ٹیلی کام سیکٹر کو ٹیکسوں میں ریلیف ملنے کا امکان

ارشاد انصاری  منگل 9 فروری 2016
پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ویمپل کام کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نے وفد کے ہمراہ گزشتہ روز اہم ملاقاتیں کی ہیں، ذرائع۔ فوٹو: فائل

پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ویمپل کام کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نے وفد کے ہمراہ گزشتہ روز اہم ملاقاتیں کی ہیں، ذرائع۔ فوٹو: فائل

 اسلام آباد:  وفاقی بجٹ میں ٹیلی کام سیکٹرکو مختلف ٹیکسوں کی مد میں ریلیف ملنے کا امکان ہے۔

اس سلسلے میں وفاقی حکومت نے آئندہ بجٹ میں سم سپلائی ٹیکس اور آئی ایم ای آئی ٹیکس کے حوالے سے غیرملکی کمپنیوں کے تحفظات دور کرنے پر نظرثانی کرنے کی یقین دہانی کرا دی۔ اس ضمن میں ویمپل کام اور موبی لنک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر جین وائی چارلر نے وفد کے ساتھ گزشتہ روز وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار سے ملاقات کی، اس موقع پر وزیر اعظم کے مشیر برائے ریونیو ہارون اختر، وزارت خزانہ کے دیگر اعلی حکام بھی موجود تھے۔

اس سے قبل وفد نے وزیرمملکت آئی ٹی انوشہ رحمن سے بھی ملاقات کی۔ ذرائع کے مطابق وزیر خزانہ سے ملاقات میں ٹیلی کام انڈسٹری کو درپیش مسائل پر تبادلہ خیال ہوا، ویمپل کام و موبی لنک کے چیف ایگزیکٹو آفیسرجین وائی چارلرنے موبی لنک کی پیرنٹ کمپنی ویمپل کام کے بانی چیئرمین اوگی کے فیبیلاٹوکی ہیگ میں پاکستانی سفیر کے ساتھ 10نومبر 2015 اور اپریل 2015 میں ویمپل کام، ٹیلی نار، اتصالات وچائنا موبائل کے گروپ چیفس اور چیئرمین بورڈ ایگزیکٹو کمیٹی ابوظبی گروپ کے دستخطوں سے وزیراعظم کو لکھے جانے والے خط کا بھی حوالہ دیا ۔

جس میں ٹیلی کام انڈسٹری کے مسائل سے آگاہ کیا تھا اور پھر وزارت خارجہ نے وزارت خزانہ کو خط لکھ کر غیرملکی کمپنیوں کے تحفظات دور کرنے کے لہے حکومت کو سم سپلائی ٹیکس اور آئی ایم ای آئی ٹیکس ختم کرنے کی سفارش کی تھی جبکہ وزیراعظم کو خط میں مذکورہ تمام ٹیلی کام کمپنیوں کے گروپ چیف نے ٹیلی کمیونی کیشن آلات کی درآمد پر 5فیصد رعایتی ڈیوٹی بحال، نئی سم کی سپلائی پر عائد 250 روپے ٹیکس، سیلولر موبائل فون آپریٹرز کے ذریعے آئی ایم ای آئی ٹیکس کی کلیکشن سمیت سم ایکٹیویشن و دیگر تمام سیکٹر اسپیسیفک ٹیکس ختم کرنے کی درخواست کی تھی۔

ذرائع کے مطابق پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ویمپل کام کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نے وفد کے ہمراہ گزشتہ روز اہم ملاقاتیں کی ہیں اور توقع ہے کہ اس بارے میں جلد ایف بی آر میں بھی اعلی سطح کا اجلاس ہوگا جس میں اس حوالے سے تفصیلی جائزہ لیا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔