جواب کون دے گا؟

میرشاہد حسین  منگل 9 فروری 2016
ہماری حالت ایسی شاہراہ کی سی ہے جس پر ٹریفک جام ہے اور ہر کوئی اپنا ہارن بجا کر راستہ لینا چاہتا ہے۔ بلا سوچے سمجھے کہ جب تک آپ راستہ نہیں دیں گے، آپ کو بھی راستہ نہیں ملے گا۔ فوٹو: اے ایف پی

ہماری حالت ایسی شاہراہ کی سی ہے جس پر ٹریفک جام ہے اور ہر کوئی اپنا ہارن بجا کر راستہ لینا چاہتا ہے۔ بلا سوچے سمجھے کہ جب تک آپ راستہ نہیں دیں گے، آپ کو بھی راستہ نہیں ملے گا۔ فوٹو: اے ایف پی

ذہن میں اٹھنے والے سوالات اور شبہات پہلے کیا کم تھے جو میڈیا ٹاک شوز کے بعد اُن میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ ہر شخص کے پاس ایک سوال ہے اور جواب میں ایک اور سوال ہے۔ یہ سوالات کا سلسلہ کچھ ایسا چل نکلا ہے کہ عام انسان کا ذہن انتشار کا شکار ہو کر رہ گیا ہے۔ ایسے میں بے شمار سوالات کے درمیان ایک اہم سوال یہ بھی پیدا ہوگیا ہے کہ جواب کون دے گا؟

میرے خیال میں ایسا صرف اسی معاشرہ میں ہوتا ہے، جہاں کوئی بھی اپنی ذمہ داری محسوس نہ کرے اور اپنی ذمہ داری اور غلطی کو دوسروں پر ڈال کر خود کو بری الذمہ سمجھنے کا رجحان ہو۔ میڈیا پر کسی حکومتی نمائندے سے سوال کیا جائے کہ حالات کیوں قابو نہیں ہو رہے تو اس کا پہلا جواب تو یہی ہوگا کہ ایسا نہیں ہے اور اگر مان بھی لیا جائے تو اس میں اپوزیشن کا قصور ہے۔ اپوزیشن تو پہلے ہی سوالات لے کر بیٹھے ہیں اور پھر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے کھینچتے وقت پورا ہوگیا اور سوال وہیں کا وہیں موجود ہے۔ جواز بدتر از گناہ کے مصداق جواب ملتا ہے۔ جیسے انہوں نے استعفیٰ نہیں دیا تو ہم کیوں دیں؟ ہم نے کرپشن کی ہے تو کیا ہوا؟ انہوں نے بھی تو کی ہے، پہلے ان سے باز پرس کرکے سزا دی جائے۔

میں نے اپنے بچے کو آواز دی کہ بیٹا ادھر آؤ۔ اس نے وہیں سے جواب دیا جی آیا، لیکن آیا پھر بھی نہیں۔ پھر میرے غصے کو دیکھ کر جب بادل نخواستہ آیا تو میں نے اسے کوئی کام کرنے کو کہا، وہ جی کہہ کر چلا گیا اور پھر کافی دیر تک نہیں آیا تو میں نے پھر بلایا۔ وہ پھر بادل نخواستہ آیا۔ میرے غصے پر کہنے لگا کہ میں آپ کے حکم کا احترام کرتا ہوں، اور میں یہ سوچتا رہ گیا کہ یہ کیسا احترام ہے کہ بات تو مانی ہی نہیں اور احترام اپنی جگہ قائم ہے۔

ہماری حکومتیں بھی کچھ ایسے ہی احترام پر یقین رکھتی ہیں اور بڑے فخر سے کہتی ہیں کہ ہم نے عدالتوں پر حملہ نہیں کیا، لیکن کیا یہ کم ہے کہ عدالتوں کے احکامات کو صرفِ نظر کرکے خود جج بن کر بیٹھ جایا جائے۔ میرے نزدیک یہ رویہ کسی حملہ سے کم نہیں ہے۔ کیونکہ حملہ صرف ایک بار کیا جاتا ہے اور کسی کی اہمیت کو ہی ختم کرکے رکھ دینا حملہ کرکے قتل کر دینے کے مترادف ہے۔ ماضی سے لے کر آج تک بے شمار سانحات اور حادثات رونما ہوئے، لیکن ہم نے کسی ایک کا بھی جواز تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی بد قسمتی سے کسی کو بھی کسی واقعہ کا قصور وار ٹھہرایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ حادثات تھمنے کے بجائے بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔

غلطی انسانی کمزوری ہے اور یہ زندگی کا حصہ ہے مگر اس کا اعتراف نہ کرنے کی بڑی وجہ سزا کا خوف اور پشیمانی ہے۔ ہم ایسے لوگوں کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے جو اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہیں۔ قائد اعظم جیسے عظیم رہنما پہلے کانگریس میں تھے لیکن جب انہیں حقیقت کا ادراک ہوگیا تو انہوں نے کانگریس چھوڑنے میں بالکل تاخیر نہ کی۔

ہم اپنی منزل کا تعین کرتے ہیں اور اس کے لئے کسی بھی ایسی پارٹی کا انتخاب کرتے ہیں جو آپ کے خیال میں اس کے حصول میں معاون ہوسکے، لیکن اگر آپ محسوس کریں کہ پارٹی کسی اور سمت میں سفر کررہی ہے اور آپ جانتے بوجھتے اسی میں سفر کرتے رہیں تو یہ کہاں کی دانشمندی ہے؟ یہ اور بات ہے کہ ہم پارٹی کو ہی اپنی منزل بنالیں۔ زندگی کسی ایک مقصد کے گرد گھومتی ہے، اب یہ مقصد ذاتی مفاد بھی ہو سکتا ہے، پیسے کا حصول بھی ہوسکتا ہے، طاقت کا حصول بھی ہوسکتا ہے اور خودنمائی کا شوق بھی۔

ہماری حالت ایسی شاہراہ کی سی ہے جس پر ٹریفک جام ہے اور ہر کوئی اپنا ہارن بجا کر راستہ لینا چاہتا ہے۔ جس کا دل جدھر چاہتا ہے اپنی گاڑی نکالنے کی فکر کرتا ہے، بلا سوچے سمجھے کہ جب تک آپ راستہ نہیں دیں گے، آپ کو بھی راستہ نہیں ملے گا۔ اسی کشمکش میں وقت کا زیاں بھی ہورہا ہے اور منزل کی جانب سفر بھی رک کر ذاتی مفاد میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ کوئی لیڈر نہیں جو ہمیں منظم کرکے ہمیں اس الجھن سے نکال سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شخص اپنی اپنی جگہ جیسے سمجھ میں آتا ہے بند راستہ کھولنے کی کوشش کرتا ہے لیکن راستے ایسے نہیں کھلا کرتے۔ اس کے لئے کسی ایک ہاتھ کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے کہنے پر چلا جائے اور اسی کے کہنے پر رکا جائے۔ ورنہ اس طرح 100 سال بھی گذر گئے تو ہم اسی بند شاہراہ پر اپنی زندگی کا ایندھن ختم کردیں گے۔

کیا آپ کے پاس بلاگر کے سوالات کا جواب ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

میرشاہد حسین

میرشاہد حسین

میر شاہد حسین نے اپنے قلمی سفر کا آغاز بچوں کے معروف رسالہ سے 1995ء میں کیا۔ بعد ازاں آپ اسی رسالے کے مدیر بھی رہے۔ آپ کو بچوں کے ادب میں بہترین ادیب کا ایوارڈ نیشنل بک فاؤنڈیشن کی طرف سے دیا گیا۔ آج کل بچوں کے بڑوں پر بھی اپنے قلم کے جوہر دکھانے کی کوشش کررہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔