔‘‘

’’تتھاگت وہ تم تھے۔ تمہاری راج کماری کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی۔ پھر کیا ہوا؟‘‘

’’ کچھ نہیں۔ میں نے دونوں کو رسانیت سے بلایا۔ دونوں کا بواہ کرادیا۔ راج پاٹ ان کے سپرد کیا۔ پھر میں نے اس جنم کو تیاگا اور بٹیر کا جنم لے کر وہاں سے اڑ گیا۔‘‘

مجھے احساس ہوا کہ یہ کہانی مہاتما بدھ نے مجھے سنائی ہے اور کہہ رہے ہیں کہ یہ تم نے اپنے ملک میں honourkilling کا کیا پاکھنڈ مچا رکھا ہے۔ مجھے دیکھو میں نے مسئلے کو کس طریقے سے حل کیا۔

کتنی جاتک کتھائیں ایسی ہیں کہ میں نے جب بھی الٹ پلٹ کر دیکھا تو مجھے لگا کہ یہ آج کی کہانی ہے اور کہانی سنانے والا کہہ رہا ہے کہ یہ لاکھوں برس پہلے کی کہانی ہے اور میں ایک لاکھ برس پہلے موجود تھا اور یہ کہانی نئے افسانوں سے زیادہ نئی معلوم ہوتی ہے۔

آپ نے دیکھا کہ کہانیوں کی یہ روایت نئی اور پرانی کہانیوں کی رنگ رنگ کی روایتوں سے یکسر کتنی مختلف ہے اور جو کہانی کہنے کا اسلوب وضع کیا گیا ہے وہ کتنا نرالا اور منفرد ہے۔ مگر کس طرح وضع کیا گیا ہے۔ کہانی کار نے کہانی کہنے کے اس اسلوب کو بسر کیا ہے، اپنے اندر اتارا ہے اس طرح کہ کہانی کے کرداروں کے ساتھ گھل مل گیا، کچھ اس رنگ سے کہ وہ انھی میں سے ہے۔ ان کے دکھ سکھ میں شامل ہے۔ ہر کہانی کے ساتھ وہ ایک پوری زندگی بسر کرتا ہے۔ کہانی کے انجام تک پہنچنے کے ساتھ ساتھ اس کی زندگی بھی اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے۔ اس انجام پر پہنچ کر وہ کہتا نظر آتا ہے کہ

موت ایک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر

تو کیا ہم یہ سمجھیں کہ ہمارا یہ بڑا کہانی کار جو بہ ظاہر اس دنیا سے گزر گیا ، وہ دم لے کر اب کسی اور دنیا میں کچھ اور کر رہا ہو گا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔