ادب کا آخری حُسین

مہرین فاطمہ  پير 8 فروری 2016
افسوس عبداللہ حسین کے بعد گذشتہ دنوں انتظار حسین بھی نہ پُر ہونے والا خلا چھوڑ گئے، لب مستنصر حسین تارڑ کی صحت، تندرستی اور سلامتی کے لئے دل کی گہرائیوں سے دعاگو ہیں۔ فوٹو: فیس بک

افسوس عبداللہ حسین کے بعد گذشتہ دنوں انتظار حسین بھی نہ پُر ہونے والا خلا چھوڑ گئے، لب مستنصر حسین تارڑ کی صحت، تندرستی اور سلامتی کے لئے دل کی گہرائیوں سے دعاگو ہیں۔ فوٹو: فیس بک

اس بار ساتواں کراچی ادبی میلہ 2016ء اپنی تمام تر رعنائیوں اور دل کشیوں کے باوجود بوجھل اور اداس معلوم ہو رہا تھا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے زیرِ اہتمام منعقدہ یہ ادبی میلہ اپنے ابتدائی دور میں صرف انگریزی ادب کی پذیرائی کے الزام کی زد میں رہا، مگر گذشتہ دو، تین برسوں سے اس میلے نے اردو ادب اور اس کے شائقین تک باہم رسائی کے لئے ایک ایسا آسمان مہیا کرنے کا بھی اہتمام کیا ہے جس کے تلے اردو کے کئی علم و دانش کے دلدادہ جمع ہونے لگے۔ ان میں بالخصوص حسینی ادیب عوام و خواص کی توجّہ کا مرکز ہوتے تھے، مگر پھر یوں ہوا کہ گذشتہ برس ایک کے پیچھے ایک حسینی ادیب نے عرشِ حقیقی کی پرواز  بھری اور غول کا آخری حسین اس ادبی میلے کے دوسرے روز بھری دوپہر میں اپنے عزیزِ من حسینوں کا نوحہ کرتا دُکھی اور شکستہ معلوم ہوا۔

2014ء کے کراچی ادبی میلے کے اختتام پر صحافی و استاد جناب حمیر اشتیاق صاحب نے اپنے ایک مضمون  A Tale of Three Hussains تحریر کیا، اور تینوں حُسین ۔۔۔۔ عبداللہ، انتظار اور مستنصر کو ایک دوسرے سے ہمیشہ کے لئے منصوب کردیا۔ افسوس عبداللہ حسین کے بعد گذشتہ دنوں انتظار حسین بھی نہ پُر ہونے والا خلا چھوڑ گئے، لب مستنصر حسین تارڑ کی صحت، تندرستی اور سلامتی کے لئے دل کی گہرائیوں سے دعاگو ہیں۔

کراچی لٹریچر فیسٹیول کے دوسرے روز اصغر ندیم سید کی میزبانی میں ’’سفر اور کہانی‘‘  کے عنوان سے مستنصر حسین تارڑ ایک خصوصی سیشن میں اسٹیج پر جلوہ گر ہوئے۔ اپنی گفتگو کا آغاز عبداللہ حسین اور انتظار حسین کے ساتھ گذارے ہوئے لمحات سے ان کے آخری ایام کے واقعات کو یاد کرتے ہوئے کیا۔ عبداللہ حسین کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس برس اس ادبی میلے میں شرکت سے پہلے یکایک احساس ہوا کہ ہمیشہ ہر ادبی محفل میں انہوں نےعبداللہ حسین کے ہمراہ شرکت کی۔ افسوس وہ اس بار ساتھ نہ ہوں گے۔ آنکھیں بہ لحاظِ محفل نم ناک نہ تھیں مگر لہجہ بوجھل تھا۔

اردو ادب میں مستنصر حسین تارڑ کا نام کسی تعارف بلکہ تعریف کا بھی محتاج نہیں۔ یقیناً ان کے سفر نامے نے اردو کے سفر کو تیز تر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جس دوسری صنف اردو پر ان کی خاص نظرِ کرم رہی، وہ کالم نویسی ہے۔ اس کے علاوہ ناول، ڈرامے اور افسانے بھی ان کا خاصہ ہیں مگر زیادہ توجہ سفر ناموں اور کالموں پہ ہی مرتکز رہی، مگر اب کی بار مستنصر حسین تارڑ اپنی نئی تصنیف ’’پندرہ کہانیاں‘‘ کے ساتھ حاضر تھے۔ 25 برس کے طویل وقفے کے بعد کہانیوں پر مشتمل اس کتاب سے اپنے پسندیدہ اقتباسات حاضرینِ محفل کی سماعتوں کی نذر کئے، سب سے پہلے اپنے والدِ مرحوم کا تذکرہ کرتے ہوئے پہلا اقتباس پہلی کہانی، ’’پھولوں والی  پہاڑی‘‘ سے پڑھا۔ کہانی کا اختتام یہ کہہ کر کیا کہ اگرمٹی کا کوئی پیغمبر ہوتا تو میرا باپ ہوتا۔

دوسرا اقتباس اگلی کہانی ’’جوہڑ میں ڈوب چکی لڑکی‘‘ اور اگلا ’’ایک سنو ٹائیگر کی سرگزشت‘‘ سے خدمتِ سماعت کیا۔ قرآنِ حکیم کی آیت سے متاثر ہوکر ایک کہانی ’’باتیں کرتے ہاتھ اور گواہیاں دیتے پاؤں‘‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے نازک موضوعات اور ان کے تقاضوں سے متعلق اپنے گذشتہ اور آج کے اسلوبِ تحریر پر بھی سیر حاصل گفتگو کی۔ مستنصر حسین تارڑ اپنی کہانیوں کے آخری اقتباس کی گوش گذاری کے لیے بے تاب تھے۔ بالآخر موضوع سمیٹتے ہوئے اس آخری اقتباس  پر جسے افسانوی مرثیہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، یہ چند جملے حاضرین کی آنکھیں نم اور دل غمگین کرگئے۔

16 دسمبر 2014 کو پاکستان ہی نہیں بلکہ جدید دنیا کی تاریخ میں رونما ہونے والے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) سانحے نے ساری انسانیت کو جھنجھوڑ دیا۔ اسی واقعے کے زیرِ اثر ’’اے میرے ترکھان‘‘ کےعنوان سے اپنی ایک کہانی کا طویل اقتباس پڑھا۔ اپنے بچپن سے اُس ترکھان کو آواز دی جو کھلونے، پنگوڑے اور پلنگ بناتا تھا مگر اب کے فرمائش میں ان ڈیڑھ سو ننھے تابوتوں کی ضد کی کہ جنہوں نے معصوم ہونے کے باوجود وقتِ آخر کلمے بھی پڑھ لئے تھے اور جن کے گناہ جیتے جی میں ایسے نہ تھے کہ ان کے لئے دعائے مغفرت کی زحمتوں سے بے حسوں کو بے زار کیا جائے۔ کہانی کے آخری جملے اس فوت شُدہ ترکھان سے التجا پر مبنی ہیں، کہتے ہیں،

’’گھڑ دے۔۔ کچھ تابوت گھڑ دے۔۔۔۔

اے مرے ترکھان، ہمارے نہیں جئے، تیرے بچے جئیں، کچھ تابوت گھڑ دے‘‘۔

مجمع میں موجود ہر فرد کی آنکھیں حُسین کے ساتھ نوحہ کناں تھیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

مہرین فاطمہ

مہرین فاطمہ

گذشتہ 4 سالوں سے مختلف ٹی وی چیلنز میں بحیثیت نیوز پروڈیوسر کام کرچکی ہیں۔ فی الحال جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغِ عامہ مین ماسٹرز پرروگرام میں زیرِ تعلیم ہیں۔ شوقیہ لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی چند ایک برس سے جاری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔